منتخب کردہ کالم

’’جمہوریت اور نوازشریف ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘‘؟….رئوف طاہر

’’جمہوریت اور نوازشریف ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘‘؟….رئوف طاہر

پارٹی صدارت سے (بھی) نوازشریف کی نااہلی پر‘ مبارک سلامت کے شور میں خود حزب اختلاف (اور وہ بھی پی ٹی آئی) کی صفوں سے ایک مختلف آواز سنائی دی۔ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید کا کہنا تھا‘ اس سے عملاً کیا فرق پڑے گا؟ نوازشریف ”صدر‘‘ نہیں ہوں گے تو ”قائد‘‘ یا ”رہبر‘‘ بن جائیں گے۔جناب چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے اس (ایک اور) تاریخی فیصلے سے اگلے روز‘ اپنی جماعت کے معزول صدر نیب کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں کہہ رہے تھے کہ یہ فیصلہ ان کے لیے غیر متوقع نہیں تھا اور سچ یہ ہے کہ نوازشریف کے مخالفین ہی نہیں‘ ان کے حامیوں میں بھی بیشتر کو اسی فیصلے کی توقع تھی لیکن اصل بات وہی جو میاں محمود الرشید نے کہی‘ سیاست قانون کی کتابوں اور عدالتی فیصلوں کی محتاج یا پابند نہیں ہوتی‘ اس کی اپنی ڈائنامکس ہوتی ہیں۔
سیاست میں بھی سکّہ اسی کا چلتا ہے‘ جو دلوں پر حکمرانی کرتا ہے۔ برصغیر میں گاندھی جی کی مثال‘ جن کے پاس کانگریس کا کوئی رسمی عہدہ نہ تھا‘ ایک موقع پر مولانا ابوالکلام آزاد بھی اس کے صدر تھے (قائداعظمؒ نے جنہیں کانگریس کا ”شوبوائے‘‘ کہا) نہرو سمیت کیسے کیسے قدآور کانگریس میں اہم عہدوں پر فائز رہے لیکن گاندھی جی کے سامنے کسی کا چراغ نہ جلا‘ جو کاغذات میں کانگریس کے دو آنے کے ممبر بھی نہ تھے۔ اور خود اپنی مسلم لیگ کی مثال…تقسیم برصغیر کے بعد کراچی کے خالقدینا ہال میں آل انڈیا مسلم لیگ کا آخری اجلاس‘ جس کی صدارت قائداعظم فرما رہے تھے۔ مسلمانان برصغیر کی نمائندہ جماعت کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ انڈین مسلم لیگ کی صدارت میرٹھ کے نواب محمد اسماعیل خاں کے سپرد ہوئی۔ پاکستان مسلم لیگ کے کنوینر لکھنو کے اردو سپیکنگ مہاجر خلیق الزماں قرار پائے۔ گورنر جنرل کا ”ریاستی عہدہ‘‘ سنبھالنے کے بعد قائداعظم پارٹی صدارت سے دستبردار ہو گئے۔ لیاقت علی خاں نے بھی وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد مسلم لیگ کی سیکرٹری شپ سے استعفیٰ دے دیا کہ مسلم لیگ کے (اس وقت کے) دستور کے مطابق حکومتی اور جماعتی عہدے ایک ہی فرد کے پاس نہیں ہو سکتے تھے۔ لیکن عملاً صورتحال یہ تھی کہ مسلم لیگ اور پوری قوم رہنمائی کے لیے اپنے جلیل القدر قائد ہی کی طرف دیکھتی رہی۔ بعد میں یہی پوزیشن لیاقت علی خان کی تھی ( بعد میں مسلم لیگ کے دستور میں ترمیم کر کے حکومتی اور جماعتی عہدے ایک ہی فرد کے پاس ہونے کی گنجائش پیدا کر لی گئی)
1947ء سے 1962ء تک وہی قانون تھا‘ گزشتہ سال 3اکتوبر کو پارلیمنٹ سے جس کی منظوری کے ساتھ نوازشریف نے (28 جولائی کے نااہلی والے فیصلے کے بعد) دوبارہ مسلم لیگ کی صدارت سنبھال لی تھی۔
یہ پاکستان کے پہلے فوجی آمر فیلڈ مارشل ایوب خان تھے جنہوں نے مقبول سیاسی قیادت کو ”ایبڈو‘‘ کر کے (انتخابی سیاست اور پارٹی قیادت کے لئے بھی) نااہل قرار دے دیا۔ بھٹو صاحب کے دور میں ڈکٹیٹر کے پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے اس شق کا خاتمہ کر دیا گیا…پھر پاکستان کا چوتھا (اور اب تک آخری) فوجی آمر تھا جس نے نوازشریف کو مسلم لیگ کی صدارت سے فارغ کرنے کے لیے پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ میں ترمیم کی۔ ڈکٹیٹر کو‘ نوازشریف کو اپنا دشمن نمبر ایک قرار دینے میں بھی کوئی عار نہ ہوتی۔ وہ کہا کرتا ‘ میری موجودگی میں وہ واپس نہیں آ سکتا‘ وہ آئے گا تو میں نہیں ہوں گا۔ شاید یہ ”قبولیتِ دعا‘‘ کا وقت تھا۔ نوازشریف تیسری بار وزیراعظم بنا اور ڈکٹیٹر نے جلاوطنی اختیار کر لی۔
2008ء میں شروع ہونے والے جمہوری دور میں ڈکٹیٹر کے دور کی بیشتر آمرانہ شقیں ختم کر دی گئیں‘ ان میں گریجویشن والی شرط بھی تھی اور تھرڈ ٹائم پرائم منسٹر والی شق بھی۔ البتہ اُس دور کی ایک شق باقی رہی‘ پارٹی عہدے کے لیے بھی وہی شرائط جو سینیٹ اور قومی و صوبائی اسمبلی کی رکنیت کے لیے لازم تھیں۔ 2014ء میں انتخابی اصلاحات کے لیے قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی میں اس کے خاتمے پر بھی اتفاق رائے ہو گیا تھا۔
بھٹو صاحب کا پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ چھبیس‘ ستائیس سال تک نافذ رہا۔ وہ لاہور ہائیکورٹ سے قتل کا مجرم قرار پانے کے بعد پھانسی تک پارٹی چیئرمین رہے اور اس کے بعد بھی اڑھائی تین دہائیوں تک ان کی قبر ”مرجع خلائق‘‘ بنی رہی۔ آج بھی پیپلز پارٹی کے پاس سب سے بڑا اثاثہ ”بھٹو‘‘ ہی ہے (بلاول زرداری کے ساتھ بھٹو کا لاحقہ )
مقبول قیادت کو کسی رسمی عہدے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایئر مارشل اصغر خاں کے پاس پاکستان قومی اتحاد کا کوئی عہدہ نہ تھا لیکن 1977ء میں بھٹو مخالف انتخابی مہم (اور پھر احتجاجی تحریک) میں سب سے زیادہ انہی کی بات سنی جاتی۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء میں‘ بھٹو عہد کے اسیروں‘ خان عبدالولی خاں اور ان کے رفقا کی حیدرآباد ٹربیونل سے رہائی کے بعد عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) وجود میں آئی تو طویل عرصے تک اجمل خٹک اس کے صدر تھے تب ولی خاں ”پارٹی رہبر‘‘ کے طور پر اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ نوازشریف 12 اکتوبر کے بعد ڈکٹیٹر کی جیل میں تھے تو بیگم کلثوم نواز میدان میں نکلیں اور لیگی کارکنوں اور نوازشریف سے محبت کرنے والوں کی چاہت کا مرکز بن گئیں۔ (حالانکہ گاندھی جی کی طرح وہ مسلم لیگ کی دو آنے کی ممبر بھی نہ تھیں) وطن واپسی کے بعد بھی اڑھائی‘ پونے تین سال تک نوازشریف مسلم لیگ کے صدر نہیں تھے لیکن 2008 کی انتخابی مہم مسلم لیگ نے انہی کی زیرقیادت چلائی۔ پندرہ مارچ 2009 کا (عدلیہ بحالی والا) لانگ مارچ بھی انہی کی زیرقیادت تھا۔ مسلم لیگ (ن) کی صدارت تو انہوں نے 27 جولائی 2011ء کو اسلام آباد میں منعقدہ پارٹی کنونشن میں سنبھالی تھی۔
28 جولائی کے فیصلے کے بعد وہ وزارت عظمیٰ سے معزولی کے ساتھ پارٹی صدارت کے لیے بھی نااہل قرار پائے تو بلوچستان سے سردار یعقوب خان ناصر ان کے قائم مقام ہوئے۔نوازشریف کے پاس پارٹی کا کوئی عہدہ نہیں تھا لیکن جی ٹی روڈ مارچ سے لے کر (تین اکتوبر کو پارلیمنٹ سے نئے قانون کی منظوری تک) ان کی بھرپور سیاسی سرگرمیاں‘ کسی رسمی عہدے کے بغیر تھیں۔ حلقہ 120 کے ضمنی انتخاب کی مہم مریم نواز نے کسی پارٹی عہدے کے بغیر چلائی اور آج بھی میاں صاحب کے بعد سب سے زیادہ ”کرائوڈ پُلر‘‘ شاید وہی ہیں۔
ایک اور مثال کینیڈا والے ”قائد انقلاب‘‘ کی ہے۔ دہری شہریت کے باعث وہ پارلیمنٹ کی رکنیت کے علاوہ پاکستان عوامی تحریک کی صدارت کے اہل بھی نہیں تھے…(شاید پی اے ٹی کے کارکنوں کو بھی اپنے (کاغذی) صدر کا نام یاد نہ ہو‘ یہ کراچی کے قاضی زاہد نامی کوئی صاحب ہیں) اور خود سابق ڈکٹیٹر کی اپنی مثال‘ 2013ء کے انتخابات کے لیے اس کے کاغذات نامزدگی مسترد کرتے ہوئے عدالت نے اسے تاحیات نااہل قرار دے دیا تھا لیکن اس کے بعد بھی وہ اپنی خانہ ساز جماعت کا صدر رہا (اور اب بھی ہے)۔ نوابزادہ نصراللہ خاں گریجویشن کی شرط کے باعث پارلیمنٹ کی رکنیت کے اہل نہ تھے لیکن اپنی پارٹی کے صدر رہے۔ اور سرحد کے اس پار ”دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ میں اندرا گاندھی الہ باد ہائی کورٹ کے فیصلے پر وزارتِ عظمیٰ سے دستبردار ہوئیں لیکن کانگریس (آئی) کی صدر رہیں۔
جمعرات کی صبح نیب کورٹ سے باہر میڈیا سے گفتگو میں میاں صاحب کی روایتی حسِ مزاح پھڑکی‘ اب چاہو تو میرا نام ”نوازشریف‘‘ بھی چھین لو۔ پاکستان کے کسی قانون میں گنجائش نہ ہو تو بلیک لا ڈکشنری میں ڈھونڈ نکالو۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ دنوں ایک انٹرویو میں کہا ‘ آئندہ انتخابات میں بھی میری یا شہبازشریف کی تصویر نہیں چلے گی‘ تصویر نوازشریف ہی کی ہو گی جو کرشمہ دکھائے گی۔ ان ہی دنوں ڈکٹیٹر نے خطرے کی گھنٹی بجا دی: یہی حالات رہے تو آئندہ انتخابات میں بھی وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) ہی کی حکومت بنے گی اور اس کے ساتھ اس خواہش کا اظہار بھی کہ یہ انتخابات نہ ہوں تو بہتر ہے۔ ادھر بڑے چوہدری صاحب ہیں‘ جنہیں عینک لگا کر بھی جولائی میں عام انتخابات نظر نہیں آتے۔ لیکن انتخابات کے بغیر یہ ملک کیسے چلے گا؟ تو ہم کیوں نہ میاں صاحب سے دست بستہ گزارش کریں کہ وہ ملک و قوم کے مفاد میں سیاست ہی سے دستبردار ہو جائیں‘ چاہیں تو لندن میں جا بسیں…کہ اب یہاں ”جمہوریت‘‘ اور نوازشریف ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔