منتخب کردہ کالم

جانبداریت گئی تیل لینے

”اگر آپ ناانصافی کے وقت غیر جانبدار رہتے ہیں تو دراصل آپ ظالم کے ساتھ ہیں۔ اگر ایک ہاتھی کا پائوں چوہے کے اوپر ہو اور آپ کہیں کہ میں غیر جانبدار ہوں تو چوہا آپ کی غیر جانبداریت کو نہیں سراہے گا‘‘۔ نوبل ایوارڈ یافتہ افریقی بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو
”جہنم کی سب سے دہکتی ہوئی جگہیں ان افراد کے لئے مخصوص ہیں جو کسی بڑی اخلاقی کشمکش کے دوران غیر جانبدار رہتے ہیں‘‘۔ 13ویں صدی کے معروف اطالوی شاعر اور ادیب دانتے
”کوئی انسان جو سچ مچ زندہ ہو، نیوٹرل نہیں رہ سکتا‘‘۔ جنوبی افریقہ کی نوبیل ایوارڈ یافتہ مصنفہ اور ادیب ناڈین گورڈیمر
ایک طرف ان نابغہ روزگار شخصیات کے اقوال زریں ہیں تو دوسری طرف یہ گھسا پٹا ساروایتی کالا قول کہ صحافی کو غیر جانبدار ہونا چاہئے۔ خدا جانے کس کافر نے پہلی مرتبہ یہ جملہ متعارف کروایا مگر اس کی بازگشت بہت سنی ہے۔ خبر کا لپکا اور اخبار کا چسکا تو طبیعت میں تھا ہی مگر جب مکتب صحافت میں قدم رکھا تو کہنہ مشق اساتذہ نے پہلا سبق غیر جانبداریت کا دیا۔ تواتر سے بتایا گیا کہ صحافی کی کوئی ذاتی پسند نہ پسند یا سیاسی وابستگی نہیں ہوتی۔ مسلسل سمجھایا گیا کہ خواہش کو خبر بنانے سے گریز کریں اور تجزیہ کرتے وقت قلم کو بے رحم معالج کے نشتر کی طرح چلائیں۔ ہم نے دلجمعی کے ساتھ یہ سبق یاد کرنے کے بعد اپنے اساتذہ کی طرف نظر دوڑائی تو کچھ ایسی کیفیت نظر آئی:
”میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا‘‘
صحافت میں غیر جانبداریت کا درس دینے والے کسی کی محبت میں گھائل اور کسی کی نفرت پر مائل دکھائی دیئے تو ماتھا ٹھنکا۔ کچھ ایسے ”صالح‘‘ بھی تھے جو ہر آنے والے کی شان میں قصیدے پڑھتے اور ہر جانے والے کے عیب چنتے۔ مگر تملق، خوشامد اور مدح سرائی کے اس زمانے میں بھی مروت اور وضعداری کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا اور غیر جانبداریت کا تڑکہ لگائے بغیر بات نہیں بنتی تھی۔ ان بھلے وقتوں میں اگر تعریف کا ڈھنگ مناسب تھا تو تنقید کا رنگ اور اسلوب بھی بڑی حد تک موزوں ہوا کرتا تھا۔ صحافتی اداروں کے مالکان اور صحافیوں کی وابستگیاں تو تھیں مگر ”ڈنڈی‘‘ کے بجائے ”ڈنڈا‘‘ مارنے کی روایت نہیں تھی۔ گویا صحافت کا بھرم قائم تھا مگر ”تبدیلی کا سیلاب بلا‘‘ ان سب اقدار و روایات کو خس و خاشاک کی مانند بہا لے گیا۔ جس طرح امریکہ بہادر نے کہا تھا ”آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف‘‘ اسی طرح ”نئے پاکستان‘‘ کے علمبرداروں نے اہل صحافت سے بھی غیر جانبداریت کی تنی ہوئی رسی پر چلنے کا حق چھین لیا اور انہیں اس بند گلی کی طرف دھکیل دیا جہاں حمایت یا مخالفت کے علاوہ کوئی آپشن ہی نہیں۔ اگر آپ تحریک انصاف کے ناقد ہیں، اگر آپ جمہوریت کے استحکام اور تسلسل کی بات کرتے ہیں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ احتساب کی آڑ میں کٹھ پتلیوں کا کھیل نہ رچایا جائے، اگر آپ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ صرف نواز شریف کے بجائے سب کا احتساب ہو، اگر آپ جے آئی ٹی کی پراسراریت پر سوالات اٹھاتے ہیں، اگر آپ کسی سازش کی بو سونگھتے ہیں تو پرانے پاکستان کے باسی بیشک آپ کی جرات اظہار کو سلام کریں مگر طفلان انقلاب کے نزدیک آپ پٹواری اور لفافہ صحافی ہیں۔ اس کے برخلاف اگر آپ کا خیال ہے کہ خیبر پختونخوا میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں، اگر آپ کو عمران خان مسیحا اور نجات دہندہ کے روپ میں دکھائی دیتے ہیں، اگر آپ یہ توقع کرتے ہیں کہ عدلیہ پاناما کیس کی قانونی موشگافیوں میں پڑے بغیر شریف خاندان کو نشان عبرت بنا دے، اگر آپ عدلیہ اور فوج کے بارے میں مثبت خیالات کے حامل ہیں تو پھر آپ نئے پاکستان کے ہیرو اور پرانے پاکستان میں زیرو ہیں۔ ایک فریق آپ کو حق سچ کی آواز قرار دے گا تو دوسرا ”بوٹ پالشیئے‘‘ کی پھبتی کسے گا۔
ویسے یہ نیوٹرل کی اصطلاح بھی چیستاں میں لپٹی پہیلی میں چھپے کسی معمے سے کم نہیں۔ سرد جنگ کے دوران دنیا دو حصوں میں بٹ گئی، بعض ممالک روس سے منسلک تھے تو کچھ امریکہ سے وابستہ تھے۔ ایسے میں غیر وابستہ ممالک نے ایک نئی خو متعارف کروائی اور اپنی الگ پہچان بنائی لیکن چونکہ انہوں نے بھی ایک پوزیشن لی اس لئے نیوٹرل نہیں کہلا سکتے۔ سفارتکاری کا شعبہ ہو یا سیاست کا میدان، نیوٹرل نام کی کوئی چڑیا کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ آپ کسی بھی ایشو پر ہونے والی ووٹنگ کے دوران حمایت کرتے ہیں ،مخالفت یا پھر حق رائے دہی استعمال نہ کرکے پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں لیکن ایسی صورت میں بھی آپ بے حس و حرکت اور جامد نہیں ہوتے اس لئے آپ کی پوزیشن کو سفارتی یا سیاسی زبان میں نیوٹرل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ علم طبعیات کی رو سے دو قسم کے الیکٹرک چارج ہوتے ہیں ،ایک مثبت اور دوسرا منفی مگر غیر جانبدار عنصر (نیوٹرل پارٹیکل ) وہ ہوتا ہے جس کا کوئی الیکٹرک چارج نہیں ہوتا۔ کیمسٹری کے مطابق جو شے بے رنگ ،بے بو اور بے ذائقہ ہو ،وہ نیوٹرل کہلاتی ہے۔ میکانیاتی اعتبار سے دیکھیں تو جب کوئی گاڑی ٹھہری ہوتی ہے ،انجن متحرک نہیں ہوتا ،کوئی بھی گیئر نہیں لگایا ہوتا ،تب کہا جاتا ہے کہ گاڑی نیوٹرل ہے۔ حیاتیاتی نقطہ نظر سے دیکھیں تو انسان ہوں یا حیوان انہیں نر اور مادہ کی حیثیت سے تقسیم کیا جاتا ہے اور جو نیوٹرل ہوتے ہیں وہ بھی دونوں طرح کے میلانات رکھنے کے باوجود کسی ایک طرف زیادہ کشش محسوس کرتے ہیں۔ گویا دنیا میں کہیں بھی ”غیر جانبداریت‘‘ کا وجود نہیں۔ غیر جانبداریت دراصل پرلے درجے کی منافقت اور انتہائی بزدلی کا نام ہے۔ اب آپ خود ہی قیاس کر لیں کہ صحافت اگر غیر جانبدار ہو تو کس قدر بے مزہ ،پھیکی اور بے رنگ ہو۔ غیر جانبداریت سے متعلق میری ان تاویلات اور توجیہات کو آپ دل کو بہلانے کی اپنی سی کاوش بھی کہ سکتے ہیں مگر سچ یہی ہے کہ آپ معتدل تو ہو سکتے ہیں مگر غیر جانبدار نہیں۔ جانبداری میں کوئی قباحت نہیں اگر یہ مصلحت کے بجائے انصاف کے تابع ہو۔
موجودہ صحافت کا المیہ یہ نہیں کہ آپ فریقین کی نظر میں بیک وقت ہیرو بھی ہوتے ہیں اور زیرو بھی، المیے سے بڑھ کر سانحہ تو یہ ہوا ہے کہ حالات کے جبر نے اہل صحافت کو دو انتہائی پوزیشنیں لینے پر مجبور کر دیا ہے۔ سب اپنی اساطیر کے دائرے میں مقید ہیں۔ مجھ جیسے وہ لوگ جو پیشہ ورانہ صحافت کے باعث کسی ایک پلڑے میں اپنا وزن ڈالنے کو تیار نہیں اور چاہتے ہیں کہ ترازو درمیاں ٹھہرے، وہ ہر ایک کے لئے راندہ درگاہ اور معتوب ہیں ،گاہے ایک طرف سے الزامات کی بوچھاڑ ہوتی ہے تو کبھی دوسری طرف سے مغلظات کی برسات۔ غیر جانبداریت تو جانے کب سے گئی تیل لینے اور پھر پلٹ کر نہ آئی۔ سچ پوچھیں تو اس ”دور عمرانی ‘‘ میں غیرجانبداریت تو کیا معقولیت کی گنجائش بھی باقی نہیں رہی۔
غیر جانبداریت دراصل پرلے درجے کی منافقت اور انتہائی بزدلی کا نام ہے۔ اب آپ خود ہی قیاس کر لیں کہ صحافت اگر غیر جانبدار ہو تو کس قدر بے مزہ ،پھیکی اور بے رنگ ہو۔ غیر جانبداریت سے متعلق میری ان تاویلات اور توجیہات کو آپ دل کو بہلانے کی اپنی سی کاوش بھی کہ سکتے ہیں مگر سچ یہی ہے کہ آپ معتدل تو ہو سکتے ہیں مگر غیر جانبدار نہیں۔ جانبداری میں کوئی قباحت نہیں اگر یہ مصلحت کے بجائے انصاف کے تابع ہو۔