منتخب کردہ کالم

جرنیلی سڑک پر جمہوریت کا قافلہ… بلال غوری

جرنیلی سڑک پر جمہوریت کا قافلہ… بلال غوری

جرنیلی سڑک کا جمہوریت سے رشتہ سہانا تو نہیں مگر پرانا ضرور ہے ۔قیام پاکستان سے پہلے اس شاہراہ سے بادشاہوں کے فوجی قافلے گزرتے تھے اور تقسیم ہند کے بعد جی ٹی روڈ پر جمہوریت کے کارواں چلنے لگے ۔کبھی جمہوریت پر شب خون مارنے والوں کے ہراول دستے جی ٹی روڈ سے ہوتے ہوئے اسلام آباد پہنچے تو کبھی جمہوریت کی پری یرغمال بنائے جانے پر اس کے عاشق جرنیلی سڑک کو کوئے یار سمجھ کر عازم سفر ہوتے دیکھے۔نوے کی دہائی میںبینظیر بھٹو کی حکومت ختم کرنے کے بعدنوازشریف کو ”اچھا‘‘ بچہ سمجھ کر وزارت عظمیٰ کی کرسی پیش کی گئی تاکہ وہ چپ چاپ کونے میں بیٹھے دہی کھاتے رہیں لیکن انہوں نے خود کو وزیراعظم سمجھنا شروع کر دیا تو اسٹیبلشمنٹ سے ٹھن گئی اور جان پر بن گئی۔ صدر غلام اسحاق خان نے ایک مرتبہ پھر 58(2b)کو نائی کا استرا سمجھ کر چلا دیا ،نوازشریف نے صدارتی حکم نامے کے خلاف عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔سپریم کورٹ نے اسمبلیاں بحال کر دیں مگرایوانِ وزیراعظم میں واپسی کے بعد حالات پہلے سے بھی کہیں زیادہ خراب ہو گئے۔اپوزیشن جماعتیں” راولپنڈی ‘‘ سے گرین سگنل ملنے کے بعد جرنیلی سڑک پر مارچ کرنے کو تیار بیٹھی تھیں۔5جولائی 1993ء کو بینظیر بھٹو نے نوابزادہ نصراللہ ،مولانا فضل الرحمان ،مصطفی جتوئی ،مصطفی کھر ،حافظ حسین احمد ،قاضی حسین احمد اور دیگر رہنمائوں کے ہمراہ کل جماعتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ16جولائی کو بذریعہ جی ٹی روڈ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا جائے گا۔آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ اور صدر
غلام اسحاق خان پہلے ہی یہ فرمائش کر چکے تھے کہ نوازشریف ازخود مستعفی ہو ں اور اسمبلیاں تحلیل کرکے ازسرنو انتخابات کا اعلان کر دیں۔جب اپوزیشن کے متوقع لانگ مارچ کے پیش نظر وفاقی حکومت نے فوج کو طلب کیا تو صاف بتا دیا گیا کہ ہم سے ایسی صورت میں کسی قسم کی کوئی امید نہ رکھی جائے اور بہتر یہی ہے کہ گھٹنے ٹیک دیئے جائیں۔کچھ پس و پیش کے بعداس اعصابی کشمکش میں نوازشریف کی ہمت جواب دے گئی۔15جولائی کی شام پانچ بجے لاہور میں مقیم پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو کے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اور بتایا گیا آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ بات کریں گے ۔محترمہ لائن پر آئیں تو انہیں بتایا گیا کہ آپ جی ایچ کیو تشریف لے آئیں اور آپ کی سہولت کے لیے ایک فوجی طیارہ ایئرپورٹ پر موجود ہے۔بینظیر بھٹو اپنے شوہر آصف زرداری کے ہمراہ اس خصوصی طیارے میں اسلام آباد روانہ ہوئیں جہاں جی ایچ کیو میں جنرل عبدالوحید کاکڑ ان کے منتظر تھے۔جنرل کاکڑ نے گھما پھرا کر بات کرنے کے بجائے براہ راست ملاقات کا سبب بتاتے ہوئے سوال کیا”محترمہ ! کیا آپ بتائیں گی کہ اپوزیشن کے لانگ مارچ کا مقصد کیا ہے‘‘ محترمہ نے بھی لگی لپٹی رکھے بغیر جواب دیا”لانگ مارچ کا مقصد نوازشریف پر مستعفی ہونے کے لیے دبائو بڑھانا ہے تاکہ وہ اسمبلیاں تحلیل کرکے فوری طور پر نئے انتخابات کا اعلان کر دیں‘‘جنرل عبدالوحید کاکڑ نے پہلو بدلا اور عجب شان ِبے نیازی سے تحکمانہ انداز میں کہا ”آپ لانگ مارچ ملتوی کر دیں ۔نوازشریف اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے اور فوری طور پر نئے انتخابات کا انعقاد کروانا ہماری ذمہ داری ہے، میں آپ کو اس بات کی ضمانت دینے کو تیار ہوں۔‘‘بینظیر بھٹو اس سے قبل 19دسمبر 1992ء کو بھی اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کر چکی تھیں اور چونکہ تب ”راولپنڈی ‘‘ سے کوئی اشارہ موصول ہوئے بغیر پیش قدمی کی گئی تھی اس لیے یہ مہم جوئی بری طرح ناکام ہوئی تھی ۔اب جب جنگ لڑے بغیر ہی سیاسی حریف ہتھیار ڈالنے اور شکست تسلیم کرنے کو تیار تھا تو آگے بڑھ کر محاصرہ کرنے کی کوشش کیوں کی جاتی۔محترمہ نے خوشی سے تمتماتے ہوئے ٹیلیفون کرنے کی اجازت چاہی تاکہ پارٹی کے سرکردہ رہنمائوں کو اس فقید المثال کامیابی کی نوید دی جاسکے ۔ جنرل عبدالوحید کاکڑ کی عسکری حسِ فوقیت نے انگڑائی لی اور انہوں نے کمال
شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ”آپ اپنی پارٹی کے رہنمائوں اور میڈیا کو یہ بتا سکتی ہیں کہ عسکری قیادت کی مداخلت پر یہ سب ممکن ہوا اور فوج کے کہنے پر لانگ مارچ ختم کیا گیا ہے‘‘18جولائی کو کاکڑ فارمولے کے عین مطابق صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نوازشریف مستعفی ہو گئے ،وسیم سجاد نے قائم مقام صدر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال لیں اور امریکی سفیر جان سی مونجو کی سفارش پر معین قریشی کو امریکہ سے بلوا کر نگران وزیراعظم بنا دیا گیا۔
جرنیلی سڑک پر ایک اور یادگار مارچ کے روح پرور مناظر 5مئی 2007ء کو دیکھنے کو ملے جب روائتی طور پر قافلے لاہور سے اسلام آباد کی طرف روانہ نہ ہوئے بلکہ معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری لاہور آنے کے لیے اسلام آباد سے نکلے اور ان پر محبتیں نچھاور کرنے والوں نے نئی تاریخ رقم کر دی۔انٹیلی جنس اداروں کی طرف سے خفیہ رپورٹوں کی بنیاد پر ڈرایا گیا کہ راستے میں دہشت گردی ہو سکتی ہے ،معزول چیف جسٹس کی جان کو خطرہ ہے ،ہوائی جہاز کے ذریعے لاہور چلے جائیں لیکن انہوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھتے ہوئے جرنیلی سڑک کا غرور خاک میں ملانے کا تہیہ کر لیا۔جسٹس افتخار چوہدری صبح ساڑھے سات بجے اسلام آباد سے روانہ ہوئے تو والہانہ استقبال کے باعث چند گھنٹوں کا یہ سفر 25گھنٹوں پر محیط ہو گیا اور وہ اگلے روز صبح 11بجے تقریب میں پہنچ پائے۔15مارچ2009ء کو جرنیلی سڑک نے ایک اور لانگ مارچ کو لاہور سے اسلام آباد کی طرف بڑھتے دیکھا۔ججوں کی بحالی کے لیے ہونے والے اس لانگ مارچ کو ناکام بنانے کے لیے پیپلزپارٹی کی حکومت نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔پکڑ دھکڑ کے علاوہ جگہ جگہ کنٹینر لگا کر راستے بند کر دیئے گئے ۔اس مرتبہ نوازشریف کو متنبہ کیا گیا کہ آپ اس لانگ مارچ کی قیادت کرنے کے لیے باہر نکلے تو زندگی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی ۔لیکن نوازشریف یہ خطرہ مول لیکر ماڈل ٹائون سے نکلے تو تمام رکاوٹیں ریت کی دیوار ثابت ہوئیں ۔ابھی یہ قافلہ ِسخت جاں کامونکی ہی پہنچا تھا کہ خوشخبری مل گئی۔اعتزاز احسن نوازشریف کی گاڑی چلا رہے تھے ،آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے انہیں فون کرکے وہی مکالمہ کیا جو 15جولائی 1993ء کی شام جنرل عبدالوحید کاکڑ نے محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ کیا تھا ۔حسب توقع اور حسب منشا میڈیا کو یہی تاثر دیا گیا کہ افواج پاکستان نے مداخلت کی، آرمی چیف کے کہنے پر جج بحال ہوئے اور نوازشریف نے لانگ مارچ ملتوی کردیا۔
9اگست 2017ء کونوازشریف نے اپنے مخالفین کے سینے پر مونگ دلنے کے لیے ایک مرتبہ پھر جرنیلی سڑک کا انتخاب کیا ہے۔ڈرانے کی کوشش تو اس باربھی کی گئی ہے اور واضح پیغام دیا گیا ہے کہ جرنیلی سڑک سے جانے کا فیصلہ واپس نہ لیا تو یہ آپ کا آخری سفر بھی ثابت ہو سکتا ہے۔البتہ اس مرتبہ صورتحال بہت دلچسپ ہے ،اسلام آبادکے شہر اقتدار سے تخت ِلاہور تک ان کی ہی حکومت ہے ،کسی سے استعفا لینا مقصود نہیں ،کسی کا گھیرائو یا محاصرہ کرنے کا ارادہ نہیں ،محض یہ دیکھنے کا ارادہ ہے کہ ”زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے‘‘کیا اس مرتبہ بھی چند گھنٹوں کا سفر دنوں پر محیط ہو گا اور فقید المثال استقبال سے نئی تاریخ رقم ہو گی؟اس جرنیلی سڑک پر کتنے ہی قافلے آب و تاب سے نکلے مگر وقت کی دھول میں گم ہو گئے ۔جرنیلی سڑک پر نوازشریف کا قافلہ کس دھج سے نکلتا ہے ،اس سے یہ طے ہو گا کہ جمہوریت کے قافلے یونہی لٹتے رہیں گے یا پھر منزل مقصود تک بھی پہنچ پائیں گے۔یہیں سے فیصلہ ہو گا کہ لوح تاریخ کا عنوان کیا ہے سلطانی جمہور یا پھرعسکری تہور؟حکومتوں کے عزل و نصب کا فیصلہ کرنا عوام کا استحقاق ہے یا کسی اور کا ؟

آج کا اگلا کالم .. وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں‌لوگ