جاوید ہاشمی کی انتخابی سیاست سے رخصتی…..خالد مسعود خان
الیکشن میں صرف ایک مہینہ باقی رہ گیا ہے اور ابھی تک ٹکٹوں کا فیصلہ مکمل نہیں ہونے پا رہا۔ ملتان کے حلقہ این اے154 پر سب سے زیادہ فساد مچا ہوا ہے۔ اس حلقہ سے حاجی سکندر حیات بوسن ‘جو 31مئی 2018ء تک ‘یعنی سابقہ حکومت کے آخری دن تک وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ رہے اور ابھی تک باقاعدہ طور پر پی ٹی آئی میں شامل بھی نہیں ہوئے تھے کہ پی ٹی آئی کے سب سے مضبوط متوقع امیدوار ہیں‘ مضبوط سے مراد پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے حصول کے لئے قطار میں کھڑے امیدواروں میں ٹکٹ حاصل کرنے کے حوالے سے سب سے مضبوط۔ انہیں گزشتہ روز تو ٹکٹ جاری بھی ہو گیا تھا‘ مگر رات گئے پھر روک لیا گیا۔ ان پر اعتراض تھا کہ وہ ابھی تک باقاعدہ طور پر پی ٹی آئی میں شامل بھی نہیں ہوئے اور انہیں ٹکٹ جاری کردیا گیا ہے؛ حالانکہ اس سے پہلے جب انہیں ٹکٹ جاری ہوا تھا‘ انہوں نے پی ٹی آئی کو اس ٹکٹ کے لئے نہ تو باقاعدہ درخواست دی تھی اور نہ ہی ٹکٹوں کا فیصلہ کرنے والے بورڈ کے سامنے پیش ہوئے تھے۔ واقفان ِحال کا کہنا ہے کہ ٹکٹ بہرحال سکندر بوسن کو ہی ملے گا اور وہ ایک پنجابی کہاوت کے مطابق یہ ” گونگلوئوں(شلجم) سے مٹی اتارنے کے مترادف ہے‘‘ وہ پی ٹی آئی میں شمولیت کا دو چار روز میں اعلان کردیں گے اور رکا ہوا ٹکٹ انہیں ایک بار پھر جاری کردیا جائے گا۔
اس بار پی ٹی آئی کو خود دھرنے سے سابقہ پڑ گیا تھا۔ ظاہر ہے پی ٹی آئی نے اپنے کارکن کو سوائے دھرنے کے اور کچھ سکھایا بھی نہیں۔ نہ سیاسی تربیت کی اور نہ ہی سلیقہ سکھایا۔ نہ تحمل کی سیاست خود کی اور نہ کسی نوجوان کو سکھائی؛ حالانکہ پڑھے لکھے نوجوان ایک بڑی تعداد میں اس جماعت میں تھے اور ایک نیا پاکستان بنانے سے پہلے ‘ایک نئی تربیت یافتہ سیاسی فورس ضرور بنائی جا سکتی تھی‘ مگر پاکستان کی سیاست میں نئی آمدہ یہ سیاسی فوج ‘ ایک غیر منظم ‘ منتشر اور بدلحاظ گروہ کے علاوہ اپنے آپ کو کچھ اور ثابت نہ کر سکی۔
بات پی ٹی آئی کے اس دھرنے کی ہو رہی تھی‘ جو اس کے ورکروں نے بنی گالا میں دیا۔ اور عمران خان کا گھر سے نکلنا کئی روز بند رہا۔ شاہ جی نے مجھ سے پوچھا کہ اس دھرنے کا انجام کیا ہو گا؟ میں نے کہا :کچھ بھی نہیں ہو گا۔ پی ٹی آئی والے بے مقصد اور لا حاصل دھرنے دینے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ نہ انہوںنے پہلے کبھی کسی دھرنے سے کوئی نتیجہ حاصل کیا اور نہ ہی اس بار حاصل کریں گے۔ وہ پہلے بھی نواز شریف سے استعفیٰ لینے گئے تھے اور ریحام خان لے کر آ گئے‘ جس نے ساری پی ٹی آئی کی ہوا نکال رکھی ہے ۔ شاہ جی پوچھنے لگے: کیا مطلب ہے‘ تمہارا اس ہوا نکالنے سے؟ میں نے کہا: اس نے اپنی آنے والی کتاب کے حوالے سے ساری پی ٹی آئی کی ہوا تو نکال رکھی ہے اور اس سے کیا مطلب ہے ؟
بنی گالہ کے دھرنے میں بنیادی طور پر سارے دھرنے بازوں کا تعلق ملتان کے حلقہ این اے154 سے ہی تھی اور اسے احمد حسین ڈیہڑ ملتان سے بسوں میں بھر کر لے گیا تھا‘ بلکہ اس دوران ہر دوسرے دن ایک بس تازہ دم دھرنے بازوں کی اسلام آباد پہنچاتا بھی رہا۔ یہ ساری لڑائی صرف سکندر بوسن بمقابلہ احمد حسین ڈیہڑ نہیں تھی‘ بلکہ اس کی جڑیں جہانگیر ترین بمقابلہ شاہ محمود قریشی تک پہنچی ہوئی تھیں۔ سکندر بوسن کو ٹکٹ دلوانے کے لئے جہانگیر ترین اینڈ کمپنی زور لگا رہی ہے اور احمد حسین ڈیہڑ کے احتجاج کے پیچھے شاہ محمود قریشی ہے۔ یہ ساری زور آزمائی دراصل اوپر والے لیول پر ہو رہی ہے ۔ سکندر بوسن اور احمد حسین ڈیہڑ تو میدان ِجنگ میں لڑنے والے وہ فوجی ہیں‘ جنہیں ان کے جرنیل اپنی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے میدان ِجنگ میں اتارے ہوئے ہیں‘ جیسے پی ٹی آئی کے پہلے دھرنے بالآخر بے نتیجہ ختم ہوئے تھے ‘یہ والا دھرنا بھی کسی مقصد کے حصول کے بغیر ختم ہو گیا‘ تاہم خوشی کی بات یہ ہے کہ تحریک ِ انصاف کے ورکروں نے عمران خان سے حاصل شدہ دھرنے کی تربیت کو آخر کار بنی گالا میں استعمال کیا اور عمران کا گھر سے نکلنا محال کردیا۔
حلقہ این اے 154 پر‘ اگر پی ٹی آئی نے اپنا امیدوار ابھی تک فائنل نہیں کیا‘ تو دوسری طرف مسلم لیگ ن بھی شش و پنج میں مبتلا ہے۔ پہلے سنا تھا کہ اس نے اپنے ایم پی اے شہزاد مقبول بھٹہ کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دے دیا ہے‘ لیکن اب شنید ہے کہ وہ احمد حسین ڈیہڑ کے منتظر ہیں کہ وہ پی ٹی آئی سے فارغ ہو کر آئے تو اسے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کی آفر کی جا سکے۔ شہزاد مقبول بھٹہ کی سیاسی حالت (ذاتی حوالوں سے) کافی ناگفتہ بہ ہے۔ موصوف نے گزشتہ پانچ سالوں میں ہر طرف ہاتھ صاف کئے تھے اور مال پانی بنایا تھا۔ زندگی بھر سنتے آئے تھے کہ پٹواری لوگوں کی چیخیں نکلوا دیتے ہیں۔ شہزاد مقبول بھٹہ وہ تاریخی شخصیت ہے ‘جس نے پٹواریوں سے منتھلیاں لے لے کر ان کی چیخیں نکلوا دیں تھیں۔
پیپلزپارٹی کا بھی الحمد للہ خاصا برا حال ہے۔ ملتان کے چھ قومی حلقوں میں سے تین پر تو صرف گیلانی صاحبان الیکشن لڑ رہے ہیں۔ این اے 154 پر عبدالقادر گیلانی(پسر یوسف رضا گیلانی) این اے 157 پر علی موسیٰ گیلانی( پسر یوسف رضا گیلانی) اور این اے 158 پر خود یوسف رضا گیلانی امیدوار ہیں۔ ایک صوبائی نشست پر بھی علی حیدر گیلانی امیدوار ہیں‘ یعنی خود یوسف رضا گیلانی اور تین فرزند ملتان سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس سے آپ خود اندازہ لگا لیں کہ صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر مسلم لیگ ن کا ناکام امیدوار(ٹکٹ لینے میں ناکام) خاندانی پٹواری رائے منصب علی کو علی موسیٰ گیلانی کے نیچے ٹکٹ دی جارہی ہے؛ حالانکہ رائے منصب علی اس نشست پر گزشتہ الیکشن میں مسلم لیگ ن کی طرف سے کامیاب ہو گیا تھا‘ لیکن اس دوران اس کی اپنے ایم این اے دودھ فروش عبدالغفار ڈوگر سے نہیں بنی اور اس بار غفار ڈوگر نے اس نشست پر اپنے نیچے ایک جعلی کھاد فروش کوٹکٹ دلواد دی ہے کہ اس کے پاس جعلی کھاد کے کاروبار سے حاصل شدہ لمبے نوٹ ہیں ا ور وہ نہ صرف اپنا‘ بلکہ غفار ڈوگر کے الیکشن کا خرچہ بھی اٹھائے گا اور مزید ہدیہ بھی عطا کرے گا۔
ایک اور حلقہ پی پی214 پر بھی بڑا گھمسان کا رَن پڑا ہوا ہے۔ اس حلقہ سے الیکشن2013 ء میں ظہیر الدین خان علیزئی کامیاب ہوا تھا۔اس بار بھی اسے ٹکٹ مل گیا تھا ‘مگر گزشتہ روز یہ ٹکٹ بھی کینسل ہو گیا ہے۔ ایک شنید یہ ہے کہ اس پر سابقہ ایم پی اے( 2008ئ) شاہد محمود کوٹکٹ دیا جارہا ہے‘ جبکہ دوسری تگڑی افواہ یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی کی بھانجی کے شوہر معین الدین ریاض قریشی کو پی پی213 سے ٹکٹ نہ ملنے کے بعد اس حلقہ سے ٹکٹ دیا جارہا ہے۔ ابھی کچھ واضح نہیں ہے‘ لیکن ملتان شہر کی چار صوبائی سیٹوں پر ابھی فیصلہ باقی ہے ۔پی پی211 اور212 پر بھی پھڈا ہے‘ یہاں سے سکندر بوسن خود اور اس کا بھائی پی ٹی آئی کی طرف سے امیدوار بننے کی تگ و دو میں ہیں‘ لیکن پی ٹی آئی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کئے بغیر ایک قومی اور دوصوبائی نشستوں پر بوسن صاحبان کوٹکٹ ملنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ احمد حسین ڈیہڑ کو بنی گالہ کے محاصرے سے واپس ملتان بھجوانے میں شاید اسے صوبائی اسمبلی حلقہ212پی پی سے ٹکٹ دینے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے‘ لیکن سکندر بوسن اپنے نیچے والا یہ صوبائی حلقہ اپنے مخالف احمد حسین ڈیہڑ کو کیسے لینے دے گا؟ یہ ایک اہم سوال ہے‘ لیکن سب چیزیں اپنی جگہ پر ۔ ملتان میں ایک اپ سیٹ یہ ہوا ہے کہ چار چار قومی حلقوں سے الیکشن لڑنے والے اور تین تین قومی اسمبلی کے حلقوں سے بیک وقت جیتنے والے بزرگ سیاستدان جاوید ہاشمی اس بار الیکشن سے بالکل آئوٹ ہیں۔
اب وہ جو مرضی کہیں۔ سچ یہ ہے کہ انہیں شہباز شریف نے انتخابی سیاست سے بالآخر آئوٹ کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ انتخاب نہ لڑنے کا چھ ماہ پہلے اعلان کر چکے تھے‘ مگر میرے ساتھ ان کی آخری ملاقات سات مئی کو ہوئی تھی اور اس میں وہ الیکشن لڑنے پر کمر بستہ نظر آئے‘تاہم مجھے تبھی شک تھا کہ مسلم لیگ ن ان کو ٹکٹ دے گی۔ میری ان سے ملاقات سات مئی کو ہوئی اور اگلے ہی روز میرا کالم بعنوان ” اللہ خیر کرے‘‘ چھپا‘ جس میں انہوں نے مسلم لیگ کی جانب سے انہیں ٹکٹ پلیٹ میں رکھ کر پیش کر نے کا دعویٰ کیا تھا‘ تاہم میں نے اسی کالم میں اس دعوے پر شک کا اظہار کیا تھا۔ ان کی انتخابی سیاست شاید اختتام کو پہنچی‘ لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ اتنے سینئر‘ بلند قامت‘ جمہوریت کے لئے قید و بند برداشت کرنے کی ایک ناقابل ِمثال تاریخ والے جاوید ہاشمی کی اس طرح انتخابی سیاست سے فراغت کم از کم اس عاجز کے لئے نہایت ہی افسوسناک ہے ۔ میاں شہباز کے بارے میں میرا اندازہ تھا کہ وہ خاصے ”تھوڑ دِلے‘‘ ہیں‘ لیکن اتنے ہوں گے ؟ مجھے اندازہ نہ تھا۔ ویسے انہوں نے میاں نواز شریف سے چودھری نثار علی خان کے مقابلے‘ امیدوار کھڑے نہ کرنے کی اپنی کوشش میں ناکامی کا بدلہ اس طرح اتارا ہے کہ اپنی مسلم لیگی صدارت کی ساری طاقت ادھر جاوید ہاشمی پر آزما دی ہے‘اگر مسلم لیگ ن ملتان کے حلقہ این اے 155 سے ہاری‘ تو اس کی ساری ذمہ داری میاں شہباز شریف پر ہو گی۔