استنبول دوہزار سال سے زیادہ عرصہ میں عالمی سیاست کا اہم شہر ہے۔ اس تاریخی بستی کو فنیقی تاجروں نے آباد کیا۔ بعد میں رومن، بازنطینی، عثمانی اور جدید ترکی کے قیام تک اس شہر کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہوا ہے کہ بانوے سے زائد حکمرانوں نے یہاں بیٹھ کر حکمرانی کی۔ میرے لیے یہ شہر تاریخی اور مشاہدے کے حوالے سے کوئی اجنبی شہر نہیں۔ حکمرانی میں برپا ہونے والی سازشوں سے لے کر عوامی تحریکوں اور آزادی کی تحریکوں تک، میں اس شہر کی تلاش میں پچھلے پینتیس سالوں میں درجنوں مرتبہ آیا ہوں، اور یہ تحریر بھی اسی شہر کے ایک تاریخی علاقے میں بیٹھ کر لکھ رہاہوں، جہاں سلطنت عثمانیہ کے ایک بانی نے اپنی سلطنت کی بنیادیں استوار کیں۔ استنبول تاریخ کے تمام ادوار میں اہم ترین شہر رہا ہے۔ آج بھی یونانی اس شہر پر اپنا دعویٰ کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ آیا صوفیہ جس کی تعمیر انسانی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، جو مشرقی رومن ایمپائر (بازنطینی) کا سب سے بڑا گرجاگھر تھا اور فتح استنبول کے بعد سلطان فاتح نے اسے مسجد میں بدل دیا۔ چار سوسال سے زائد عرصہ تک یہ قدیم گرجا، مسلمانوں کی مسجد کے طور پر استعمال ہوتا رہااور اس کے اندر حضرت مریم ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کی بنی شبیہوں کو کھرچا نہیں گیا اور اب اسے عجائب گھر میں بدلا جاچکا ہے۔
ان تصاویر کو دنیا کے تین براعظموں پر حکومت کرنے والوں نے کیوں نہ کھرچا، یہ سوال ہی اس عبادت گاہ اور استنبول کی تاریخ کا ایک اہم سوال ہے۔ وگرنہ سلطان فاتح اور اس کے بعد سلیمان عالیشان جیسے فاتح عالم حکمرانوں کے لیے یہ بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ ایک حکم دینے اور گرجا کو مسجد میں بدلنے کے باوجود بھی مسیحی یا بازنطینی دَور کی رنگین تصاویراور سنہری موزیک کو کھرچ دیتے۔ اس معاملے کا تعلق اس شہر اور اس عمارت کی تاریخی حساسیت سے تھا، اسی لیے جدید ترکی کے قیام کے بعد اسے مسجد یا گرجا کی بجائے میوزیم قرار دے دیا گیا۔ اس معاملے کا تعلق استنبول کی تاریخی حیثیت سے ہے جو ترکوں کے اس خطے کے وجود سے تعلق رکھتی ہے۔ ترکوں نے عثمانی دور ہو یا جدید ترکی، ہر دور میں جذباتیت سے زیادہ تدبر کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس لیے کہ آج بھی اس بازنطینی مسیحی گرجے کے تاریخی سلسلے کے پادری کو His Most Divine All Holiness Archbishop of Constantinople کہا جاتا ہے۔ اس مشرقی آرتھوڈوکس چرچ کا سربراہ آج بھی استنبول ہی میں مقیم ہے۔ 1923ء کے انقلاب کے بعد یہ قانون بنا دیا گیا کہ اس مشرقی آرتھوڈوکس پوپ کا ترکی نژاد ہونا لازمی ہے۔ اور اس وقت یہ پوپ باسفورس سے نکلنے والی مختصر سمندری لکیر شاخِ زریں کے علاقے فینر میں بیٹھ کر دنیا بھر کے کروڑوں مشرقی آرتھوڈوکس مسیحیوں کی راہبانی کے فرائض انجام دیتا ہے۔ استنبول شہر کی تاریخ سے جڑے ان سلسلوں میں ڈرامائی داستانیں وابستہ ہیں اور ہر وقت نئی داستانیں بھی برپا ہوتی رہتی ہیں۔ آگاتھا کرسٹی کے مشہورِزمانہ ناول جس پر دنیا کی معروف فلم Murder on the Orient Express سے لے کر ایک امریکی شہری بریڈ ڈیوس کی کہانی پر مبنی فلم Midnight Express اور پھر معروف ترک ادیبہ ایلف شفق کے ناول Bastard of Istanbul تک لاتعداد ڈرامے، ناول، کہانیوں اور فلموں کا ایک سلسلہ، جو اس شہر سے متعلق ہیں۔ ایک ایسا شہر جس کے بارے میں دنیا کو فتح کرنے کا خواب رکھنے والے فرانسیسی حکمران اور سپہ سالار نپولین نے کہا کہ ’’اگر میں نے ساری دنیا کو فتح کرلیا تو استنبول اس کا دارالحکومت ہوگا۔‘‘
2اکتوبر سے دنیا کے دو براعظموں میں وجود رکھنے والا یہ شہر عالمی سیاست وصحافت کا ایک بار پھر بڑا موضوع بنا ہوا ہے، جہاں دنیا کے معروف سعودی نژاد صحافی جمال خاشقجی اپنے ہی قونصل خانے میں جانے کے بعد پُراسرار طور پر غائب ہوگئے۔ جمال خاشقجی کا صحافتی پس منظر دنیا کے معروف صحافیوں رابرٹ فسک یا ڈیوڈ فراسٹ سے یکسر مختلف ہے۔ ایک ایسا صحافی جو آلِ سعود اور اُن کے دربار میں خاص مقام رکھتا تھا، امریکہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جس کے دادا محمد خاشقجی عثمانی دور میں حجازِ مقدس میں آباد ہوئے اور یوں وہ ترک سے عرب قوم کا حصہ بنے، اور جس کے چچا عدنان خاشقجی جنہوں نے ایران عراق جنگ میں سعودی ہونے کے باوجود ایران کو بھاری تعداد میں اسلحہ فروخت کرکے صرف منافع کے طور پر چار ارب ڈالر کمائے، جس میں پاکستان کے معروف عالمی شہرت یافتہ بینک BCCI کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے بینکوں کی سرمایہ کاری بھی تھی۔ جمال خاشقجی اس خاندانی پس منظر سے تعلق رکھنے والے صحافی تھے۔ طویل عرصے تک سعودی انٹیلی جینس کے سربراہ پرنس الترکی کے مشیرخاص اور اسامہ بن لادن کے قریبی دوست، ایک معروف پبلشنگ ادارے Tihama Book Stores سے آغاز کرنے والے جمال خاشقجی کی زندگی مہم جوئی سے عبارت ہے۔ سعودی عرب جیسی سخت گیر حکمرانی میں انہوں نے صحافت کن بنیادوں پر کی ہوگی، اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اُن کی صحافتی بُنت رابرٹ فسک جیسے درمیانے طبقے کے صحافی کی بجائے حکمرانی کے اندرونی محلات تک رسائی ہی نہیں بلکہ اثرورسوخ سے عبارت تھی۔ سعودی گزٹ سے صحافت کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے انہوں نے اشراق الوسط ، ال مجلہ اور اَل مسلمون جیسے جریدوں کی ادارت کی۔ افغان جہاد میں ایک اہم رازدان کے طور پر صحافیانہ کردار ادا کیا۔ عرب نیوز سے الوطن تک اہم اداروں کی ادارت اور ان سب کے بعد ارب پتی، سعودی شہزادے الولید بن طلال کے ساتھ مل کر 2015ء میں کروڑوں ڈالر سے بحرین سے العرب نیوز چینل کا اجرا، جو چلنے کے صرف سولہ گھنٹے بعد بند کردیا گیا۔ ایک ایسے صحافی کی مہم جُو زندگی چند خبروں کی اطلاعات سے کہیں زیادہ حکمرانی اور سازشوں کے رازوں کو اپنے اندر لیے ہوئے تھی۔ وقت آنے پر سلفی اور وہابی افکار کا نقاد، عرب بہار پر کھل کر کہنے لگا کہ ’’عرب دنیا کو اب آہنی دیواریں توڑنا ہوں گی۔‘‘ سعودی شہزادے محمد بن سلمان کی حکمرانی اور اصلاحات کا بڑا نقاد بن کر ابھرا،اور یمن پر مسلط کردہ سعودی جنگ کا مخالف، جس نے پچھلے سو سالوں میں سب سے بڑے قحط کو جنم دیا۔ جس کے غائب ہونے پر ترکی کے صدر طیب اردوآن نے کہا کہ جمال خاشقجی ہمارے قریبی دوست تھے۔ سعودی ترک کشمکش کے پس منظر میں ان واقعات کو غور سے دیکھیں تو بڑے راز ہیں جو 2اکتوبر کو جمال خاشقجی کے غائب ہونے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹ گئے۔
مگر اہم بات یہ ہے کہ ترکی جو پچھلے چند سالوں میں عرب خطوں میں جنگوں اور تنازعات کے دوران اپنا مقام اور وجود بڑھانا چاہتا ہے، جمال خاشقجی کے معمے نے اس کے مشرقِ وسطیٰ میں کردار کو بڑھانے میں اضافہ کیا ہے۔سعودی عرب جو پہلے جمال خاشقجی کی موت کو مسترد کررہاتھا، اس کی پوزیشن ترک پولیس کی تحقیقات بڑے منظم طریقے سے منکشف کیے جانے کے بعد کمزور ہوتی جارہی ہے اور اب وہ یہ ماننے پر مجبور ہوا کہ ہاں جمال خاشقجی سعودی قونصل خانے میں مارا گیا۔ مگر پُراسرار کہانی کے کئی کردار ہیں۔ قتل کی منصوبہ بندی کرنے والے اور اہم وہ بھی ہیں جو اس قتل کے راز سے پہلے آگاہ تھے اور انہوں نے عرب خطے میں تنازعات میں اپنے مفادات کے لیے شکار کو قتل گاہ تک پہنچنے تک بھرپور نگرانی کی۔ مقتول کے قتل کے دوران چیخ وپکار کی آڈیو برآمد ہوجانا، یہ کوئی معمولی ثبوت نہیں۔ کہا جارہا ہے کہ جوں جوں سعودی عرب اس سے انکار کرے گا، ممکن ہے کہ ویڈیو بھی منظرعام پر آجائے۔ استنبول جیسے شہر میں صدیوں سے ایسے لاتعداد قتل، حکمرانی کی سازشیں اور سیاسی چالیں اور واقعات برپا ہوئے جو ابھی تک راز ہی ہیں۔جہاں عام سیاح اس شہر کی خوب صورتی کے سحر میں گرفتار ہو جاتے ہیں، لیکن میرے جیسے تاریخ اور سیاست میں دلچسپی رکھنے والے کے لیے اس کے محلات، قلعے ، گلیاں اور شاہراہیں اور تاریخی عمارتوں کی د یواریں صدیوں پرانے تاریخی رازوں کو بیان کرتی ہیں۔
جمال خاشقجی کے قاتلوں کی خصوصی طیارے پر آمد اور روانگی، اور پھر سعودی عرب کے قونصل جنرل کا یکایک استنبول سے مفرور ہوجانا۔ ترکی اور امریکہ جن کے تعلقات پچھلے دو سالوں میں آئے روز بگڑتے جا رہے تھے، مگر پچھلے تین ہفتوں میں ان میں گھنٹوں کے حساب سے بہتری آرہی ہے۔ امریکی پادری اینڈریو برنس، جس کو ترک صدر جولائی 2016ء میں فوجی بغاوت کا بڑا ذمہ دار قرار دیتے تھے اور اس کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چل رہا ہے اور اس تنازع نے امریکہ ترکی تعلقات کو اس قدر کشیدہ کیا کہ گرتی ترک معیشت جھٹکوں کے ساتھ امریکی صدر ٹرمپ نے مزید گرانا شروع کردی۔ اور ترک صدر جناب اردوآن جو کہتے تھے کہ ہم اس کو کسی صورت نہیں چھوڑیں گے، جمال خاشقجی کے قتل کے دس روز بعد عدالت سے ضمانت پر رہائی اور سفر کی اجازت ملنے کے بعد امریکہ روانہ ہوگئے۔ انقرہ میں جس سڑک پر نیا امریکی سفارت خانہ تعمیر ہورہا ہے، انقرہ بلدیہ نے اس سڑک کا نام امریکہ کے معروف رہبر میلکم ایکس کے نام پر رکھ دیا ہے۔یہ سب کچھ تیزرفتار سیاسی تبدیلیوں کے اشارے ہیں۔
بے دردی سے قتل ہونے ولاے جمال خاشقجی کے بعد ترکی آئے روز امریکہ کے کس قدر قریب ہوا، یہ ایک دلچسپ صورتِ حال ہے۔ سعودی قاتل نوکریوں سے فارغ کردئیے گئے اور کچھ عرصے بعد شاید وہ بھی منظر سے مکمل طور پر غائب ہوجائیں۔ بڑے لوگوں کے قتل کے سراغ کبھی نہیں ملتے، اور اگر نظر آتے ہوں تو مٹا دئیے جاتے ہیں۔ جمال خاشقجی عالمی میڈیا کا آج ایک اہم موضوع ہے، مگر واشنگٹن، انقرہ، ریاض اور تہران، اس قتل کے بعد اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں۔
بدنصیب جمال خاشقجی اپنے دادا کی سرزمین پر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا، جہاں وہ اپنی نئی ازدواجی زندگی کے آغاز کے لیے سعودی قونصل خانے میں ترک منگیتر خدیجہ چنگیز کے ساتھ نکاح کے لیے سرکاری کاغذات لینے گیا اور پھر واپس نہ آیا۔ چند سالوں کے بعد جب یہ موضوع تاریخ کا حصہ بنے گا، تب ہی اس پُراسرار واقعے سے پردہ اٹھے گا۔ اور مستقبل میں لاتعداد ناول اور فلموں کا سنسنی خیز موضوع ایک بار پھر استنبول جیسے شہر کے نام سے۔