منتخب کردہ کالم

جمہوریت کا مقدمہ یا ذاتی لڑائی؟ عامر خاکوانی

جمہوریت کا مقدمہ یا ذاتی لڑائی؟ عامر خاکوانی

معاف کیجیے میاں صاحب، آپ کاغصے سے تمتماتا چہرہ، چنگاریاں برساتی آنکھیں اور شعلے برساتی تقریریں سننے کے باوجود ہم ابھی تک قائل نہیں ہوسکے کہ یہ جمہوریت کا مقدمہ ہے۔ یہ آپ کی ذاتی لڑائی نظر آ رہی ہے۔ وہ لڑائی جو آپ عدالت اور قانون کے میدان میں ہار چکے ہیں۔ اپنی اس شکست کو فتح میں بدلنے کے لئے اب سڑکوں پر نکلے ہیں، کیا ہاری ہوئی جنگ کبھی یوں جیتی جاتی ہے؟ آپ اسے سول بالادستی اور اسٹیبلشمنٹ کی جنگ قرار دے رہے ہیں ۔ آپ کے خیال میں یہ فیصلہ کن مرحلہ ہے کہ عوام اٹھ کھڑے ہوں اور اس ملک میں سویلین بالادستی کو ہمیشہ کے لیے قائم کر دیں۔ آپ اپنی گرما گرم تقریروں سے عوام کو گرمانا چاہتے ہیں کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں اوراپنی توہین کا بدلہ لینے کے لئے سڑکوں پر آئیں۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟

کیا آپ نے سوچا کہ بلاسوچے سمجھے، جذباتی تقریروں سے سیاسی تپش تو بڑھ جائے گی، اس سے حاصل کیا ہو پائے گا؟ اگر خدانخواستہ کسی جگہ پر دونوں سیاسی فریقوں کا ٹکراؤ ہوگیا تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ اپوزیشن کی جماعتیں اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کر رہی ہیں، اگر حکمران جماعت بھی اپوزیشن والا کردار اداکرتے ہوئے سڑکوں پر آ جائے، تب ٹکراؤ سے کون بچا سکتا ہے؟ آپ کس طرح حکومت اور اپوزیشن میں ایک ساتھ رہ سکتے ہیں، دونوں معاملات کو ایک ساتھ کیسے چلا سکتے ہیں؟ ایک طرف پچاس کے قریب وزرا کی کابینہ بنا کر ارکان اسمبلی کومکھن لگانا، دوسری طرف سڑکوں پر ریلیاں نکالتے ہوئے عدلیہ اور فوج کو براہ راست نشانہ بنانا. یہ دونوں کام ایک ساتھ پہلے کبھی ہوئے ہیں نہ اب چل سکیں گے۔

ویسے میاں صاحب آپ کا مقدمہ ہے کیا؟ یہی ناں کہ عدالت نے آپ کو نااہل کر دیا اور آپ کے خلاف مضبوط شواہد دیکھ کر باضابطہ کارروائی کےلیے معاملہ نیب کو بھیج دیا۔ آپ اسے عوام کے مینڈیٹ کی توہین قرار دیتے ہیں۔ آپ کے خیال میں یہ عوام کی توہین ہے کہ پانچ ججوں نے ایک منٹ میں منتخب وزیراعظم کونااہل کر دیا۔ معذرت کے ساتھ آپ درست نہیں کہہ رہے۔ بات ایسے نہیں۔

سب سے پہلے تو یہ بات کلیئر ہوجائے کہ آپ کو براہ راست عوام نے منتخب نہیں کیا، براہ راست مینڈیٹ نہیں دیا۔ ملک میں اگر صدارتی طرز انتخاب رائج ہوتا، صدر نے عوام سے براہ راست ووٹ لیے ہوتے تو وہ یہ بات کہہ سکتا تھا۔ پارلیمانی نظام میں تکنیکی طور پر یہ بات غلط ہے۔ لوگ اپنے اپنے حلقوں میں قومی اسمبلی کے ارکان چنتے ہیں۔ یہ ارکان اسمبلی آگے پارلیمنٹ میں اپنا چیف ایگزیکٹو یعنی وزیراعظم منتخب کرتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیجیے کہ عوام کے منتخب کردہ ارکان اسمبلی پارلیمنٹ میں موجود ہیں اور انہوں نے آپ کی پارٹی ہی کے شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم منتخب کیا ہے۔ یعنی عوام کا مینڈیٹ تو موجود ہے، وہ آپ کی جگہ آپ کے ایک اور ساتھی کو منتقل ہوگیا۔ یہ جمہوریت اور سیاسی عمل ہے۔ دنیا کے بہت سے ملکوں میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ وزرائےاعظم آتے اور جاتے رہتے ہیں۔ جس ملک میں واقعتاً جمہوریت ہو، وہاں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

میاں نواز شریف صاحب آپ کے بارے میں عمومی شہرت ہے کہ کتابوں سے آپ کو کوئی دلچسپی نہیں، اخبار بھی پڑھتے ہیں یا نہیں، تاریخ سے معلوم نہیں کس قدر شغف ہے، مگر سیاست میں آپ طویل عرصے سے ہیں۔ آپ نے برطانیہ کی مقبول ترین خاتون وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کے بارے میں سنا ہوگا؟ انہیں آئرن لیڈی کہا جاتا تھا۔ انہی مسز تھیچر کو اپنی تمام تر مقبولیت اور کرشمہ ساز شخصیت کے باوجود اپنی پارٹی کے ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل نہ رہی۔ پارٹی نے ان پر عدم اعتماد کر دیا اور ان کی جگہ ایک نسبتاً غیر معروف رکن اسمبلی کو برطانیہ عظمیٰ کا وزیراعظم منتخب کر لیا۔ مسز تھیچر خاموشی سے گھر چلی گئیں، ان کا سیاسی کیرئیر ختم ہوگیا، مگر ان کے کسی حامی کی پیشانی پر شکن نہیں آئی۔ وہ جانتے تھے کہ پارٹی اہم ہے، شخصیت نہیں۔ جمہوریت اہم ہے، فرد واحد نہیں۔

یہی سب کچھ ٹونی بلیئر کے ساتھ ہوا، وہ برطانوی سیاسی جماعت لیبر پارٹی کے مقبول ترین لیڈر تھے۔ دس سال تک وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہے، دو انتخابات جیتے، مگر نائن الیون کے بعد بش حکومت کی پالیسیوں کی غلط سپورٹ کی، عراق پر حملہ میں برطانیہ کو بھی جھونک ڈالا۔ ان پر تنقید ہونے لگی، عوامی مقبولیت کم ہوگئی تو اسی کرشمہ ساز بلیئر کو استعفا دینا پڑا، گورڈن براؤن ان کی جگہ پر آگئے۔ بلیئر نے تو نہیں کہا کہ میں نے پارٹی کو الیکشن جتوایا، عوام کا مینڈیٹ مجھے حاصل ہے، میں کیوں مستعفی ہو کر ہٹ جاؤں اور کسی دوسرے کو آنے دوں؟ میاں صاحب آپ کے علم میں ہوگا، اگر نہیں تو جان لیجیے کہ جاپان جو دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے، پوری مسلم دنیا کے پچاس سے زائد ممالک مل کر بھی جاپان کے جی ڈی پی (GDP)کا مقابلہ نہیں کر سکتے، اسی جاپان میں پچھلے اٹھائیس برسوں کے دوران سترہ وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ جی ہاں، سترہ(17) وزرائے اعظم۔ کسی کو رشوت کے الزام میں مستعفی ہونا پڑا تو کوئی پارٹی گروپنگ کا شکار ہوا، کسی وزیراعظم کی کوئی حکومتی پالیسی غلط ہوئی تو عوامی دباؤ پر اسے جانا پڑا، کہیں پر تاجر، صنعت کار برادری کی ناخوشی وزیراعظم صاحب کا کیرئیر ختم کر گئی۔ کسی نے دو ڈھائی سال گزارے تو بعض کے حصے میں صرف چند ماہ آئے۔ اس سب کے باوجود جاپان مسلسل ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ وہاں حقیقی جمہوریت ہے، سسٹم مضبوط ہے، شخصیات نہیں جماعتیں اہم ہیں۔ وہاں جمہوریت کے نام پر سیاسی کارکنوں کا استحصال نہیں ہوتا۔ وہاں صرف چھ سات سیاسی گھرانوں کا سیاسی جماعتوں کی قیادت پر قبضہ نہیں۔ وہاں ایک سیاسی کارکن جدوجہد کر کے پارٹی قائد بن سکتا ہے۔ وہاں کے سیاستدان صرف جمہوریت کا نام استعمال نہیں کرتے، اس کو اموشنل بلیک میلنگ کے لیے برتنے کے بجائے جمہوری قدروں کو سب سے پہلے اپنے اوپر نافذ کرتے ہیں۔ اسی لیے وہاں جمہوریت کو سویلین بالادستی کےلئے کسی جدوجہد کی ضرورت نہیں۔

اس بار تو آپ کا کیس ویسے ہی بہت کمزور ہے۔ اگر کوئی آمر آپ کی حکومت ہٹاتا تو آپ کے تمام تر غیر جمہوری رویوں کے باوجودشاید ہمدردی کی ہلکی سی لہر دوڑ جاتی۔ اس بار تو آپ کے خلاف اسٹیبلشمنٹ نے کچھ نہیں کیا۔ اگر کسی پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو وہ قدرت ہے۔ اپنا شکوہ قدرت سے کریں، جس نے پانامہ لیکس کی صورت میں ایسی مصیبت نازل کی، جس سے آپ لاکھ کوشش کے باوجود بچ نہیں سکے۔ پانامہ لیکس پاکستانی ایجنسیاں یا اسٹیبلشمنٹ نہیں لے آئی تھی۔ یہ ایک ایسا عالمی سکینڈل تھا، جس نے دنیا بھر کو ہلا کر رکھ دیا۔ آپ بھی اس کی زد میں آئے۔ جوش میں آ کر قوم سے خطاب کیا، خود کوعدالتی احتساب کے لیے پیش کیا۔ جوڈیشل کمیشن عدالتی احتساب ہی تھا۔ کمیشن نہ بن سکا، مگر معاملہ آخر سپریم کورٹ کے پاس چلا ہی گیا۔ سپریم کورٹ نے دو میں سے ایک فیصلہ ہی کرنا تھا۔ وہ آپ کو بری کر دیتی، اپوزیشن کی پٹیشن خارج کر دیتی یا پھر اپوزیشن کی پٹیشن اور آپ کو نااہل کرنے کی درخواست مان کر نااہل کر دیتی اور دیگر سنگین معاملات کو نیب کے حوالے کر دیتی۔ ان دو میں سے ایک فیصلہ ہی آیا ہے، اتفاق کہیں یا بدقسمتی کہ وہ آپ کے خلاف ہے۔ خلاف فیصلہ آیا تو آپ اسے ماننے سے کس طرح انکار کر سکتے ہیں ؟یہ بچگانہ باتیں ہیں کہ مجھے بیٹے کی کمپنی سے پیسے نہ لینے پر نااہل کیا گیا۔ آپ جانتے ہیں کہ آپ کو کس قانونی نکتے پر نااہل کیا گیا اور اعلیٰ عدالتوں میں باریک قانونی نکات ہی پر فیصلے ہوتے ہیں۔ وہاں گواہیاں نہیں بھگتائی جاتیں، وہاں لا پوائنٹس ہی ڈسکس ہوتے ہیں، انہی کی بنیاد پرفیصلے حق میں یا خلاف ہوتے ہیں۔ آپ کو یہ حق کس طرح مل سکتا ہے کہ خلاف فیصلہ آنے پر سیاسی جلسہ منعقد کریں اور پرجوش نعرے لگانے کے بعد لوگوں سے کہیں کہ آپ کے مینڈیٹ کو پانچ ججوں نے رد کر دیا، آپ کی توہین کر دی۔ یہ نہ صرف کھلی توہین عدالت ہے بلکہ عام آدمی کو عدالت کے خلاف اکسانے کے مترادف ہے۔ میاں صاحب آپ جو تین بار وزیراعظم بن چکے ہیں، آئین اور قانون کو سمجھتے ہیں اس طرح کا غیر جمہوری، غیر قانونی، غیر اصولی انداز آپ کیسے اپنا سکتے ہیں؟ کیا سپریم کورٹ آپ کے حق میں فیصلہ کرتی، تب آپ اس کا احترام کرتے؟ کیا جج صاحبان ہر فیصلہ آنجناب کی مرضی سے کرنے کے پابند ہیں؟

یاد رکھیں!
سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں میں جمہوریت آ جائے تو پھر ملک میں جمہوریت کی ازخود بالادستی ہو جاتی ہے۔ جہاں سیاسی جماعتیں خانوادوں کی طرح چلائی جاتی ہوں، اولاد کو شہزادوں، شہزادیوں کی طرح اقتدار میں لانے کی منصوبہ بندی کی جائے۔ سیاسی کارکن کی حیثیت ٹشو پیپر سے زیادہ نہ ہو، برسوں بلکہ عشروں جدوجہد کرنے والے وفادار رہنماؤں کو بھی قیادت ملنے کا کوئی امکان نہ ہو، اہم منصب صرف بھائی، بھتیجوں، بیٹی کے لیے مختص ہوں۔ تب اسے جمہوریت نہیں بلکہ نام نہاد جمہوریت کہا جاتا ہے۔ یہ ذہن میں رکھیں، نام نہاد جمہوریت کی جنگ دل سے کوئی نہیں لڑے گا۔ اس کی خاطر کوئی جان نہیں دیتا۔ معاف کیجیے میاں نواز شریف صاحب ، آپ جمہوریت کا مقدمہ لے کرکھڑے نہیں ہوئے۔ یہ سویلین بالادستی کی نہیں ، آپ کی ذاتی لڑائی ہے۔

کالم ایاز امیر