جناب کی کل کائنات…ھارون الرشید
نفس کی پرستش کیا ہے ؟ شیخِ ہجویر ؒ نے کہا تھا : لذت کی تلاش اور اقتدار کی تمنا۔ عالی جناب کی کل کائنات یہی ہے ۔ خور و نوش ، زر و مال اور اقتدار کی ہوس۔
جدید نفسیات کی تشکیل سے بہت پہلے مسلمان سکالرز نے ”حبِّ جاہ‘‘ کی اصطلاح وضع کی تھی : پذیرائی کی تمنا ۔ اس عزت کی تلاش ، رزق کی طرح جو خالق کے ہاتھ میں ہے مگر اس کے لیے مخلوق کے سامنے ہاتھ پھیلایا جاتا ہے۔
گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر، بھنور ہے تقدیر کا بہانہ
اظہارِ ذات کی تمنا بجائے خود بری نہیں لیکن اگر وہ حواس پر غالب آ کر اوّلین ترجیح ہو جائے تو زندگی ایک کشکول بن کے رہ جاتی ہے ۔ کھڑی شریف کے عارف میاں محمد بخش نے کہا تھا: کیکر پہ لٹکتی دھجیوں کی طرح!
میاں محمد نواز شریف جب ووٹ کے لیے عزت کی دہائی دیتے ہیں تو خود اپنے حال پر غور کرنے کی زحمت بھی گوارا کرتے ہیں؟ 2010ء میں بلدیاتی الیکشن کی مدت تمام ہو گئی تو آئندہ پانچ برس تک نئے انتخابات آپ نے منعقد ہونے نہ دئیے ۔ 2015ء میں سپریم کورٹ کی بار بار مداخلت سے اللہ اللہ کر کے الیکشن ہوئے تو آئندہ مرحلے کی مزاحمت کی گئی ۔ پورا ایک سال اس حال میں بیت گیا کہ کونسلر تو کار فرما تھے مگر تحصیل اور ضلع کے عہدیدار نہیں۔ بار بار عدالتِ عظمیٰ کے اصرار پہ بالآخر ان کا اہتمام ہوا تو اس طرح کہ بلدیات کے اکثر اختیارات سلب کر لیے گئے ۔ جنرل پرویز مشرف نے گیارہ وزارتوں کے اختیارات محدود کر دئیے تھے۔ ان میں سے کچھ بلدیاتی اداروں کو سونپے گئے، مثلاً سکول اور ڈسپنسریاں۔ جب تک ان اداروں کو مکمل طور پر بانجھ نہ کر دیا گیا‘ جب تک ہر کہیں حکمران پارٹی کے نمائندوں کا چنائو یقینی نہ ہو گیا، الیکشن کا التوا عمل میں آتا رہا ۔ بلدیاتی ادارے مذبح خانوں کے نگراں تھے۔ بازار میں فروخت ہونے والے گوشت کا جائزہ لے سکتے تھے ۔ ان سے یہ حق چھین لیا گیا ۔ کوڑا کرکٹ تک کے لیے الگ کمپنیاں بنا دی گئیں؛ حتیٰ کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے عہد سے بھی وہ کمزور تر کر دیے گئے ، جب وہ گلی کوچوں میں روشنی کے ذمّے دار تھے۔ ان میں چھڑکائو کیا کرتے ۔ مقامی تعلیمی اداروں کا نظم و نسق چلاتے ۔ دنیا بھر میں شہری حکومتوں کو جمہوریت کی نرسری اور بنیاد بنایا جاتا ہے۔ انہی سے وہ قیادت ابھرتی ہے ، بتدریج صیقل ہو کر جو ملک کا نظام چلاتی ہے ۔ پرائمری ، مڈل اور میٹرک کے بعد یونیورسٹیوں کی تعلیم کا مرحلہ آتا ہے۔ مرحلہ وار ہی لیڈرشپ کی تربیت ممکن ہے۔ بلدیاتی اداروں کو اس بے دردی سے قتل کرتے ہوئے ، جس میں تحصیل اور ضلع ناظم کو بے معنی بنا دیا گیا، شریف خاندان کو کبھی ووٹ کی عزت کا خیال کیوں نہ آیا؟
ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں مرحوم رانا نذرالرحمٰن اور جاوید ہاشمی پر قتل کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا۔ یہ تعلیم گاہوں پر حکومتی کارندوں کو مسلط کرنے کی مہم کا حصہ تھا۔ لاہور کی ضلع کچہری میں ”ملزم‘‘ رانا نذرالرحمٰن کے تعارف کا مرحلہ آیا تو مزاقاً جاوید ہاشمی نے کہا : آپ لاہور کارپوریشن کے کونسلر بھی رہے ہیں ۔ رانا صاحب کو صدمہ پہنچا۔ انہوں نے کہا : آپ کبھی کونسلر رہے ہوتے تو آپ کو اس منصب کی اہمیت کا احساس ہوتا۔
بلدیاتی اداروں کے اس چمن کو ویرانہ بنانے کے عمل میں ، جو چھ برس پہ محیط تھا ، نون لیگ کے اندر سے احتجاج کی کبھی ایک آواز بھی نہ اٹھی‘ تو اب واویلا کیوں ہے ؟ اب ایسی گریہ زاری کس لیے کہ سرکاری اخبار نویسوں کے قلم آنسو ہو گئے ہیں۔
اسلام آباد کے سیمینار میں میاں صاحب نے ان سیاسی لیڈروں کو سٹیج پر براجمان کیا ، آج تک جنہوں نے 1947ء میں صادر ہونے والے مسلم برصغیر کے فیصلے کو صمیمِ قلب سے قبول نہیں کیا ۔ محمود خان اچکزئی ، زندگی میں پہلا موقعہ ملنے پر جنہوں نے اپنے چودہ رشتہ داروں کو صوبائی حکومت میں مناصب بخشے۔ جن کا ارشاد یہ ہے کہ پاکستان میں پختون اکثریت کے علاقے، افغانستان کا حصہ ہیں ۔ جن کے گرامی قدر والد بلوچستان کے گاندھی کہلائے۔ میاں صاحب نے جنہیں ایک نظریاتی شخصیت قرار دیا ۔ افغان اور ایرانی انٹیلی جنس سے جن کے مراسم کوئی راز نہیں ۔ خود وزارتِ داخلہ کی سرکاری فائلیں جس کی شہادت دیتی ہیں۔
اسی تقریب میں اے این پی کے افتخار حسین نے 1947ء کے ریفرنڈم کا شوشہ چھوڑا۔ دہائی دی کہ سرحد میں ان کی صوبائی حکومت برطرف کر دی گئی تھی۔ نواز شریف اور ان کے مسلم لیگی رفقا منہ میں گھنگھنیاں ڈالے فروکش رہے ۔ کسی کو یاد دلانے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی کہ ریفرنڈم میں شکست کے بعد عبدالغفار خان کی حکومت کو از خود ہی مستعفی ہو جانا چاہئے تھا۔ وہی غفار خان جو پاکستان کے وجود سے نفرت کرتے تھے۔ جنہوں نے افغانستان میں دفن ہونا پسند کیا۔
کیا قائدِ اعظم ووٹ کی حرمت کے پاسدار نہ تھے؟ 1946ء کے انتخابات میں جنہوں نے 75.6 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ کیا وہ نظریاتی رہنما نہ تھے؟ وہ آدمی جس نے جدید تاریخ کا عدیم النظیر کارنامہ سرانجام دیا کہ بکھرے ہوئے مسلمانوں کو ایک قوم میں ڈھالا، اسے آزادی عطا کی اور ان کے لیے ایک الگ وطن حاصل کیا؟ مسلم لیگی لیڈروں اور کارکنوں کو قیامت کے دن خدا کے حضور پیش ہونا ہے یا نواز شریف کو حساب دینا ہے کہ قائدِ اعظم اور پاکستان کی توہین شیرِ مادر کی طرح پی گئے؟
جنرلوں کے سب گناہ معاف کیے جا سکتے ہیں مگر یہ کبھی نہیں کہ انہوں نے ایک ایسے شخص کو ملک پر مسلط کیا، نظریات اور اصولوں سے جس کا دور دور کا واسطہ بھی نہیں۔ کوئی اخبار نویس ایک چھوٹی سی مشق کرے۔ جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے علاوہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کے ساتھ میاں محمد نواز شریف کی تصاویر یکجا چھاپ دے۔ منتخب نہیں، تمام کی تمام تصاویر۔ دیکھنے والے دنگ رہ جائیں گے۔ بھارتی اور کشمیری مسلمانوں کے قاتل کے ہمراہ وہ کس قدر آسودہ بلکہ بشاش نظر آتے ہیں۔ پاکستانی افواج کے سربراہوں کی معیت میں کس قدر نالاں، ناراض اور تحفظ کا شکار ہیں۔ بیانات، تقریریں اور تجزیے غلط ہو سکتے ہیں لیکن تصویر کبھی جھوٹ نہیں بولتی۔ میاں صاحب ان اخبار نویسوں اور دانشوروں کو ترجیح کیوں دیتے ہیں، قیامِ پاکستان کے جو مخالف ہیں؟
میاں صاحب مارشل لا کے بطن سے پیدا ہوئے اور جنرلوں کے سائے میں پروان چڑھے۔ تحریکِ پاکستان بلکہ تحریکِ آزادی ہی سے ان کا خاندان یکسر لا تعلق رہا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان اور جنرل محمد یحییٰ خان کے مارشل لائوں کے خلاف اس خاندان کے کسی شخص نے کبھی برائے وزن بیت بھی بات نہ کی۔ سیاست کی انہیں تب سوجھی، جب بھٹو نے ان کی فائونڈری قومیا لی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور اور بعد کے برسوں میں ہر منتخب لیڈر کی انہوں نے ڈٹ کر مذمت کی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو ہی نہیں، محمد خان جونیجو اور یوسف رضا گیلانی کی بھی۔ بعض کو اکھاڑنے اور بعض کی مثلاً نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو‘ کردار کشی میں انہوں نے بھرپور حصہ لیا۔ ان کے پالے ہوئے کارندے اب بھی اسی کارِ خیر میں جتے رہتے ہیں۔ 200 ملازمین پر مشتمل نون لیگ کا میڈیا سیل اختلاف کرنے والوں کو دن رات دشنام دیا کرتا ہے۔
آدمی کے کردار کا اندازہ اس طرزِ عمل سے ہوتا ہے، جو وہ اپنے مخالفین کے ساتھ روا رکھے۔ کیا میاں صاحب اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ خود سے اختلاف کرنے والے کسی شخص کی انہوں نے کبھی عزت کی ہو؟ خود پرستی میں ایک بلند مقام پر وہ فائز ہیں۔
نفس کی پرستش کیا ہے؟ شیخِ ہجویر ؒ نے کہا تھا: لذت کی تلاش اور اقتدار کی تمنا۔ عالی جناب کی کل کائنات یہی ہے۔ خور و نوش، زر و مال اور اقتدار کی ہوس۔