منتخب کردہ کالم

جب ایک کانٹا فلسفی بنا دیتا ہے…حسنین جمال

جب ایک کانٹا فلسفی بنا دیتا ہے…حسنین جمال

انسان کو الٹے سیدھے کام کرنے کا شوق ہو تو بعض اوقات وہ مہنگے بھی پڑ جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک سین کوئی تین چار مہینے پہلے ہوا۔ کیکٹس یا کوئی بھی اور کانٹے دار پودے رکھنے والے ایک چیز کا بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں کہ بڑے یا چھوٹے، کسی بھی پودے کو جب ڈیل کیا جائے تو ہاتھوں میں چمڑے کے دستانے پہن لیے جائیں۔ بعض پودوں کے بالکل چھوٹے اور بے ضرر کانٹے ہوتے ہیں، کچھ میں بڑے اور دور سے ہی خطرناک نظر آنے والے کانٹے پائے جائیں گے اور کچھ کا معاملہ یہ ہے کہ ہو گا تو یہ بالکل چھوٹا چُنا منا سا کانٹا لیکن اگر ایک بار جلد میں گھس گیا تو وختا ڈال دے گا۔
بھائی کو خوش فہمی تھی کہ یار وہ جو گیٹ کے پاس والی سائیڈ پہ کیکٹس رکھے ہیں وہ تو ایویں عام تام سے ہیں، ان میں کہاں کوئی ایسا لڑ جانے والا کانٹا ہو گا، لیکن تھا۔ ایک شاخ کاٹنی تھی اور پیدائشی کاہل انسان تھا‘ دوپہر کا وقت تھا اور بس اس کے بعد کھانا کھایا جانا تھا۔ پہلے تو تھوڑی زور زبردستی کرنے کی ٹرائے ماری کہ ایسے ہی بغیر کسی کٹر کے وہ شاخ الگ ہو جائے جس پہ بہت زیادہ کیڑا لگ چکا ہے، وہ نہیں ہوئی۔ پھر پیچھے سے جا کے وہ پلاس نما کٹر لے کے آیا۔ اب کاٹنے کے لیے ظاہری بات ہے شاخ کو ایک طرف سے پکڑنا تھا تاکہ علیحدہ ہو تو پیروں پہ نازل نہ ہو جائے۔ اس گرفت کے لیے سیانے دنیا بھر میں ہمیشہ دستانے استعمال کرتے ہیں۔ اپنا جلدی والا معاملہ چل رہا تھا۔ بھائی نے بالکل آرام سے انگوٹھے اور انگلی کے درمیان اسے پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے شاخ کاٹ دی۔
لو جی کیا منظر تھا۔ ایک ساتھ چھ سات کانٹے اسی شہادت کی انگلی میں آن بسے تھے جو کہ استعمال ہوئی تھی۔ اب وہ سارے گولڈن کانٹے دھوپ میں چمکتے ہوئے ایسے لگ رہے تھے جیسے انگلی پہ چھوٹے چھوٹے سنہرے بال اگے ہوں لیکن تکلیف بڑی واہیات تھی۔ تب تلاش کی گئی ٹوئزر (موچنا) کی جو بڑے آرام سے مل گیا۔ میگنیفائنگ گلاس سے دیکھ دیکھ کے سارے کانٹے نکال لیے اور توبہ کی۔ اس بات کا بھی اعتراف سن لیجیے کہ یہ والی واردات ہونے سے پہلے جوان کو غرور تھا کہ استاد اپنے ہاتھ کی سکن اچھی خاصی موٹی ہو چکی ہے، کئی بار کانٹے لگے ہیں، کچھ نہیں ہوتا، چبھ گئے تو نکل آئیں گے۔
ایک ہفتے بعد یہ ہوا کہ وہی انگلی ناخن سے دو سوتر نیچے ٹچ می ناٹ ہو گئی۔ ذرا کہیں ہاتھ لگا نہیں اور شدید درد کی لہر دماغ تک جاتی تھی۔ انسان وہمی ہے۔ امی کو جوڑوں کا درد بہت مدت سے ہے۔ پہلے تو ٹینشن ہوئی کہ یار ہو نہ ہو جوڑ فارغ ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ دو تین دن بعد خیال آیا کہ لازمی طور پہ انھے وا اردو ٹائپ کرنے کا نتیجہ ہے ورنہ صرف الٹے ہاتھ کی انگلی میں درد کیوں ہوتا؟ ایک ہفتے بعد جب انگلی میں کچھ کالا سخت سا ابھار بنا تو سمجھ میں آیا کہ ہوا کیا تھا۔ یہ انہی میں سے ایک کانٹا تھا جو اس وقت تو نظر نہیں آیا اور بعد میں ہاتھ دکھا گیا۔ جب مرض کی تشخیص ہو گئی تو عام پاکستانی کی طرح بالکل کمفرٹ زون چالو ہو گیا۔ نہ ڈاکٹر کے حاضری دی نہ خود سے کوئی دوا لی۔ اللہ کے آسرے پہ ادھورا فقیر اور سالم انگلی چلتے گئے۔
اس کے دو ہفتے بعد لگا جیسے اسی انگلی کا ناخن تڑخنا شروع ہو گیا ہے۔ اب پھر سے ٹینشن، یہ کیا بکواس ہے یار، پورے ناخن میں یہ لائن کیسے آ گئی ہے؟ ایک دو دن بعد ناخن میں ایک کالا نقطہ نظر آیا۔ سارا انٹرنیٹ آزما لیا صرف یہ سمجھ آئی کہ شاید کانٹا چبھنے سے کوئی انفیکشن ہو گیا ہو گا۔ دو تین دن مزید صبر کیا تو فلم واضح ہو گئی۔ یہ اٹ سیلف وہی منحوس کانٹا تھا جو انگلی سے ٹریول کرتا ہوا ناخن کے اندر پہنچ گیا تھا۔ اب ایک نئے سفر کا آغاز تھا۔ جب بھی ناخن کاٹنے کا اتفاق ہوتا تو ایک دم خیال آتا کہ یار یہ کانٹا آخر باہر کب نکلے گا۔ کم از کم پانچ بار اس دوران ناخن کاٹے ہوں گے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ فقیر ناخن تھوڑے وقفے سے ہی کاٹتا ہے تو پانچ بار کا سمجھیے تین مہینے کم از کم بنے ہوں گے۔ پچھلی بار جب کاٹے تو لگا کہ یار شاید ایک دو ہفتے میں یہ قصہ خلاص ہو ہی جائے گا۔ آج وہ کانٹا ناخن کی ان حدود میں داخل ہو چکا ہے جہاں سے اسے باآسانی کاٹ دیا جائے گا۔ شاید اس کالم کے بعد، شاید دو تین دن بعد وہ کانٹا بہرحال جسم سے علیحدہ ہو جائے گا۔
یہی کچھ ہمارے غموں کا معاملہ ہے۔ یہ ناخن دیکھتے ہوئے خیال آیا کہ بھئی ایک کانٹا جو پتہ نہیں کتنے مہینے پہلے چبھا تھا اسے اگر اندازاً ایک انچ کا سفر کرنے میں چار پانچ ماہ لگ گئے تو پھانسیں جو دل میں چبھی ہوں گی کیا ان کا نکلنا ایسا ہی آسان ہو گا؟ کیا ان کا نکلنا نظر آئے گا؟ کیا وہ ایسے ہی دماغ سے ڈی ٹیچ ہو جائیں گی جیسے آنے والے دنوں میں یہ ناخن ہو گا؟ نہ! ایسا نہیں ہوتا۔ کوئی رنج، کوئی غم، کوئی فکر، کوئی تکلیف ہمیں اندر ہی اندر چبھن والی فیلنگ دیتی رہتی ہے لیکن ہمیں اندازہ نہیں ہوتا کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ ایک فیکٹ یہ بھی ہے کہ بعض اوقات ایسے بہت سے کانٹے وقفے وقفے سے چبھتے رہتے ہیں اور اس کے دو نتیجے نکلتے ہیں؛ یا بندہ ڈھیٹ ہو جاتا ہے یا اپنے آس پاس والوں سے بالکل کٹ جاتا ہے۔ جو ڈھیٹ ہو گیا وہ تو موج میں ہے جو کٹ گیا وہ کہاں جائے؟ کٹا ہوا آدمی کوئی ایک سہارا چاہتا ہے۔ کتھارسس چاہتا ہے۔ اپنے اندر کی ساری بھڑاس نکالنا چاہتا ہے اور یقین جانیے یہی اس کا حل ہے۔ اصل افسوس کی بات پتہ ہے آپ کو؟ سننے والا کوئی نہیں ملتا۔ ہم سب کٹے ہوئے ہیں، ہم سب بولنا چاہتے ہیں لیکن ہم سب سننا نہیں چاہتے!
بعض اوقات بالکل ٹھیک سے پتہ ہوتا ہے کہ یہ والا کانٹا کون سا ہے اور کب چبھا تھا لیکن اسے نکال پھینکنے کا حل دور دور تک معلوم نہیں ہوتا۔ یہ سب سے تکلیف دہ صورت حال ہوتی ہے۔ معلوم بھی ہے اور پھر بھی کچھ نہیں کر سکتے، کانٹا دکھائی بھی دے رہا ہے اور نکل بھی نہیں رہا۔ ادھر ایک اور پودا یاد آ گیا۔ ان کرینا اس کا نام ہے۔ اس کے بیج ایسے خول کے اندر پیک ہوتے ہیں جیسے آڑو کی گٹھلی، مگر پورے خول پہ کانٹے ہوتے ہیں۔ اب تھوڑا غور کیجیے گا۔ آڑو کی گٹھلی جتنا بیج، اس کے اوپر تقریباً پونے انچ کے بے شمار کانٹے اور ہر کانٹے کا سر مڑا ہوا، یعنی ایک چھوٹا سا ہک بنا ہو گا۔ ایک کانٹا اگر سیدھی سائیڈ پہ مڑا ہے تو اس کے سامنے والا الٹی سائیڈ پہ مڑا ہو گا۔ یعنی کل ملا کے وہ ایسا لیتھل کمبی نیشن بنے گا کہ ادھر آپ نے ہاتھ میں وہ بیج (یا خول) پکڑا نہیں اور ادھر وہ انگلی میں پیوست ہوا نہیں۔ عین ایسے جیسے کوئی کیڑا ہو۔ دو ہک والے کانٹے ایک طرف سے دو ہی دوسری طرف سے اور انگلی اور انگوٹھا دونوں پیک… یہ بھی ہوا ہے بھائی کے ساتھ، یہ الگ کہانی ہے لیکن سچوئشن بالکل ایسی ہی ہے۔ کانٹا دکھائی بھی دیتا ہے اور نکال بھی نہیں سکتے، ہر طرف سے کھبا ہوا ہے، دور، بہت دور، اندر تک، اس وقت کیا کریں گے؟
تب واحد حل یہی ہے کہ تھوڑا سا خود کو زخمی کیا جائے، تھوڑا سا کانٹے کو نقصان پہنچایا جائے اور معمولی سی کاٹ پیٹ یا آپریشن کرکے نقصان دہ چیز اپنے آپ سے علیحدہ کر لی جائے۔ یہ والے جو کانٹے ہوتے ہیں جو نظر بھی آتے ہیں اور جنہیں نکالنے کا حوصلہ نہیں ہوتا یہی بعد میں ڈپریشن پیدا کرتے ہیں۔ ڈپریشن ہمارے دور کی اذیت ناک ترین بیماری ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ایک خاتون ماڈل انعم تنولی بھی اسی ڈپریشن کی وجہ سے خود کشی کر چکی ہیں۔ اگر کانٹا دکھائی دے رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کھینچ کھانچ کے بہرحال نکالا بھی جا سکتا ہے لیکن اگر وہ دور کہیں اندر کھاتے گم ہو چکا ہے تو بس پھر سننے والے کان تلاش کیجیے۔ دو عدد خوبصورت سے کان، جو صرف سن سکتے ہوں اور جن کے ساتھ ایک ایسا منہ لگا ہو جسے معلوم ہو کہ بولنا کتنا ہے اور کہاں ہے اور رک کے سننا کب ہے اور کیسے ہے۔
یار زندگی ایسے ہی چلتی ہے۔ مکدی مکاؤ، نہ آپ کوئی سپیشل کیس ہیں نہ فقیر ہے نہ کوئی تیسرا، تو بس… کھنگدے جاؤ تے لنگدے جاؤ