منتخب کردہ کالم

جمہوری تسلسل کا مسئلہ …. رئوف طاہر

برادر م اظہارالحق کی 5 نومبر کی ”تلخ نوائی‘‘ کا بنیادی نقطہ کچھ اور تھا، کراچی میں ریلوے کا تازہ حادثہ جس میں 20 افراد جان بحق ہو گئے۔ وہ بھارت سے تین، چار حوالے لائے جب ریلوے حادثے پر متعلقہ وزیر نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ پیش کر دیا۔ آزادی کے ابتدائی برسوں میں لال بہادر شاستری کی مثال۔ (وہ بعد میں ہندوستان کے وزیرِ اعظم بھی بنے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ انہی کے دور میں ہوئی۔ جنوری 1966ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان اور شاستری مسئلہ کشمیر سمیت 17 روزہ جنگ سے پیدا شدہ مسائل پر مذاکرات کے لئے تاشقند میں مل بیٹھے۔ معاہدے پر دستخط ہو چکے تھے کہ اسی شب شاستری دل کا دورہ پڑنے سے اگلے جہاں سدھار گئے۔ اگلے روز ان کا جسدِ خاکی دہلی روانہ کرتے ہوئے فیلڈ مارشل ایوب خان بھی کندھا دینے والوں میں شامل تھے)۔
اظہارالحق نے بھارتی ریلوے کے دو اور وزیرِوں، نتیش کمار اور ممتا بینرجی کے استعفوں کی مثال بھی پیش کی۔ اس موقع پر انہیں اپنے شیخ رشید بھی یاد آئے۔ ڈکٹیٹر کے دور میں وزارتِ اطلاعات و نشریات میں بے پایاں خدمات سرانجام دیں اور پھر انہیں ریلوے میں ٹرانسفر کر دیا گیا۔ ایک ریلوے حادثے پر شیخ صاحب سے استعفیٰ کا سوال کیا گیا تو ان کا جواب تھا کہ ریلوے وزیر، ڈرائیور تھوڑا ہی ہوتا ہے (جو وہ حادثے پر استعفیٰ دے دے)۔ وزارتِ اطلاعات سے ریلوے میں ٹرانسفر کا سبب کیا تھا؟ یہ جنابِ شیخ، ان کے ”باس‘‘ یا واقفِ درونِ خانہ کو پتہ ہو گا، ورنہ شیخ صاحب نے وزیرِ اطلاعات و نشریات کے طور پر بھی ”باس‘‘ کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ وہ اس کے نام کے ساتھ سید کہنا نہ بھولتے۔ 9 مارچ اور پھر 3 نومبر کو عدلیہ پر ڈکٹیٹر کے حملے سے لے کر لال مسجد (اور جامعہ حفصہ) آپریشن اور امریکہ کی اطاعت گزاری میں وطن عزیز کی فضائیں، برّی اور بحری راستے سب کچھ بش جونیئر کے حوالے کرنے تک‘ قومی خودداری اور ریاستی اقتدارِ اعلیٰ کے منافی ہر اقدام کی وکالت میں پیش پیش ہوتے۔ اس میں ان کی آخری دلیل یہ ہوتی، ‘تو کیا مشرف پاکستان کو بھی تورا بورا بنا دیتے؟‘ ڈکٹیٹر کی وزارت کو وہ اپنی سیاسی زندگی کی معراج قرار دیتے۔ انہیں یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہ ہوتی کہ اس سے پہلے تو وہ جھک ہی مارتے رہے‘ اصل سیاست تو وہ اب کر رہے تھے۔ اپنے حاضر ”باس‘‘ کی مدح کے ساتھ وہ اپنے سابق قائد کی قدح بھی ضروری سمجھتے‘ اور اس میں ہر حد عبور کر جاتے۔ اور اس کا خمیازہ انہیں 2008ء کے الیکشن میں بھگتنا پڑا، جب راولپنڈی کی ایک نشست پر وہ مخدوم جاوید ہاشمی اور دوسری پر حنیف عباسی کے ہاتھوں ضمانت ضبط کروا بیٹھے۔ زرداری صاحب کے عہد میں NA-55 کے ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کی بھرپور حمایت کے باوجود وہ شکیل اعوان کے سامنے کھیت رہے۔ 2013ء میں عمران خان کا ہاتھ تھام کر انہوں نے NA-55 کا دریا عبور کر لیا۔
اظہارالحق کو اعتراف ہے کہ خواجہ سعد رفیق کو وزارتِ ریلوے نہایت دگرگوں حالات میں ملی تھی‘ مگر آج حالت مختلف ہے، ”ریلوے کو خواجہ نے موت کے منہ سے نکالا اور اس کی اکھڑتی ہوئی سانسیں بحال کر دیں، لیکن سخت محنت اور جزوی کامیابی کے باوجود وہ ریلوے کو پے در پے حادثات سے بچانے والا نظام نافذ کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہے‘‘۔ اظہارالحق کا کہنا ہے کہ ریلوے حادثات پر خواجہ صاحب استعفیٰ کیوں نہیں پیش کر دیتے؟ ہمیں بھی اس سے اتفاق ہے کہ سعد رفیق رسماً ہی سہی، یہ کارِ خیر انجام دے کر اپنے لئے سرخروئی اور دوسروں کے لئے ایک اچھی مثال کا اہتمام کیوں نہیں کرتے؟ اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ وزیرِ اعظم ان کا استعفیٰ منظور نہیں کریں گے کہ ان کے رفقا میں دور دور تک ریلوے کے لئے سعد رفیق کا نعم البدل تو کجا، متبادل بھی نظر نہیں آتا۔ وہ ریلوے کی بہتری کے لئے لگا ہوا ہے، تو لگا رہنے دیں۔ حادثات کی روک تھام کا نظام لانے میں بھی وہ کامیاب ہو جائے گا۔
ہمارے اس کالم کا اصل محرک جناب اظہار الحق کی یہ سطور تھیں کہ ہم جو کرکٹ کے میدان میں بھارت سے ایک انچ پیچھے رہنا برداشت نہیں کرتے اور اس میں اس حد تک جذباتی ہو جاتے ہیں کہ انڈیا سے شکست پر ہمارے گھروں میں صفِ ماتم بچھ جاتی ہے، ایسا بھی ہوا کہ لوگوں کو دل کے دورے پڑے اور وہ دنیا سے ہی کوچ کر گئے، مگر کھیل کے علاوہ دوسروں شعبوں میں ہماری غیرت معجون کھا کر کیوں سو جاتی ہے۔ مثلاً جمہوری تسلسل میں بھارت ہم سے ہزاروں کوس آگے ہے۔ وہاں کئی ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ پنجاب کے سکھوں کے ساتھ قضیے میں اندرا گاندھی جان سے گئی مگر ایسا نہ ہوا کہ کسی نے آ کر ”عزیز ہم وطنو‘‘ کو خطاب کیا ہو۔ جنابِ اظہار کے یہ الفاظ ہمارے خیال میں اس تلخ نوائی کا کلائمیکس تھے، جتنی دل سوزی ہم کرکٹ کے حوالے سے دیکھتے ہیں، اس سے آدھی شرم تو ہمیں اس (جمہوری تسلسل ) کے حوالے سے ضرور آنی چاہیے۔
جدہ کے سرور محل میں میاں صاحب کے ساتھ نشستیں یاد آئیں، جن میں وہ اکثر بتایا کرتے کہ طیارہ اغوا کیس کی سماعت کے دنوں میں وہ کراچی میں پابند سلاسل تھے۔ جیل میں انہیں ایک چھوٹا سا ٹی وی بھی مل گیا تھا۔ ایک روز آزادی کی نصف صدی میں بھارت کی اچیومنٹس پر بحث ہو رہی تھی۔ سابق وزرائے اعظم سمیت بھارت کی ٹاپ پولیٹکل لیڈرشپ شریکِ بحث تھی۔ کسی نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کی بات کی، نہ اس کی ابھرتی ہوئی معیشت کا حوالہ دیا۔ سب سے بڑی اچیومنٹ، جس پر سب کا اتفاق تھا، وہ جمہوری تسلسل تھا۔ اور یہ جو اظہارالحق صاحب نے خالصتان کی سکھ تحریک سمیت مختلف صوبوں میں آزادی کی تحریکوں کی بات کی تو ان کا اصل مقابلہ یہ جمہوری تسلسل ہی کر رہا ہے۔ خود اپنے ہاں پاکستان میں بھی، جمہوری نظام ہی ہے جو مختلف اکائیوں کو اقتدار میں شرکت اور یوں وطنِ عزیز سے اپنائیت کا احساس بخشتا ہے، ”عزیز ہم وطنو‘‘ والے اپنے دس دس سالہ اقتدار کے بعد رخصت ہوئے تو خصوصاً چھوٹے صوبوں میں پیدا ہونے والے احساس مغائرت کو جمہوری نظام کا احیا ہی دوبارہ قومی دھارے میں لایا۔
لیکن جمہوری تسلسل محض باتوں سے نہیں، سیاسی جماعتوں کو گراس روٹ لیول پر لے جانے‘ پارلیمنٹ سمیت آئینی اداروں کو اہمیت دینے‘ اور عوام کو نچلی سطح تک شریکِ اقتدار کرنے جیسے اقدامات ہی سے تقویت پائے گا۔