منتخب کردہ کالم

چار وزراء اور جے آئی ٹی! نعیم مسعود

سیاسی فرقوں میں بٹ کر یا سیاسی مسلک بناکر تبدیلی ممکن نہیں اور نہ اس طرح جمہوریت ہی کی تقویت ممکن ہے۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات کالم کے آخر میں کروں گا۔
پرسوں سہ پہر نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور ورلڈ کالمسٹ کلب کے اشتراک سے ہونیوالی برہان وانی پہلی یوم شہادت کانفرنس میں مشعال یٰسین ملک نے آبدیدہ کردیا ’’برہان وانی کی قسم جب تک میرے جسم میں خون کا آخری قطرہ ہے، میں آزادیٔ کشمیر کیلئے جدوجہد کرتی رہوں گی‘‘۔ ان جذباتی لمحات میں استحکام پاکستان کے متعلق سوچتا رہا کیونکہ پاکستان کا استحکام ہی آزادیٔ کشمیر اور تحریک آزادیٔ کشمیر کی ضمانت ہے۔ پرسوں شام ن لیگ کے چار سینئر وزراء جن میں سے دو انتہائی سنجیدہ سیاستدانوں کا جے آئی ٹی کے خلاف باقاعدہ دما دم مست قلندر سن کر ششدر رہ گیا اور دھیان پھر اسی طرف گیا کہ جمہوریت کے استحکام ہی میں استحکام پاکستان ہے اور جمہوریت ہی اداروں کو مضبوط کرتی ہے۔ گھبرا کیوں گئے ہو؟
سپریم کورٹ اور اس کی قائم کردہ جے آئی ٹی پر اعتماد ضروری ہے، کرکے تو دیکھو۔ لیکن ہمارے ہاں گنگا الٹی بہتی ہے۔ ابھی تو دوچار ہی دن گزرے ہونگے کہ وزیر مملکت مریم اورنگزیب نے کہا تھا کہ عمران خان کی باتوں کا جواب دینا وقت کا زیاں ہے۔ اس بات سے ہمیں تو سمجھ آگئی تھی کہ مریم اورنگزیب خود اور طلال و دانیال بمعہ کرمانی صاحب محض اپنا ہی نہیں ملک و قوم کے وقت کا بھی زیادہ کرتے ہیں لیکن سنجیدہ طبع وفاقی وزیر احسن اقبال اور رنجیدہ طبع شاہد خاقان عباسی تو وقت کے ضیاع کے بجائے اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہتے تھے۔ رہی بات خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق کی تو یہ دونوں دمادم مست قلندر والے سیاستدان اور خواجگان ہیں۔ چند دن قبل وزیر ریلوے سعد رفیق کی اپنے کارکنان سے تقریر اور اس تقریر کی بھرپور کوریج نے ان چاروں بے چاروں کی پریس کانفرنس کا دیباچہ تحریر کردیا تھا کہ دال میں کچھ کالا کالا نہیں رہا بلکہ پوری دال ہی کالی ہوتی جارہی ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ ن لیگ کھڑک گئی ہے۔ احترام سیاستدانوں کا بھی ضروری ہے اور جے آئی ٹی کا بھی۔
قارئین باتمکین! آپ سوچ رہے ہوں گے بات تو برہان مظفر وانی کے یوم شہادت سے چلی اور پہنچی وزراء اور پانامہ کی کہانی تک۔ اس میں دو باتیں ہیں، ایک کا تعلق تکنیک سے ہے اور دوسری کا جذبات سے۔ تکنیکی بات یہ ہے کہ کالم میں وسعت قلب ہوتا ہے، اس ڈرامے کی طرح جو کئی کرداروں کو ساتھ لے کر چلتا ہے مگر محور و مرکز کے اردگرد۔ مضمون محدود پیرائے میں مخصوص منظر سے باہر نہیں نکلتا، وہ الگ بات ہے کہ قارئین اور لکھاری مضامین میں کالم اور کالجوں میں مضمون پڑھتے لکھتے رہتے ہیں۔ جیسے ہمارے سیاستدان اور ووٹرز آمریت میں جمہوریت اور جمہوریت میں آمریت کو دریافت کرنے میں وقت کا زیاں کرنے سے باز نہیں آتے۔ جذبات کے تناظر میں بات یہ تھی کہ کیا مسلک اور تفرقہ کی راہ پر چلتے ہوئے اور تعصب کو دوران سفر انجوائے کرنے کی صورت میں جمہوریت اور استحکام پاکستان حتیٰ کہ آزادیٔ کشمیر کی منزل کو حاصل کیا جاسکتا ہے؟
میں ہمیشہ پانامیوں، سونامیوں اور جیالوں کو آمریت اور اسٹیبلشمنٹ کے مقابلہ میں سلیوٹ کرتا ہوں۔ میں لولی لنگڑی جمہوریت کو بہرحال آمریت کی بدصورتی اور بدتہذیبی سے زیادہ پسند کرتا ہوں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تینوں بھی جمہوریت کے اتنے ہی دلدادہ ہیں جتنا یہ باور کراتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ نہیں! اوپر سے بدقسمتی یہ ہے کہ نوجوان سیاسیات اور تاریخ کی فیس بک اور حقیقت سے کوسوں دور ہیں۔ پس یہ ثابت ہوا کہ یوتھ جس طرح سطحی سیاست، سطحی جمہوریت اور کرپشن کے سطحی سیاق و سباق سے آشنا ہیں، اس طرح تبدیلی ممکن نہیں۔ ذہن نشین رہے کہ پی پی پی ون ڈے اور ٹیسٹ میچ سے نکل کر محض سندھ کے ٹونٹی ٹونٹی تک محدود ہوچکی ہے اور اس کی وجہ میرے نزدیک جہاں آصف علی زرداری کی ناقص پالیسیاں ہیں، اس سے بھی بڑی وجہ میاں نواز شریف کی عمدہ سیاسی حکمت عملیاں ہیں۔ آصف علی زرداری جمہوریت جمہوریت کھیلتے رہ گئے۔ میثاق جمہوریت کی پاسداری پر بیٹھے رہے اور ن لیگ کو عمران خان کے دھرنوں شرنوں سے بچاتے رہے لیکن میاں نواز شریف نے محض اپنا اُلو سیدھا کیا اور آصف علی زرداری کو سیاسی دھوکوں میں سے نوازے رکھا۔ اس باب کا مطالعہ مجھے یہ سبق سکھاتا ہے کہ میاں نواز شریف سیاسی چالوں میں زیادہ چابک دستی رکھتے ہیں اور زرداری پر بھاری ہیں اور مجھے یہ امید ہی نہیں یقین ہے کہ پانامہ کیس میں وہ بچ جائیں گے۔
میں مسلسل یہ لکھ رہا ہوں کہ جیالے اور سونامے الیکشن 2018ء کی تیاری کریں اور کسی خوش فہمی میں نہ رہیں۔ عدلیہ کے بعد نیب اور الیکشن کمشن ابھی باقی ہیں۔ یہ درست ہے کہ ’’وقت کے زیاں‘‘ والوں کے بعد شاہد خاقان عباسی اور پروفیسر احسن اقبال کا پریس کانفرنسی میدان میں کود پڑنا بوکھلاہٹ اور اعصابی شکست کی کھلی نشانیاں ہیں اور اس سے قبل خواجہ سعد رفیق کی وہ تقریر کہ جس میں انہوں نے میاں نواز شریف کو منوانے کیلئے ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور دیگر رہنمائوں کو بھی درد اور فکر کے ساتھ رہنما مانا۔ حالانکہ آمریت کے رضائی بھائی اور ضیائی بھائی خاصے پریشان ہوئے ہوں گے۔ یہی رفتار رہی تو ن لیگ کی قیادت عنقریب ذوالفقارعلی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو باقاعدہ قومی لیڈران مان لے گی۔ چلتے چلتے ایک اور بھی سن لیجئے، میں نے سابق ایم این اے اور سابق ایم پی اے و پارلیمانی سیکرٹری میجر (ر) ذوالفقار گوندل سے کہا کہ کیا آپ تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد بھٹو اور بنت بھٹو کو مانتے رہیں گے اور الیکشن 2018ء میں عمران خان کے ساتھ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی تصویر پوسٹر پر لگائیں گے؟ ان کا جواب تھا کہ عمران خان بھی اکثر بھٹو کو یاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھٹو کس طرح محلوں اور وڈیروں سے نکل کر غریب کی جھونپڑی تک پہنچ گیا تھا۔ ’’پس میں بھی یہ وعدہ کرتا ہوں کہ تحریک انصاف کی طرف سے الیکشن لڑتے ہوئے بھٹو لیڈرز کی تصاویر عمران خان کے ساتھ ساتھ لگائوں گا‘‘۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ وعدہ سیاسی روپ دھارتا ہے یا نظریاتی؟
کالم کے آخر والی بات ہو جائے کہ میں نے امریکہ میں مقیم ایک معروف ٹیکنوکریٹ، سفارتی امور کے ماہر، ن لیگ اور پی پی پی سے ماضی کی اہم وابستگی رکھنے والی ایک معتبر شخصیت سے پوچھا کہ امریکہ زرداری صاحب سے الفت رکھتا ہے کہ میاں نواز شریف سے محبت؟ جواب ملا کہ امریکہ کا دونوں سے دل بھر چکا ہے۔ میرا اگلا سوال تھا کہ عمران خان کے حوالے سے امریکی دل کی دھڑکن کیا کہتی ہے کیونکہ ایک طبقہ عمران خان کو یہودی لابی سے جوڑتا رہتا ہے۔ اس کا جواب تھا ’’امریکہ عمران خان کو ناپسند کرتا ہے‘‘۔ یہی ناپسندیدگی والی بات جب میں نے ایک عمران خان کے لیڈر سے کی جس کا تعلق تحریک انصاف ترین، قریشی یا اسد عمر گروپوں میں سے کسی کے ساتھ بھی نہیں، تو اس کا جواب تھا اگر ہم جیت گئے تو ناگزیر حالت میں جہانگیر ترین بھی وزیراعظم بن سکتا ہے۔
اس بات میں ’’خطرناکی‘‘ یہ ہے کہ کیا یہ پانامہ و ڈرامہ کسی کھاتے میں نہیں۔ داخلی اور بیرونی اسٹیبلشمنٹ ہی اصل پاور ہے؟ جنوبی سوڈان 2011ء میں مسلمان ملک سے علیحدہ خودمختار بن جاتا ہے، معمولی سی تحریک سے۔ مشرقی تیمور 2002ء میں مسلمان ملک انڈونیشیا سے خودمختاری حاصل کرلیتا کیونکہ دونوں کے ساتھ عالمی قوتیں تھیں۔ یٰسین ملک اور مشعال یٰسین ملک کی کم عمری اور سید علی گیلانی سات عشروں پر محیط قربانیاں، ہزاروں شہادتیں، اجڑے خاندان اور انسانی حقوق کی پاسداری کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کونظر کیوں نہیں آتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کی بدنظری کے سامنے ہم اپنے نظریہ کو تقویت بخشیں۔ نظریہ پاکستان عرف نظریہ اسلام ہی استحکام پاکستان، جمہوریت اور آزادیٔ کشمیر کی ضمانت ہے۔ خدا کا واسطہ ہے اب پانامہ، سرے محل اور امپائر کی انگلی والی سیاست ختم کردیں، آپ خود ہی ختم کرادیں پلیز، یہ عوام تو نہیں سمجھیں گے۔