منتخب کردہ کالم

جب انقلاب راہ پاتا ہے: عبدالقادر حسن

کوئی دو تین دن پہلے جب پاکستانی قوم نے صبح کے قومی اخبارات کھولے تو وہ یہ پڑھ کر دنگ رہ گئے کہ ان کے منتخب نمایندوں نے کس دیدہ دلیری کے ساتھ اور قوم کے غریبوں اور بھوکوں کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنی تنخواہوں میں غیر معمولی اضافہ کر لیا اور ستم یہ کہ یہ اضافے بھی قوم کو ادا کرنے کا حکم دیا۔

تفوبر تو اے چرخ گردوں تفو

ذرا سی جھجھک کے بغیر قومی نمایندوں نے قوم کی خالی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا اور ڈاکے کی اس رقم سے برسرعام اپنی جیبیں ہمیشہ کے لیے مستقلاً بھر لیں اور پھر اس ڈاکہ زنی پر ایک دوسرے کو مبارک بادیں بھی دیں۔ ایسی جرات مند اور بہادر قوم میں نے نہ کبھی تاریخ میں پڑھی اور نہ ہی کبھی اس کا تصور بھی کیا۔ اس قدر جرات مند اور دلیر قوم انسانی تاریخ نے اب تک پیدا نہیں کی۔ غریب غربا کی پنشن میں ایک پیسے کا اضافہ کیے بغیر اور بھوکے ننگے عوام کی تسلی کا ایک لفظ کہے بغیر اپنی تنخواہوں میں لاکھوں کا اضافہ کر لیا۔

بلاشبہ ایک بہادر اور جرات مند قوم ہی ایسی جسارت کر سکتی ہے اور دن دیہاڑے اپنی قوم کے کپڑے اتار سکتی ہے۔ مبارک ہو اس کے دشمنوں کو وہ اب چین کی نیند سوئیں اور جب جی چاہے تو ایسی قوم کو دو چار تھپڑ بھی رسید کر دیں اس کا جواب نہیں ملے گا۔ جو قومیں اپنے بچوں جوانوں اور بزرگوں پر رحم نہیں کھاتیں ان پر اگر کوئی رحم کھاتا ہے تو وہ پرلے درجے کا احمق ہے یا تماشبین کہ نوع انسانی میں ایسی قومیں بھی پیدا ہوتی ہیں جو اپنی ہی قوم پر اس قدر ستم کرتی ہیں اور ذرا بھر شرم کھائے بغیر۔ میں جرات کر کے اپنی اس تاریخی قوم کی جرات کو داد دیتا ہوں کہ اس کے نمایندوں نے ملک پر ایک ارب دس کروڑ روپے کا مزید سالانہ بوجھ ڈال دیا۔

میں جرات کر کے عرض کرتا ہوں کہ اب ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہ ڈیڑھ لاکھ روپے‘ چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر کی ڈھائی لاکھ روپے ڈپٹی چیئرمین اور وفاقی وزراء کی دو لاکھ روپے اور وزرائے مملکت کی ایک لاکھ اسی ہزار روپے ہو گی۔ مجھ میں اتنی جرات اور ہمت نہیں آپ مہربانی کر کے آج کا کوئی اخبار دیکھ لیں اور اس میں ہمارے منتخب نمایندوں کی جرات کی یہ رپورٹ پڑھ لیں۔

اس بھوکے ننگے ملک میں آباد قوم کا یہی علاج موزوں ہے جو ایسے لوگوں کو بڑھ چڑھ کر اور لڑ بھڑ کر منتخب کرتی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ حکومت اب بھی اس اضافے کو کم سمجھتی ہے کیونکہ مہنگائی زیادہ ہے۔ ایک حکمران نے جو اس اضافے کا بانی تھا کہا ہے کہ ابھی مزید اضافے کی ضرورت ہے تاکہ عوامی نمایندے مہنگائی کا مقابلہ کر کے اطمینان کے ساتھ قوم کی خدمت کر سکیں۔

ہمارے بے بس عوام ایسی خبروں کو پڑھتے سنتے ہیں لیکن چپ رہتے ہیں کہ چپ نہ رہیں تو کیا کریں ان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ بلکہ ہتھیار موجود نہیں جو ان پر کسی ظلم کا بدلہ لے سکے۔ وہ صرف خاموش رہ سکتے ہیں اور یہ خاموشی اندر ہی اندر پکتی رہتی ہے اور خدا وہ وقت نہ لائے جب یہ خاموشی ایک چیخ بن کر ہمارے حکمرانوں کے کانوں کے پردے پھاڑ دے۔ دنیا میں اکثر انقلاب ظلم کی ایسی ہی کسی فضا میں پرورش پاتے ہیں اور جب یہ جوان ہوتے ہیں تو پھر انھیں ان کی منزل تک جانے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ پاکستانی ایک جاندار قوم ہے اگرچہ اس میں صبر اور شکر زیادہ ہے لیکن خدا نہ کرے اس صبر کا امتحان لیا جائے کیونکہ تاریخ میں جب بھی کسی مظلوم اور صابر قوم کو آزمایا گیا تو اس کا نتیجہ ایک انقلاب کی صورت میں سامنے آیا۔ گنجائش نہیں ورنہ میں چند ایسے انقلاب کی آمد کو پیش کروں جو کسی ملک کے اپنے ہی حالات نے پیدا کیے۔

اس وقت دنیا میں جتنی انقلابی حکومتیں ہیں ان کے پس منظر میں قومی بیداری کا بڑا حصہ ہے۔ ہمارے قریب ترین انقلابی ملک چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ہمارے ارباب اختیار بھی آنکھیں بند کر کے عوام کی خواہشات کی خلاف ورزی کرتے رہتے ہیں لیکن پڑوس میں جھانک کر نہیں دیکھتے کہ عوام کو جب ناراض کیا جائے اور وہ منظم ہو جائیں تو پھر انقلاب چین رونما ہوتا ہے اور پھر یہی انقلاب حکومت بن کر مفاد پرستوں کو تہس نہس کر دیتا ہے۔ کوئی مظلوم اور غریب جب انتقام پر اتر آتا ہے تو وہ پھر رکتا نہیں ہے اور اپنی راہ خود بناتا ہے پھر وہ جب اس راہ پر چلتا ہے تو ہم لوگ اسے انقلاب کہہ کر اسے ایک ملک اور خطے تک محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ آگے نہ بڑھے لیکن انقلاب بڑھا کرتا ہے رکتا نہیں ہے اور نہ ہی اپنے اوپر توڑے گئے ظلم کو معاف کرتا ہے۔