جنگوں کا جھرمٹ….نذیر ناجی
امریکی صدر ٹرمپ اور روسی صدرپوٹن کے مابین ہونے والی حالیہ ملاقات کو خاص اہمیت دی جا رہی ہے۔ کافی عرصے سے دونوں ممالک کے تعلقات سرد مہری کا شکار چلے آرہے ہیں۔ہو سکتا ہے اس ملاقات کے بعد برف پگھلنے لگے اورآنے والے دنوں میں سرد مہری گرم جوشی میں بدل جائے۔اس کا تعین تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔ دونوں ممالک کے سربراہان مملکت کے درمیان کن امور پر بات چیت ہوئی اور کیا کچھ طے پایا؟اس حوالے سے الیگزینڈر بِک اور برائن کاٹولس کا مضمون پیش خدمت ہے۔
”چند روز قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مابین ہونے والی ملاقات میں کیا بات چیت ہوئی اور کیا معاملات طے پائے؟اس ملاقات کے ایجنڈے میں شامل ایک کلیدی نکتہ‘ شام کی صورتحال کے بارے میں تھا۔ اس مسئلے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اگر یہ دونوں ملک تعاون کریں تو ہزاروں زندگیاںبچائی جا سکتی ہیں۔ وہ ہرگز اجازت نہیں دیں گے کہ داعش کے خلاف جو کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں‘ان سے فائدہ ایران اٹھا جائے اور یہ کہ روس اور امریکہ کو اسرائیل کی سلامتی یقینی بنانے کیلئے مل کر کام کرنا چاہئے۔یہ ملاقات ایک ایسے وقت پر ہوئی جب امریکہ اور روس کے تعلقات اچھے نہیںہیں۔ شام‘ یوکرائن‘ افغانستان اور دوسرے معاملات پر خارجہ پالیسیوں میں گہرے اختلافات کے علاوہ بہت سے امریکی حلقے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ ماسکو نے 2016ء میں ہونے والے امریکی انتخابات میں مداخلت کی تھی اور اب 2018ء میں بھی اس حوالے سے خدشات موجود ہیں۔ ان سارے اختلافات کے باوجود‘ شام کے معاملے میں روس اور امریکہ کے کچھ اہم مشترکہ مفادات بھی ہیں۔ جیسے‘ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ یہ مسئلہ شدت اختیار کرے کیونکہ اس کے نتیجے میں ایک بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے‘ چاہے یہ دو بڑی ایٹمی طاقتوں کے درمیان ہو یا اسرائیل اور ایران کے مابین۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ہر حال میں ایسی کسی صورتحال سے بچا جائے اور اسے ایسا کرنا بھی چاہئے۔
شام میں جاری جنگ ممکنہ طور پر کئی جہتیں اختیار کر سکتی ہے۔ اگرچہ شام کے جنوبی حصے میں صدر بشار الاسد اور روس نے تباہ کن حملے جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن شمالی اور مشرقی حصے میں بالترتیب ترک اور امریکی فورسز کی موجودگی نے شام کے عوام کے لئے قدرے مستحکم اور محفوظ زون بنا دئیے ہیں۔ ان زمینی حقائق کی موجودگی میں روس‘ اسرائیل‘ اردن اور دوسری علاقائی ریاستوں کے مابین حالیہ مذاکرات نے ایسا موقع پیدا کر دیا ہے‘ جس کا فائدہ امریکہ کو اٹھانا چاہئے۔ ٹرمپ کو روس کے ساتھ سخت اور ٹھوس سفارت کاری کرنی چاہئے تاکہ شام میں جاری جھگڑے کو ختم کرنے کیلئے ایک نیا فریم ورک وضع کیا جا سکے۔ شامی حکومت کو مزید پُر تشدد واقعات کی اجازت دے کر نہیں بلکہ جن تین زونز پر امریکہ کو کنٹرول حاصل ہے‘ وہاں سے حالات کو مزید قابو میں لانے کی کوشش کرکے اور شام کے سیاسی مستقبل کے بارے میں بات چیت کا آغاز کرکے‘ تاکہ شام میں جاری جھگڑے کی شدت کو کم کیا جا سکے۔
اس مقصد کیلئے تین طرح کے اقدامات کرنا پڑیں گے۔ پہلا یہ کہ واشنگٹن کو اس تجویز کے بارے میں مزید تفصیلات حاصل کرنا چاہئیں ‘جو روس نے شام کے ایشو پر ہیلسنکی مذاکرات کے دوران پیش کی اور جسے روسی سفیر‘ اناتولے انتونوف نے ”مخصوص اور دلچسپ‘‘قرار دیا ہے ۔ صورتحال یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے اس ملاقات کے حوالے سے اپنی قومی سلامتی کی ٹیم کو بھی اندھیرے میں رکھا ہوا ہے۔ اس کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شرق اوسط میں امریکہ کے صف اول کے ملٹری کمانڈر‘ جنرل جوزف ووٹل نے کہا ہے کہ ٹرمپ ‘پوٹن ملاقات کو کئی روز گزر چکے ہیںلیکن صدر ٹرمپ نے اب تک اس معاملے میں آگاہ نہیں کیا۔ ٹرمپ کو کم ازکم اپنے اعلیٰ مشیروں کو تو بتا دینا چاہئے تھا کہ شام کے مسئلے پر صدر پوٹن سے کیا طے پایا ہے۔
دوسرا‘ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں موجود سیکرٹری پومپیو اور ان کی ٹیم کو شام کے حوالے سے معاملات طے کرانے کے سلسلے میں طاقتور کردار اپنانا چاہئے۔ اس کا مطلب بشارالاسد ‘ جن کی پوزیشن اس وقت خاصی مضبوط ہے‘ کو اس کے عہدے سے ہٹانا نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک محدود مقصد کے تحت شام کے شمال مشرقی علاقوں میں امریکی موجودگی کو زیادہ موثر بنانا ہے ‘ اور وہ محدود مقصد ہے شام میں جاری خون ریزی کو روکنا۔ اس عمل میں روس اور ترکی کو بھی شامل کیا جانا چاہئے اور اس عمل کا ارتکاز تین مقاصد پر ہونا چاہئے: شام میں جن زونز میں صورتحال بہتر ہے‘ ان کے اور دوسرے زونز کے درمیان بائونڈری کا مکمل تعین کرنا تاکہ کسی بڑے تصادم کے خطرات کو کم کیا جا سکے۔ سیاسی اور سکیورٹی سیکٹر میں اصلاحات کے لئے ظاہر کئے گئے عزائم پر قائم رہنااور بالآخر شام سے تمام غیر ملکی فورسز کا انخلا۔ اقوام متحدہ کو اس معاملے میں بات چیت کا سلسلہ شروع کرنے کی تلقین کرنی چاہئے۔حال ہی میں روس کی مدد سے شام کے جنوبی علاقے میں ایک شدید حملہ کیاگیا۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں ٹرمپ نے جنگ بندی کے معاہدے سے انکار کیا تھا‘ حالانکہ اس معاہدے کیلئے ان کی اپنی ٹیم نے بات چیت مکمل کی تھی۔ روس کے اس حملے سے واضح ہوا کہ پوٹن کی باتوں پر یقین کر لینا بے وقوفی ہے۔ اور ٹرمپ نے ایسا ہی کیا‘ یعنی یقین نہیں کیا۔ اس وقت ایک نئی سفارت کارانہ کوشش کی ضرورت ہے تاکہ داعش کے خلاف جاری جنگ کو منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے۔
تیسرا یہ کہ داعش سے خالی کرائے گئے علاقے ‘ جو اس وقت سیرین ڈیموکریٹک فورسز (کردوں کی سربراہی میں قائم ملیشیا کا اتحاد) کے کنٹرول میں ہیں‘ ایک طرح سے سیف زون ہی ہیں۔وہاں امریکہ کو ریلیف کا کام تیزی سے شروع کرنا چاہئے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکہ کیلئے ایسا کوئی زون بنانا مہنگا پڑے گا۔ اب جبکہ ایسا ایک زون بن چکا ہے تو امریکہ کو چاہئے کہ آگے بڑھے اور وہاں بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرے اور جنگ کی تباہ کاریوں کے اثرات کو کم کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرے۔
امریکہ کے روس کے بارے میں شکوک و شبہات درست ہیں۔ روس‘ امریکہ میں جمہوریت کو خراب کرتا رہا ہے۔ وہ شام کے حوالے سے کئے گئے معاہدوں سے روگردانی کا مرتکب بھی ہوتا رہاہے‘ جن میں 2012ء میں جنیوا میں کیا گیا معاہدہ اور 2016ء اور 2017ء میں سیز فائر کے معاہدے بھی شامل ہیں۔ اگر دونوں ملکوں کے مابین تعاون کو اس مرتبہ کامیاب بنانا ہے تو یہ ایسے معاملات پر ہونا چاہئے جن میں امریکہ اورروس کے اہداف ایک ہوں۔ چونکہ روس ‘ شام کی حکومت کے خلاف برسر پیکار اپوزیشن کو دہشت گرد قرار دیتا ہے‘ اس لئے یہ ناممکن ہے کہ دونوں ملک مل کر دہشت گردی کے خلاف اقدامات کریں۔ اس کے علاوہ ایران کے بارے میں بھی روس اور امریکہ کی سوچ میں تفاوت پایا جاتا ہے۔ امریکہ ‘ ایران کے خلاف ہے‘ جبکہ ایران‘ شام میں روس کا کلیدی اتحادی ہے۔ ان ساری باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ پوٹن نے ماہِ رواں کے دوران ہیلسنکی میں صدر ٹرمپ اور ماسکو میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے اپنی ملاقاتوں میں جو بھی کہا ہو‘ یہ طے ہے کہ روس کی خواہش کے مطابق اپنی پالیسی کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا؛ البتہ روس کی طرح امریکہ کی بھی خواہش ہے کہ شرق اوسط میں جنگی تباہ کاریوں کا سلسلہ دوبارہ شروع نہ ہو ۔ یہی وہ مشترکہ مقصد ہے جس کے لئے دونوں ممالک کو کام کرنا ہو گا‘‘۔