منتخب کردہ کالم

جنوبی پنجاب کے لیے خادم اعلیٰ کا تحفہ (ترازو) محمد بلال غوری

سیاستدان مخدوم (مالک)بننے کے لیے خود کو خادم (نوکر)کے طور پر پیش کرتا ہے۔(فرانسیسی جرنیل اور مدبر ، چارلس ڈی گلو)
میں جب بھی جنوبی پنجاب کے بارے میں سوچتا ہوں توامریکی ریاست ایری زونا کی سانتا کروز کائونٹی کے ایک ساحلی اور سرحدی شہر ”نوگلز‘‘کا خیال آتا ہے۔یہ چھوٹا سا شہر دو حصوں میں منقسم ہے ،ایک حصہ ”نوگلز،ایری زونا‘‘ کہلاتا ہے جبکہ باڑ کے اس طرف کا علاقہ ”نوگلز ،سنورا‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔”نوگلز ،ایری زونا‘‘ کے باسی بہت خوش قسمت ہیں کیونکہ ان کی فی کس آمدن 30ہزار ڈالر سالانہ ہے۔شہر میں تعلیمی اداروں اور اسپتالوں کی کوئی کمی نہیں،شرح خواندگی 100فیصد ہے ،ملک بھر سے ملانے والی رابطہ سڑکیں موجود ہیں ،شہر کی صفائی اور آب و ہوا کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور جرائم کی شرح بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ مگر دوسری طرف ”نوگلز ،سنورا ‘‘ کے لوگ بہت بدقسمت محسوس ہوتے ہیں جہاں ضروریات زندگی کا فقدان نظر آتا ہے۔ان کی فی کس سالانہ آمدن محض 10ہزار ڈالر ہے ۔تعلیم و صحت کی سہولیات دستیاب نہیں ،آلودگی کے باعث بیماریاں پھیلتی ہیں اور علاج کے لیئے موزوں بندوبست دکھائی نہیں دیتا،پڑھنے لکھنے کا رجحان نہیں ، جرائم پیشہ افراد کی وجہ سے لوگ عدم تحفظ کا شکار رہتے ہیں۔ایک ہی شہر ،ایک ہی طرح کے لوگ ،ایک ہی طرح کی ثقافت ،ایک جیسی آب و ہوا مگر لوگوں کے حالات زندگی میں بے پناہ تفاوت کی وجہ یہ ہے کہ اولذکر حصہ”نوگلز ، ایری زونا‘‘ امریکی ریاست کا حصہ ہے جبکہ موخرالذکر شہر ”نوگلز،سنورا‘‘ میکسیکو کا علاقہ شمار ہوتا ہے۔جنوبی پنجاب کا المیہ بھی یہی ہے کہ جغرافیائی اور انتظامی اعتبار سے تو یہ پنجاب کا حصہ ہے مگر حالات زندگی کے اعتبار سے کبھی اندرون سندھ کا منظر پیش کرتا ہے تو کبھی بلوچستان جیسے ناگفتہ بہ حالات کا شکار نظر آتا ہے۔سیاسی نعرے اور دعوے اپنی جگہ مگر اختیارات کو لاہور مرتکز کرنے کا یہ عالم ہے کہ میرے ایک دوست عمران یوسف جو سول سرونٹ ہیں اور ان کا تعلق آئی آرایس(انٹیلی جنس) سے ہے ،انہیںدفتری کام کے سلسلہ میں آئے دن ملتان سے لاہور آنا پڑتا ہے کیونکہ کسٹمز ،ان کم ٹیکس اور منی لانڈرنگ کے معاملات کا فیصلہ کرنے کے لیے لاہور میں ہی ایک عدالت ہے اور پورا جنوبی پنجاب دادرسی کے لیے لاہور کی قدم بوسی کرنے پر مجبور ہے۔
بہر حال بات ہو رہی تھی جنوبی پنجاب کی ،بیانات کی حد تک زراعت ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ضرورہے مگر اقدامات کے تناظر میں دیکھا جائے توموجودہ حکومت دہشتگردوں کی کمر بیشک نہ توڑ سکی لیکن کاشتکاروں کی ریڑھ کی ہڈی توڑنے میں اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔بھارتی پنجاب میں فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لیے حکومت کسانوں کو بجلی ،بیج اور زرعی ادویات مفت دیتی ہے مگر ہمارے ہاں تمام چوربازاریوں اور لوٹ مار کے بعد کسان کو فصل کا نرخ بھی ٹھیک نہیں ملتا ۔پاکستان کپاس پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے اور وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر جو آئے دن ٹی وی چینلز پر ٹیکسٹائل مصنوعات کی بر آمد ات میں اضافے کا کریڈٹ لیتے ہیں ،انہیں شاید ہی معلوم ہو کہ ان مصنوعات کے لیے جنوبی پنجاب کے جو کسان دن رات ایک کرکے کپاس کی فصل تیار کرتے ہیں ،ان کے حالات زندگی کیا ہیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ حکومتی نااہلی اور عدم دلچسپی کے باعث کپاس کی کاشت گھاٹے کا سودا بن چکی ہے اور کپاس کی پیداوار مسلسل کم ہو رہی ہے۔کپاس کی سالانہ پیداوار کو دیکھا جائے تو 2015ء اور 2016ء بدترین سال ثابت ہوئے اور کپاس برآمد کرنے والے ملک کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کپاس درآمد کرنا پڑی۔جنوبی پنجاب کا کسان سندھی کاشتکار کے مقابلے میں ہمیشہ خوشحال رہا ہے لیکن گزشتہ برس پہلی مرتبہ یہ ہوا کہ سندھ نے نہ صرف مجموعی طور پر کپاس کی پیداوار کے اعتبار سے جنوبی پنجاب کو مات دیدی بلکہ فی ایکڑ پیداوار کے لحاظ سے بھی سندھ جنوبی پنجاب سے آگے نکل گیا۔
حکمت کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس صورتحال پر سنجیدگی سے غور کیا جاتا اور فوری طور پر ہنگامی نوعیت کے اقدامات تجویز کیے جاتے تاکہ کپاس کی پیداوار بڑھا ئی جاسکتی لیکن پنجاب حکومت کی ترجیحات کچھ اور تھیں اور بدستور مختلف ہیں۔ حکومت پنجاب نے بہتری لانے کے بجائے ” مرے پہ سو درے‘‘کے مصداق کپاس کے کاشتکاروں کو ایک اور گھائو دینے کیلئے شریف خاندان کی شوگر ملوں کو جنوبی پنجاب منتقل کرنے کی اجازت دیدی تاکہ تنگ آئے کسان کپاس کی فصل ترک کرکے گنے کی کاشت کی طرف مائل ہوں اور یوں صرف بانس اور بانسری ہی رہ جائے۔چونکہ خادم اعلیٰ پنجاب بہت جانفشانی اور محنت سے کام کرتے ہیں اور کسی بھی کام کو ادھورا نہیں چھوڑتے اس لیے انہوں نے کپاس کی فصل کوختم کرنے کے لیے حال ہی میںایک اور ”انقلابی ‘‘فیصلہ کیا ہے۔ناگ شاہ چوک سے ملتان کی طرف آئیں تو پرانا شجاع آباد روڈ پر سڑک کے دونوں طرف ملتان کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ہے۔یہ تحقیقی مرکز 1970ء سے کام کر رہا ہے اور اس کا مقصد کپاس کی فصل کے بارے میں تجربات کرکے نت نئی اقسام متعارف کروانا اور کسانوں کو کاشتکاری کے جدید ذرائع سکھانا ہے۔اگرچہ باقی اداروں کی طرح اس تحقیقی مرکز کے بھی مسائل ہیں مگر اس نے کپاس کی پیداوار 3ملین گانٹھوں سے 14.6ملین گانٹھوں تک پہنچانے میں بہت اہم
کردار ادا کیا ہے ۔اس ادارے نے تحقیق کے بعدکپاس کے 20 قسم کے نئے بیج متعارف کروائے ہیں۔یہ ادارہ جس 115ایکڑ اراضی پر قائم ہے وہ پنجاب حکومت سے 25سالہ لیز پر حاصل کی گئی تھی۔چونکہ خادم اعلیٰ پنجاب پر ان دنوں سیف سٹیز پراجیکٹ کی دھن سوار ہے اس لیے پنجاب حکومت نے اس کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی 59 کنال زمین سیف سٹیز پراجیکٹ اور ڈولفن فورس کو الاٹ کر دی ہے جبکہ 56کنال زمین واپڈا کو گرڈ اسٹیشن بنانے کے لیے دیدی گئی ہے۔کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی انتظامیہ نے وزیراعظم سے التجا کی ،وہاں شنوائی نہیں ہوئی تو دوبارہ پنجاب حکومت سے نظر ثانی کی درخواست کی لیکن تادم تحریر کوئی مثبت جواب نہیںملا ۔ اب کسان سینہ کوبی کر رہے ہیں کہ جنوبی پنجاب کا اکلوتا کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھی بند ہو گیا توزراعت کا مستقبل کیا ہو گا؟حالانکہ اس کے بدلے سیف سٹیز پراجیکٹ بھی تولگ رہا ہے ۔اب یہ تو خادم اعلیٰ نے طے کرنا ہے کہ کس علاقے کو کیا تحفہ دینا ہے ۔ اگر خادم اعلیٰ پنجاب نے واقعی فیصلہ کر لیا ہے کہ کپاس کی فصل جائے بھاڑ میں تو پھریہ کہنے میں کیا حرج ہے کہ اٹھا لو پان دان اپنا، ہمیں کسی تحقیقی مرکز کی ضرورت نہیں ۔کونسی فصل کاشت کرنی ہے ،کس چیز کی ضرورت ہے کس چیز کی ضرورت نہیں ہے ،یہ آپ جناب سے بہتر کون جانتا ہے ، بس اتنی التجا ہے کہ کپاس کی فصل ممنوع قرار دینے کا باضابطہ اعلان کر دیا جائے اور جنوبی پنجاب کی رعایا کو بتادیا جائے کہ اب وہ اپنے کھیتوں میں کیا کاشت کریں؟