منتخب کردہ کالم

جرائم کے گڑھ سے امن کے گہوارے تک…….. ذوالفقار چیمہ

جرائم کے گڑھ سے امن کے گہوارے تک…….. ذوالفقار چیمہ

سینٹرل پنجاب میں شیخوپورہ، گوجرانوالہ،حافظ آباد اور سرگودھا کے کچھ علاقوں پر مشتمل ایک ایسا خطّہ ہے جو عرصۂ دراز سے خطرناک مجرموں کا گڑھ رہا ہے۔ یہاں جرائم کی ٹریننگ اکیڈمیاں ہیں جو ایسے خطرناک مجرم تیار کرتی رہی ہیں جنہوں نے پورے صوبے میں دہشت پھیلا دی اور عوام کی نیندیں حرام کردیں ۔ لاہور کے ہمسائے میں واقع ضلع شیخوپورہ ہمیشہ سے جرائم کی آماجگاہ بنا رہا ہے، 2011-12؁ء میں جب یہاں امن و امان کے حالات بہت زیادہ خراب ہوگئے اور اسے وزیرستان کہا جانے لگاتو حکومت نے راقم کو وہاں تعیّنات کردیا۔ چند روز قبل شیخوپورہ کے ایک پولیس کانسٹیبل کا خط موصول ہوا ہے، جو قارئین سے شیئر کررہا ہوں۔

سر! آج سے چھ سال پہلے آپ ہمارے تھانے خانقاں ڈوگراں میں آئے تھے اور سارے جوانوں سے فرداً فرداً ملے تھے۔ شیخوپورہ کو اُسوقت سب لوگ علاقہ غیر کہتے تھے، یہ واقعی علاقہ غیر بن گیا تھا۔ یہاں ایسے خطرناک مجرموں کا راج تھا جن سے کسی شخص کی جان، مال اور عزّت محفوظ نہیں تھی، وہ اکثر لوگوں کو اغواء کرلیتے اور لاکھوں روپیہ لے کر چھوڑتے۔ اُن سے تو ایم پی اے، ایم این اے بھی ڈرتے تھے۔

موٹروے سے اُتر کر خانقاں ڈوگراں کیطرف کوئی دن کو بھی آتا تو یہ مجرم اُن سے گاڑیاں چھین لیتے۔ ان مجرموں نے دوسرے ضلعوں سے بھی کئی لوگوں کو اغواء کیا اور کروڑوں روپے لے کر چھوڑا تھا۔ ہم اخباروں میںپڑھتے تھے کہ کئی جگہ لوگوں نے وزیرِاعلی صاحب سے مطالبہ کیا کہ ہمیں اسکول اور اسپتال نہیں جان کا تحفظ چاہیے، ہمیں ان دہشت گردوں سے بچائیں،سنا تھا کہ کئی ضلعوں کی پولیس ان مجرموں کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ جب ان مجرموں کو گرفتار کرنے کے لیے فیصل آباد پولیس نے ان کے رشتے داروں کو پکڑا تو اس کے چند دن بعد ان مجرموں نے ریڈ کرنے والے ایس ایچ او صاحب کی بیوی اور بیٹی کو اغوا کرلیا۔ وہ مجرم کئی بار تھانوں پر حملے کرچکے تھے۔ سچی بات ہے کہ پولیس بھی خوفزدہ ہوچکی تھی۔ کیونکہ پولیس کے سر پر ہاتھ رکھنے والا کوئی نہیں تھا۔ مجرموں نے اپنے گاؤں کے باہر بورڈ لگایا ہوا تھا ’یہاں پولیس کا داخلہ منع ہے اور یہ سچ ہے کہ پولیس اُدھر نہیں جاتی تھی۔

سر! مجھے یاد ہے جب ہم نے سنا کہ آپ کو شیخوپورہ لگادیا گیا ہے تو فورس نے بڑی خوشی محسوس کی کہ اب حالات ضرور بدلیں گے۔ ہم گوجرانوالہ کے حالات سنتے رہتے تھے کہ کسطرح آپ نے اُس رینج کو خطرناک ڈاکوؤں اور دہشت گردوں سے پاک کیا تھا۔ سر! وہ دن مجھے کبھی نہیں بھول سکتا جب آپ ہمارے تھانے میں آئے تھے اور آپ نے پورے عملے کو جمع کرکے سب سے خطاب کیاتھا۔ سر! مجھے آپ کی تقریر کے کئی فقرے ابھی تک یاد ہیں، آپ نے کہا تھا:

’’پنجاب کی پچھلے سو سال کی تاریخ پڑھ لو تمام بڑے بڑے مجرموں کا عبرتناک انجام ہوا ہے، ہر مجرم آپ جیسے محافظوں کے ہاتھوں کیفرِکردار کو پہنچاہے۔ یہ مجرم بھی بہت جلد اپنے انجام کو پہنچیں گے اور ان کو نشانِ عبرت بنانے کا اعزاز آپ کو حاصل ہوگا۔ سن لیں ! محافظ کی یہ شان نہیں کہ وہ خوفزدہ ہو۔ ڈر اور خوف مجرموں کے دلوں میں ہونا چاہیے۔ قوم نے آپ کو اپنا محافظ بنایا ہے، مجھے امید ہے آپ ثابت کردیںگے کہ آپ محافظ کہلانے کے حقدار ہیں۔

شہریوں کی جان، مال اور عزّت کے دشمنوں کے خلاف جنگ کا آغاز کردیا گیا ہے اور اس جنگ میں ہم آپ کے ساتھ نہیں آپ سے آگے ہونگے!!‘‘ تقریر کے بعد آپ نے ہر سپاہی کے ساتھ گرمجوشی سے مصافحہ کیا اور اسے تھپکی دی تھی۔ مجھے یاد ہے آپ کی تقریر اور مصافحے سے تھانے کے حالات بدل گئے۔ ہر سپاہی شیر بن گیا، فورس میں جوش، جذبہ اور بہادری پیدا ہوگئی۔ پہلے پولیس فورس دبکی ہوئی تھی ، مجرموں کے اڈّوں کیجانب جاتے ہوئے اُنکے قدم لڑکھڑاتے تھے ۔اُس دن کے بعد وہ مجرموں کے اڈّوں پر دوڑتے ہوئے جانے لگے۔

پورے ضلعے میں حتیٰ کہ دیہاتوں میں بھی لوگوں کو تحفّظ کا احساس ہونے لگا۔ آپ کے آنے کے دو ہفتوں میں ہی حالات بالکل بدل گئے، وارداتیں رک گئی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ بڑے بڑے خطرناک مجرم پکڑے گئے، کچھ مارے گئے اور کچھ علاقہ چھوڑ کر بھاگ گئے۔ سب سے خطرناک ترین گروہ ٹھیک ڈیڑھ مہینے بعد اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ میں وہ منظر کبھی نہیں بھول سکتا جب پورے ضلع کے لیے عذاب اور دہشت بننے والے مجرموں کی لاشیں پوسٹ مارٹم کے لیے لائی گئیں تو شیخوپورہ اسپتال کے باہر ھزاروں کی تعداد میں لوگ جمع تھے اور پولیس کے حق میں نعرے لگارہے تھے۔ عوام نے پولیس کی گاڑیوں کو پھولوں سے لاددیا تھا، اُس دن مجھے اپنی وردی اور اپنے محکمے پر بڑا فخر محسوس ہوا، اس کے بعد ہمیں ہر شخص عزّت کی نظروں سے دیکھنے لگا، ہر طرف امن اور سکون ہوگیا، ڈاکے تو کیا چوری بھی رک گئی، شادیوں پر اسلحے کی نمائش ختم ہوگئی۔ اس کے ایک دو ہفتے بعد آپ نے شیخوپورہ کے ڈسٹرکٹ کونسل ہال میں شہریوں سے خطاب کیا تھا۔ میں عدالت میںشہادت کے لیے شیخوپورہ گیا ہوا تھا ۔

شہادت کی تاریخ پڑگئی تو میں آپکی تقریر سننے کے لیے ڈسٹرکٹ کونسل ہال چلا گیا تھا، جتنے لوگ ہال کے اندر تھے اتنے ہی باہر بھی تھے۔ سر! آپکی تقریر ابھی تک میرے دل پر نقش ہے۔ آپ نے کہا تھا ’’مجھے آج سے دو مہینے پہلے کے حالات یاد ہیں، جس شخص سے بھی بات ہوئی اس نے یہی کہا کہ یہ علاقہ وزیرستان بن چکا ہے۔ ہر ایک کی زبان پر ایک ہی فقرہ تھا کہ’’ نہ ہم محفوظ ہیں نہ ہمارے بچّے۔ مگر مجھے پہلے دن سے یقین تھاکہ ہمارا مقصد نیک ہے، ہم عوام کی جان، مال اور عزّت کے تخفّظ کے لیے پورے اخلاص کے ساتھ میدان میں اُترے ہیں اس لیے اﷲ کی مدد سے ہم یہ جنگ بہت جلد جیتیں گے ، دو ہفتوں میں فورس کی fighting spirit بحال ہوگئی اور ڈاکوؤں، قاتلوں اور اغوا کاروں کے خلاف یلغار شروع ہوگئی، باقی اب تاریخ کا حصہ ہے۔ قادرِمطلق کے فضل سے اب ڈر اور خوف شہریوں کے دلوں میں نہیں مجرموں کے دلوں میں ہے۔

اب خطرناک مجرم بھاگ رہے ہیں اور پولیس ان کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔اﷲ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے، پولیس کے افسروں اور جوانوں نے بے مثال جرأت بہادری اور قربانی کے جذبوں سے سرشار ہوکر یہ جنگ لڑی ہے ۔ میں انھیں مبارکباد دیتا ہوں کہ انھوں نے اپنی یونیفارم کی لاج رکھ لی ہے اور محافظ ہونے کا حق ادا کردیا ہے۔ خواتین و حضرات ! آپ نے اپنی پولیس پر کئی من پھول پھینکے ہیں، میں جانتا ہوں کہ شہروں کے تاجروں، صنعتکاروں، ڈاکٹروں، اساتذہ ، طلباوطالبات، محنت کشوں اور دیہاتوں کے کسانوںنے اور گھروں میں ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں نے جھولیاں اٹھا کر ہمارے لیے دعائیں مانگی ہیں۔ یہ پولیس پر آپ کاقرض ہے۔

آپ کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے ہماری ذمّے داریاں بڑھ گئی ہیں۔ ہمارے ٹارگٹ بڑے واضح ہیں، بڑے سے بڑے مجرم کو قانون کی زنجیروں میں جکڑاجائے گا اور شہریوں کی جان مال اور عزّت کے ہر دشمن کو عبرت کا نشان بنادیا جائے گا۔ مگر تاریخ کا ایک اٹل اصول یاد رکھیں مستقل امن انصاف کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔۔ انصاف کے بیج بوئیں گے، انصاف کے پودوں کی نشوونما کریں گے تو امن کی فصل کاٹیںگے ۔ میرا ایمان ہے کہ انصاف عوام کا بنیادی حق ہے۔ اسی طرح جسطرح ہوا اور پانی۔ ہم عوام کو ان کا یہ حق ضرور دلائیں گے۔ اگرکسی نے چاہے وہ پولیس افسر ہو یا کوئی باا ثر یا مالدار شخص، انصاف کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش کی تو اس سے آہنی ہاتھوں سے نپٹا جائے گا۔ تھانوں میں تعیّناتیاں ممبرانِ اسمبلی کے کہنے پر نہیںہونگی بلکہ پولیس کمانڈ خود کریگی، راشی پولیس افسر گرفتار ہوکر جیل جائے گا یا برخاست ہوکر گھر جائے گا۔ تھانوں میں ٹاؤٹوں کا داخلہ بند کردیا گیا ہے۔ اور یہ بھی حکم دے گیا ہے کہ جھوٹے پرچے کرانے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔

سر! مجھے یاد ہے آپ کا ایک ایک فقرہ عوام اور پولیس کے جوانوں کے دلوں میں اتررہا تھا۔ پولیس کی تاریخ کا وہ سنہری دور تھا، تھانوں میں رشوت ختم ہوگئی تھی۔ بہت سے ساتھی کہتے ہیں کہ پولیس کی نوکری کا اصل لطف اُسی وقت آیا تھا اُسی وقت پتہ چلا تھا کہ محافظ کی شان کیا ہوتی ہے۔ سر! ہم دعا مانگتے ہیں کہ کاش وہ سنہری دور پھر واپس آجائے۔ آپ کاسابق ماتحت محمد رفیق

راقم نے ایک سال شیخوپورہ رینج کی کمانڈ کی، وہاں سے جانے کے بعد کئی سال تک لوگوں کے فون آتے رہے۔ اب بھی آتے ہیں۔ مگر دو مرتبہ بیرونِ ملک سے آنے والی کالوں نے سکتہ طاری کردیا۔ ایک بارایک اہم میٹنگ میں تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجی میں نے فون اٹھالیا دوسری طرف سے ایک نوجوان بول رہا تھا “میں شیخوپورہ کے قصبے فاروق آباد سے ہوں، ہمارے ساتھ بڑا ظلم ہوا تھا ، ظالم بڑے اثر والے لوگ تھے مگر آپ نے ہمیں انصاف دیا تھا ، اِسوقت میں اور میری والدہ خانہ کعبہ کا طواف کررہے ہیں اور آپکے لیے دعائیں کررہے ہیں” ۔ دوسری بار دوپہر کو کسی شادی کی تقریب میں تھا، کھانا شروع ہوا تو موبائل فون کی گھنٹی بجی، دوسری طرف سے آواز آئی ” میں شیخوپورہ کے قریب ایک گرلز ہائی اسکول میں ٹیچر ہوں، ڈاکوؤں اور اغواء کاروں نے ہماری زندگی جہنم بنادی تھی۔ آپکے آنے سے ہمارے گاؤں میں امن آگیا اور ہم سکون کی نیند سونے لگے ، آپ ہمارے محسن ہیںمیں اور میرا بیٹا نبی پاکﷺ کے روضۂ مبارک کے سامنے کھڑے ہیں اور آپ کا نام لے کر دعائیں کررہے ہیں”۔ میں کانپ اٹھا، آنکھیں تشکّر سے نمناک ہوگئیں ، پلیٹ وہیں رکھ دی اور ہال سے باہر نکل آیا۔ کیا دنیا میں اقتدار، عہدے اور دولت ہی سب کچھ ہے؟ ہرگز نہیں!!

یا الٰہی! ایک ایک لمحہ سجدۂ شکر میںگزاردیں توبھی تیرے کرم اور رحمتوں کا شکرادا نہیں کیا جاسکتا۔