منتخب کردہ کالم

”ٹھیک“ کچھ بھی نہیں ہونا ہے! نصرت جاوید

برگد کے سائے تلے اُگے پودے شجر نہیں بن سکتے۔ ان میں سے کسی ”متبادل“ کا ڈھونڈنا حماقت ہے۔ ” جمہوریت بچانے“ کی فکر میں مبتلا ہمارے کئی بقراط وسقراط مگر اس حماقت کا ارتکاب کئے چلے جارہے ہیں۔
نواز شریف صاحب کا کوئی ”آصف علی زرداری“ بھی نہیں ہے۔ انہیں یوسف رضا گیلانی بناکر کوئی راجہ پرویز اشرف لے آنا اور ”وقت پر ہوئے“ آئندہ انتخابات کی اطمینان وسکون سے تیاری کرنا ناممکن ہوجائے گا۔ غالب نے کہا تھا:”پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے“ اور ”پارٹی“ تو ابھی شروع بھی نہیں ہوئی بلکہ ہونی ہے۔
جس روز آپ یہ کالم دیکھیں گے اس دن ریاست کے چھ اداروں کے نمائندوں پر مشتمل JIT نے اپنی رپورٹ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کو پیش کرنا ہے۔ ہمارے کئی دوست یہ اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ تفصیلات میں جائے بغیر اس دن نواز شریف کو کم از کم یوسف رضا گیلانی ضرور بنادیا جائے گا۔
میں ابھی تک ہمارے ہاں مبینہ طورپر موجود ”آزادی¿ صحافت“‘ کے ایامِ شباب کی شناخت نہیں کرپایا ہوں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے عہد میں آنکھ کھلی تھی۔ زمانہ طالب علمی جنرل یحییٰ کی نذر ہوا اور کل وقتی صحافت کے ذریعے رزق کمانے کا طریقہ ضیاءالحق کے دور میں سیکھا تھا۔ شاید سانپ کا ڈسا ہونے کی وجہ سے رسی سے بھی خوف کھاتا ہوں۔
ممکنہ عدالتی فیصلوں پر قیاس آرائی صحافیانہ اعتبار سے غیر اخلاقی ہی نہیں، خلاف قانون بھی تصور کرتا ہوں اور ”توہین عدالت“ کی جسارت کر ہی نہیں سکتا۔ جان کی امان پاتے ہوئے تاہم عرض اتنا ضرور کرنا ہے کہ محض 10جولائی کے روز ہی نواز شریف کو یوسف رضا گیلانی بنانا ممکن نظر نہیں آرہا۔ ہفتے کی شام چار وفاقی وزراءنے باہم مل کر جو پریس کانفرنس کی ہے، اس نے پیغام اگرچہ یہی دیا ہے۔
ان چاروں میں، کہا جاتا ہے،ایک ممکنہ ”متبادل“ بھی موجود تھا۔ مجھے اس خیال سے بھی اتفاق نہیں ہے۔ ”عشق“ کو جوانی درکار ہوتی ہے۔ یہ چاروں اپنی جوانیاں گزارنے کے بعد بھی بقولِ فیض ”کچھ عشق کیا۔ کچھ کام کیا“ میں مصروف رہے ہیں۔ کامل یکسوئی سے اپنے اصل اہداف پر توجہ نہیں دے پائے۔ کچھ معاملات کے بارے میں ان کا واویلا اگرچہ جائز وجوہات کی بنا پر تھا۔
ان وجوہات کو تسلیم کرتے ہوئے بھی مجھے ان وفاقی وزراءکو یاد صرف یہ دلانا ہے کہ ان کے وزیر اعظم آئینی طورپر اس ملک کے ”چیف ایگزیکٹو“ کہلاتے ہوئے بھی گریڈ 18 سے 20 کے افسروں پر مشتمل کمیٹی کے روبرو پیش ہو گئے تھے۔ میاں صاحب نے وزیر اعظم کے منصب پر برقرار رہتے ہوئے بھی اس کمیٹی کے روبرو پیش ہوکر درحقیقت پاکستان کو 1950کی دہائی میں دھکیل دیا تھا۔ ایک مفلوج گورنر جنرل کا وہ دور جب سیاستدان ”مسلم لیگی“ ہوکر سوتے تو صبح اُٹھ کر ”ری پبلکن“ ہوجاتے تھے۔ چودھری محمد علی بڑے زیرک بیوروکریٹ مانے جاتے تھے۔ پودے کے پیچھے چھپا کٹھ پتلیاں متعارف کروانے اور انہیں ہلانے کے بعد تھیلے میں واپس ڈالنے والا افسر مگر سکندر مرزا تھا۔ نسبی اعتبار سے میر جعفر کا یہ وارث برطانوی سامراج نے اپنی ”پولیٹیکل سروس“ میں Train کرتے ہوئے میجر جنرل کے عہدے تک پہنچادیا تھا۔ ایک آرمی چیف جنرل ایوب خان کو وزیر دفاع بناکر کابینہ کا رکن اسی مرزا نے بنایا تھا۔ کابینہ میں بیٹھ کر جنرل ایوب نے اقتدار کا کھیل خوب سمجھ لیا اور بالآخر 1958میں ہمارے Saviorکے طورپر نمودار ہوئے اور فیلڈ مارشل ہوگئے۔ ہمارے نوجوانوں کی بے پناہ اکثریت کے محبوب عمران خان ان کی 1960والی دہائی کو گزشتہ چند دنوں سے مسلسل یاد کئے چلے جارہے ہیں۔
ایوب خان سے عمران خان کی اس والہانہ عقیدت نے ،لوگ کہتے ہیں‘ ان کے فرزند گوہر ایوب اور پوتے عمر ایوب کو بہت متاثر کیا ہے۔ ان دونوں کی پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ گوہر ایوب خان مگر 1977ءکے انتخابات میں اصغر خان کی تحریکِ استقلال میں بھی ہوا کرتے تھے۔ بھٹو مخالف تحریک کے ہنگام میں ہری پور جیل میں نظر بند بھی رہے۔
آدمی، بہت ذہین ہیں۔پاک فوج میں کیپٹن ہوا کرتے تھے۔ وہاں سے ا ستعفیٰ دے کر کاروبار کا فیصلہ کیا اور گندھارا موٹرز جیسی شاندار کمپنی بنادی۔ حسد کے مارے لوگ باتیں بناتے تو فیلڈ مارشل بہت معصومیت سے سوال پوچھتے:” کیا میرے بیٹوں کو اس ملک میں کاروبار کا حق بھی نہیں ہے؟“ دور مگر وہ سنہری تھا۔ صحافت آج کے دنوں جیسی ”بے باک“ نہیں تھی اور پانامہ پیپرز بھی منظرِ عام پر نہیں آئے تھے۔ اب ”بیٹوں کے کاروبار“ کا حساب دینا ضروری ہوتا ہے۔
دس جولائی کو اس حساب کی پہلی قسط ہمارے سامنے آئے گی۔ بیٹوں کے کچھ اعمال کی سزا شاید ان کے والد کو بھی ملے۔ یہ سوال اگرچہ اپنی جگہ موجود رہے گا کہ پانامہ دستاویزات میں آئے باقی 399 ناموں کا کیا ہوا۔ جن لوگوں نے یہ ”گیم“ لگائی ہے باور کئے بیٹھے ہیں کہ برگد کا درخت گرگیا تو اس کی لکڑی کاٹ کر گھروں کو لے جانے کی خواہش میں مصروف ہجوم کو یہ 399 نام بھول جائیں گے۔ وقت ”قبل از وقت“ انتخابات کی جانب بڑھے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کی ٹکٹ لے کر یہ انتخاب لڑنے کو ہر شخص دیوانہ ہورہا ہوگا۔ہم ایسے سادہ لوحوں کو ”کرپشن“ سے بچانے کے لئے تسلی یہ دی جائے گی کہ ”جب آئے گا عمران“ تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ میرے منہ میں ابھی سے ڈھیر ساری خاک، ”ٹھیک“ کچھ بھی نہیں ہونا ہے۔ برگد گرا تو پودوں کو سایہ دار اور پھل دار درخت بننے تک بہت وقت درکار ہوگا۔ پودوں کے درخت بننے تک چلچلاتی دھوپ ہے، ساون کا حبس ہے،سردی کی شدت ہے۔ بات چل نکلی تو اسے بہت دور تک پہنچنے کے لئے بہت دیر بھی درکار ہوگی۔
یہاں تک پہنچنے کے بعد مجھے اپنا قلم رکھ دینا چاہیے۔ اشارے، کنائے، تلمیحات اور استعارے ”آزادی¿ صحافت“ کے مبینہ ایام شباب میں مجھ ایسے خوف میں مبتلا اذہان پر چھائے ہیولوں کو بے نقاب کردیتے ہیں۔تحریر میں روانی نہیں ہوتی۔ ٹامک ٹوئیاں مارکر ڈنگ ٹپانے کی بچگانہ کوشش نظر آتی ہے۔ اپنا بھرم برقرار رکھنے کے لئے آپ سے اجازت طلب کرنا ضروری ہے۔ کھل کے بات مگر ایک دن ضرور ہوگی۔ ذرا دس جولائی گزرجانے دیجئے۔