منتخب کردہ کالم

جمعیت علمائے ہند کا جشن اور مولانا فضل الرحمن (آتش فشاں) منیر احمد منیر

2016ء میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن کی طرف سے اعلان ہوا کہ سال 2017ء میں جمعیت علمائے اسلام کی صد سالہ تقریبات منائی جائیں گی۔ تازہ ترین خبر کے مطابق ان تقریبات کے سلسلے میں 7، 8، 9 اپریل 2017ء کو صد سالہ عالمی اجتماع ہو گا۔
سوال یہ ہے کہ جس جمعیت علمائے اسلام کا مولانا صاحب صد سالہ جشن منانے جا رہے ہیں، اسے قائم ہوئے سو سال ہوئے بھی ہیں کہ نہیں۔ حتّٰی کہ جمعیت علمائے ہند،دراصل جس کی صد سالہ تقریبات مولانا فضل الرحمن منا رہے ہیں، کے قیام کو بھی سو برس نہیں ہوئے۔ جمعیت علمائے ہند کا پہلا اجلاس 28 دسمبر 1919ء کو امرتسر میں مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی صدارت میں ہوا۔ اس اولین اجلاس میں جمعیت علمائے ہند کا آئین اور اس کے اغراض و مقاصد طے کرنے کے لیے ایک چار رکنی کمیٹی مقرر کی گئی۔
اس کے بعد جمعیت علمائے ہند مختلف سیاسی تحریکوں میں سرگرمی سے حصہ لیتی رہی۔ 1928ء میں جب موتی لال نہرو کی سربراہی میں بننے والی نہرو رپورٹ سامنے آئی، اس میں مسلمانوں کا چونکہ ایک بھی مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیاتھا، اس لیے ہندوستان کی مسلم قیادت اس پر سخت نالاںہوئی۔ اس میں جمعیت علمائے ہند بھی پیش پیش تھی۔ جمعیت کے سرگرم رہنما مولانا حسین احمد مدنی نے ستمبر 1928ء کو مولانا شوکت علی کو بڑا دکھ بھرا خط لکھا جس میں متحدہ ہندوستان میں گاندھی، نہرو اور ڈاکٹر مونجے کی طرف سے ہندو راج کے قیام پر سخت تشویش ظاہر کی۔ اس میں یہ بھی لکھا کہ”جو مظالم آئے دن دفاتر میں، شہروں میں اور ریاستوں میں کیے جا رہے ہیں اور جس تعصب اور عدم رواداری کا ثبوت حسبِ تصریح جناب ”ہندو دیوتا‘‘ گاندھی جی اور نہرو صاحب نے دیا ہے ان کی بنا پر ہم کسی طرح بھی اپنے ابنائے وطن کے ساتھ متحدہ قومیت کی توقع نہیں کر سکتے‘‘۔
گاندھی جی، نہرو اور ڈاکٹر مونجے سمیت ہندو قیادت کا مسلمانوں کے بارے میں شدید متعصبانہ رویہ باعث ہوا کہ انتخابات 1937ء کے لیے مسلم لیگ، جمعیت علمائے ہند اور مجلسِ احرار نے جائنٹ پارلیمانی بورڈ تشکیل دیا۔ اگرچہ مجلسِ احرار الیکشن سے پہلے ہی بھاگ کر ہندو کانگریس کی گود میں جاگری۔ بعد میں جس کی وجہ شیخ حسام الدین نے قائداعظمؒ کویہ بتائی:”سر، ہمیں فنڈز کی کمی تھی‘‘۔ لیکن جمعیت علمائے ہند مولانا حسین احمد مدنی کی قیادت میں مسلم لیگی امیدواروں کی حمایت میں سرگرم رہی اور مولانا قائداعظمؒ کے حق میں بیان دیتے رہے۔ اور یہ بھی کہ”مسلم لیگ کا کامیاب ہونا تمام مسلمانوں کے لیے عزت کا باعث ہے…..جومسلمان مسلم لیگ کے نمائندے کو رائے نہیں دے گا وہ دونوں جہاں میں رُوسیاہ ہو گا‘‘۔اس انتخابی مہم کے دوران میں جمعیت علمائے ہند کے ایک اور رہنما مولانا احمد سعید نے محمد علی جناح کو قائداعظمؒ کا لقب دیا۔ اب تک کی معلومات کے مطابق ان کے لیے قائداعظمؒ کا لقب سب سے پہلے انہوں نے استعمال کیا۔
لیکن 1937ء کے انتخابات کے بعد مولانا ابوالکلام کی ”کوششوں‘‘ سے جمعیت علمائے ہند کانگریس کی گود میں جا بیٹھی اور قیامِ پاکستان کی مخالفت میں پوری قوت سے ڈٹی رہی۔ اب قائداعظمؒ اور مسلم لیگ کی خوبیاں خامیاں بن گئیں۔ جس پر مولانا شبیر احمد عثمانی نے لکھا:”جو چیز1937ء میں جنت تھی 1945ء میں جہنم کس طرح بن گئی…..اب کوئی مسلمان ان کے(قائداعظمؒ کے) ساتھ لیگ میں شرکت کرتا ہے تو کیوں موردِ الزام ہے‘‘۔
1945-46ء کے انتخابات کا مطلب یہی تھا اگر مسلم لیگ جیت گئی تو پاکستان بن جائے گا۔ اگر مسلم لیگ ہار گئی تو متحدہ ہندوستان اور ہندو راج کا قیام۔ جمعیت علمائے ہند نے، جو قیامِ پاکستان کی مخالفت میں کانگریس کے شانہ بشانہ تھی، قیامِ پاکستان کی سرتوڑ مخالفت کی۔ ہندو کانگریس انہیں مسلمانوں کے خلاف پوری طرح استعمال کر رہی تھی۔اور بقول مولانا شبیر احمد عثمانی:”ان کا تو اعلان یہ ہے کہ جو جماعت یا جو شخص بھی پاکستان اور مسلم لیگ کے خلاف کھڑا ہو گا کانگریس اس کی ہر طرح امداد کرے گی‘‘۔ ان حالات میں مسلم لیگ نے اس کے توڑ کے لیے جمعیت علمائے اسلام قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ 26 اکتوبر 1945ء کو کلکتہ میں علما کی ایک کانفرنس میں مولانا شبیر احمد عثمانی کی قیادت میں جمعیت علمائے اسلام قائم ہوئی۔ یہ اجلاس 26 سے 29 اکتوبر تک رہا۔ جمعیت علمائے اسلام کے قیام سے جمعیت علمائے ہند کو بڑے کٹھن حالات درپیش رہے۔ جمعیت علمائے ہند کے مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے مولانا عثمانی سے شکوہ کیا کہ”جمعیت علمائے اسلام محض ہماری جمعیت کے مقابلہ میں اس کو توڑنے کے لیے قائم کی گئی ہے‘‘۔ یہ شکوہ انہوں نے اس مکالمتہ الصدرین کے دوران میں کیا تھا جو 7 دسمبر 1945ء کو دیوبند میں جمعیت علمائے ہند کے امیر مولانا حسین احمد مدنی اور جمعیت علمائے اسلام کے مولانا شبیر احمد عثمانی کے درمیان ہوا تھا۔ جس میںمولانا مدنی قیامِ پاکستان کی مخالفت میں اس قدر شدید رہے اور انہیں یہی فکر رہی کہ”اگر پاکستان قائم ہو گیا تو ہندوستان کا دفاع کیسے ہو گا‘‘۔
جمعیت علمائے ہند قائداعظمؒ کو کافرِ اعظم کہتی تھی۔ اس پر مولانا عثمانی نے کہا:”یہ پرلے درجے کی شقاوت و حماقت ہے کہ قائداعظمؒ کو کافراعظم کہا جائے‘‘۔جمعیت علمائے ہند کے زیرِ اثر دارالعلوم دیوبند کے طلبہ نے جو سلوک مولانا شبیر احمد عثمانی سے کیا اس کے متعلق انہوں نے کہا:”دارالعلوم کے طلبہ نے میرے قتل تک کے حلف اٹھائے اور وہ وہ فحش اور گندے مضامین میرے دروازہ میں پھینکے کہ اگر ہماری ماں بہنوں کی نظر پڑ جاتے تو ہماری آنکھیں شرم سے جھک جاتیں‘‘۔
قیامِ پاکستان کی مخالفت میں ہندو کانگریس، جمعیت علمائے ہند اور انگریز متحد و متفق و یکجا تھے۔ آج کی اصطلاح میں ایک صفحے پر تھے۔ لارڈ مونٹ بیٹن کہتا ہے، گاندھی نے ”بالکل شروع میں مجھے بتا دیا تھا کہ جو کچھ بھی ہو آپ کو ہندوستان تقسیم کرنے کا خیال تک نہ کرنا چاہیے‘‘۔ میں نے کہا، ”یہ (تقسیم) میں کرنا ہی نہیں چاہتا‘‘۔جب برطانیہ قائداعظمؒ کے اٹل ارادے کے آگے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گیا اور تقسیمِ ہند کا بل برطانوی پارلیمنٹ میں پیش ہوا، ہر ممبر اس پر دکھی تھا کہ ہمیں ہندوستان کو ایک ملک بنانے کا جو کریڈٹ حاصل تھا، تقسیم کی صورت میں وہ ختم ہو رہا ہے۔ اس لیے جب پاکستان بن گیا، ہندو کانگریس، جمعیت علمائے ہند اور انگریزوں نے باقاعدہ اس کا سوگ منایا۔ اس کیفیت سے وہ آج تک نہیں نکل سکے۔ اور یہودی بھی۔ اس کے لیے الگ کالم چاہیے۔
جمعیت علمائے ہند وجود میں آئی 97 برس 3 ماہ قبل 28 دسمبر 1919ء کو۔ اس کا توڑ جمعیت علمائے اسلام قائم ہوئی اکہتر برس 5 ماہ قبل 26 اکتوبر 1945 کے روز۔ مولانا فضل الرحمن کس جمعیت کے قیام کا صد سالہ جشن منانے جا رہے ہیں؟ صاف ظاہر ہے قیامِ پاکستان کی ازحد مخالف جمعیت علمائے ہند کا۔ قیامِ پاکستان کے 9 برس بعد، آج سے کوئی ساڑھے 60 برس قبل 8، 9 اکتوبر 1956ء کو جب انہی لوگوں نے نام جمعیت علمائے اسلام تلے پناہ ڈھونڈی تو مفتی محمد شفیع صاحب نے لکھا تھا:”اس کے شرکا عموماً وہ لوگ ہیں جو پاکستان کے نظریہ سے ہمیشہ مختلف رہے۔ اور جمعیت العلمائے اسلام کے خلاف جمعیت علمائے ہند سے وابستہ رہے‘‘۔
مولانا فضل الرحمن بادشاہ آدمی ہیں۔ آج وہ جمعیت علمائے اسلام کی آڑ میں پاکستان دشمن جمعیت علمائے ہند کا صد سالہ جشن منا رہے ہیں۔ کل کو وہ اورنگ زیب عالمگیر کے بہانے جمعیت علمائے ہند کے قائدین کے راہ نماؤں گاندھی، نہرو، مونجے وغیرہ کے آئیڈیل شیواجی کا تین سو سالہ جشن منانے کا بھی اعلان کر سکتے ہیں۔ وہ شیوا جی جس نے کہا تھا:”میری تلوار مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہے‘‘۔ جس کے لیے بھارت میں شیو سینا جیسی تنظیمیں متحرک ہیں۔ اور نریندرمودی اسی شیواجی کے فلسفہ پر عمل پیرا ہے۔