جنگِ ستمبر سے 1971ء کے بحران تک…رؤف طاہر
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی 6 ستمبر پر اخبارات نے خصوصی اشاعتوں کا اہتمام کیا۔ الیکٹرانک میڈیا پر سپیشل ٹاک شو ہوئے۔ جی ایچ کیو سمیت مختلف مقامات پر تقریبات کا اہتمام کیا گیا جن میں دفاعِ وطن کے لیے مسلح افواج کے جانبازوں کی ہمت وشجاعت، سیاسی قیادت کے اتحاد ویک جہتی اور قوم کے جذبوں اور ولولوں کا ذکر ہوا لیکن یہ سب کچھ اُس دور کے ”مغربی پاکستان‘‘ کے حوالے سے تھا۔
جناب الطاف حسن قریشی کی تازہ ترین کتاب ”جنگ ستمبر کی یادیں‘‘ میرے سامنے ہے۔ اس کا بیشتر حصہ الطاف صاحب کے ان مضامین اور چشم دید واقعات کی رپورٹ پر مبنی ہے، جو اُس دور میں ان کے ماہنامہ اردو ڈائجسٹ میں شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ اُن ملاقاتوں کی روداد بھی جو انہوں نے حال ہی میں ان متعدد ریٹائرڈ فوجی افسروں سے کیں‘ جنہوں نے جنگ ستمبر میں حصہ لیا یا ان کے بزرگوں نے عظیم الشان کارنامے سرانجام دیئے۔ پچاس صفحات پر محیط مضمون ”تصادم کے بنیادی محرکات‘‘بھی خاصے کی چیز ہے۔
اس کتاب کو مرتب کرتے ہوئے الطاف صاحب مشرقی پاکستان کو نہیں بھولے اور یہی چیز میرے اس کالم کا محرک بنی:۔
”یہ مشرقی پاکستان کی سرزمین ہے، چھ ستمبر ہے، دن کے دوبجے ہیں۔ لاہور پر بھارتی حملے کی خبر بڑے بڑے شہروں میں پہنچ چکی ہے۔ دیہات بھی یہ خبر سن چکے ہیں۔ لاکھوں انسان ریڈیو کی آواز پر کان لگائے کھڑے ہیں۔ عزم سے دمکتے چہرے ان کی دلی کیفیات کی غمازی کررہے ہیں۔ ”واہگہ سیکٹر میں دشمن کی پیش قدمی روک دی گئی ہے۔ سخت مقابلہ ہورہا ہے‘‘۔ اور پھر یہ الفاظ فضا میں ارتعاش پیدا کردیتے ہیں:”ان شاء اللہ فتح ہماری ہوگی‘‘۔
خبریں ختم ہوچکی ہیں، اللہ اکبر کے نعروں سے ماحول جاگ اٹھا ہے۔ طلبہ کی بے قراری دیکھی نہیں جاتی، وہ کسی نہ کسی طرح مغربی پاکستان پہنچ جانا چاہتے ہیں، تاکہ اپنے بھائیوں کے دست وبازو بن سکیں۔ وہ چینی قونصل خانے کی عمارت کے گرد جمع ہورہے ہیں۔ وہ ایک تڑپتی ہوئی آرزو لے کر آئے ہیں۔ چینی قونصلرباہر آتا ہے، طلبہ سراپا التجا بنے ہوئے ہیں:
”ہمیں کسی طرح مغربی پاکستان بھجوا دو، ہم بھارتی درندوں کی اس صفائی سے ناک کاٹ لیں گے کہ وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ ہمارے بھائی میدانِ جنگ میں مردانہ وار کود پڑے ہیں، ہم اُنہیں اپنے خون کا نذرانہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اُن کے شانہ بشانہ لڑیں گے‘‘۔ مسجدوں میں لاکھوں مسلمانوں کا اجتماع ہے۔ خدا سے فتح ونصرت کی دعائیں مانگی جارہی ہیں۔ لاتعداد جبینیں سجدہ ریز ہیں جن سے بندگی کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔ ہر قطرے میں دل ہے جو مغربی پاکستان کے مجاہدوں اور شہیدوں کے لیے ہر لحظہ دھڑک رہا ہے۔ اس دھڑکتے دل کا خدا سے براہِ راست تعلق قائم ہے۔ مشرقی پاکستان کے ہوا باز، بھارت پر کاری ضرب لگانے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ فوج میں بے پناہ جوش وخروش پایا جاتا ہے۔ عوام ان کے قدموں پر محبت کے پھول نچھاور کررہے ہیں۔ میجر جنرل فضل مقیم خان مشرقی کمان کے سربراہ تھے۔ ان کی زبانی مشرقی پاکستان کے محاذ کی روداد دلچسپ بھی ہے، چشم کشا اور سبق آموز بھی:۔
”مشرقی پاکستان کے لہلہاتے کھیت خواب سے بیدار ہو چلے تھے کہ بھارتی طیارے چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں ڈھاکہ، چٹاگانگ ، رنگ پور اور جیسور پہنچے۔ کہیں انہوں نے بم پھینکے ، کہیں صرف مشین گنوں سے گولیاں برسانے پر اکتفا کیا اور کہیں بم اور گولیوں دونوں سے کام لیا۔ چند گھنٹے بعد ہماری ننھی منی فضائیہ کے ہوا باز، بھارتی فضائیہ کے اہم اڈے کلائی کنڈا پر پرواز کر رہے تھے۔ خوبیِ قسمت سے وہاں رَن وے پر بمباروں کی قطاریں لگی تھیں۔ ٹارگٹ اتنا پُرکشش تھا کہ بہادر سکواڈرن لیڈر نے پے در پے دوحملے کیے۔ اس قسم کے حملے بالعموم بہت خطرناک سمجھے جاتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایئر فیلڈ پر تباہی مچ گئی اور ہمارے طیارے بخیر و عافیت واپس اپنے مستقر پہنچ گئے۔ جنگ مشرقی پاکستان میں بھی شروع ہو چکی تھی۔
جنگ چھڑنے سے پورے خطے میں بجلی کوند گئی جس کی ایک ہی کڑک نے مردہ دلوں کو بھی زندہ کردیا۔ چند گھنٹوں کے اندر اندر ہر شعبے میں تبدیلی آ گئی۔ سُستی رہی نہ وہ غفلت شعاری۔ سابق فوجیوں اور افسروں نے چھائونیوں میں پہنچنا شروع کردیا۔ جوان جوق در جوق فوجی بھرتی کے دفاتر میں حاضر ہونے لگے۔ فوجی ہیڈ کوارٹر میں خطوط کا انبار لگ گیا جن میں ہر شعبے اور ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لوگوں نے اپنی خدمات پیش کیں۔ عوام کا جوش تھا کہ ایک طوفان کی طرح اٹھا اور چاروں طرف پھیل گیا۔ اب صرف ایک ہی لگن تھی، عیار دشمن کے دانت کیسے کھٹے کیے جائیں۔ جوش اور ولولے کا یہ عالم تھا کہ مشرق ومغرب کے سیاسی اختلافات بھی پسِ پشت ڈال دیے گئے۔ حزبِ اختلاف کے تمام ممتاز افراد ملکی دفاع کے لیے حزبِ اقتدار کے ساتھ ایک ہی صف میں آکھڑے ہوئے۔
لاہور ریڈیو کی آواز دن کے وقت تو سنائی نہ دیتی، رات کے وقت لوگ اس کی نشریات بڑے ذوق وشوق سے سنتے۔ پنجابی اور اردو کے حربی وقومی نغمے بے حد پسند کیے جاتے۔ ”جنگ کھیڈنئیں ہوندی زنانیاں دی‘‘۔ ”میرے نغمے تمہارے لیے ہیں‘‘۔ ”کرنیل نی جرنیل نی‘‘ وغیرہ نغموں کو مشرقی پاکستانیوں نے اپنے مغربی پاکستانی بھائیوں سے کچھ کم نہ سراہا۔ بنگال رجمنٹ پہلی مرتبہ جنگ میں حصہ لے رہی تھی۔ اُس کی ایک پلٹن مغربی پاکستان میں کھیم کرن کے محاذ پر نبرد آزما تھی۔ بنگالیوں کی نظریں اُن کی طرف لگی ہوئی تھیں۔ جونہی اُن کی کارکردگی کی خبریں پہنچیں، پورے مشرقی بازو کا سینہ فخر سے تن گیا اور سر اُونچا ہو گیا۔ شورش کاشمیری کی نظم ”مشرقی بنگال کے آتش بجانوں کو سلام‘‘ شائع ہوئی، تو یہاں کے لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ فوراً بنگلہ میں ترجمہ ہوا جو گھر گھر تقسیم کیا گیا۔
جہاں تک مجھے یاد ہے، Crush India(بھارت کو کچل دو)کا نعرہ مشرقی پاکستانیوں کا مرہونِ منت تھا۔ انہوں نے اس نعرے کے بلِّے لگائے۔ اِس سے مزین پھریرے لہرائے۔ عورتوں‘ مردوں، جوانوں اور بوڑھوں کے جلوس گلی کوچوں میں دن رات چکر لگاتے۔ یہ حال ڈھاکہ اور دوسرے بڑے شہروں ہی کا نہیں تھا، بلکہ پورے صوبے میں یہی کیفیت تھی‘‘۔
مشرقی پاکستان میں یہ ستمبر1965ء کے قومی جذبوں کی داستان تھی۔ کوئی آٹھ، نو ماہ قبل بھی جذبوں کا ایک اور بے پناہ طوفان تھا، ولولوں کا سیلِ بے کراں، جوسنہرے ریشے کی اس سرزمین پر برپا ہوا تھا۔ ڈکٹیٹر ایوب خاں کے خلاف صدارتی انتخاب میں جمہوریت کی آوازبن کر ، مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے بنگال کی سرزمین پر قدم رکھا تو ”بھوکے ننگے‘‘ بنگالیوں نے دیدہ و دل فرشِ راہ کردیئے۔ دو، دوگھنٹے کا سفر بارہ، بارہ گھنٹے میں طے ہوا۔ بنگالی نوجوانوں کا محبوب لیڈر شیخ مجیب الرحمن اس سارے سفر میں ”ماں‘‘ کے ساتھ رہا۔ وہ مشرقی پاکستان میں ان کا چیف پولنگ ایجنٹ بھی تھا۔ دھونس، دھاندلی اور حکومتی جبر و تشدد کے تمام تر حربوں اور ہتھکنڈوں کے باوجود ڈھاکہ میں مادرِ ملت کو شکست نہ دی جا سکی۔
اہلِ بنگال کے جذبے اور ولولے اپنی جگہ، لیکن طاقت کے اصل مرکز مغربی پاکستان سے ایک ہزار میل کی دوری نے ان میں دفاعی لحاظ سے عدم تحفظ کے احساس کو بھی جنم دیا۔ مجیب کے 6 نکات اسی احساس کا نتیجہ تھے۔ 1970ء کی انتخابی مہم میں وہ یہ بات بہ اصرار کہتا کہ 6 نکات کے نتیجے میں مضبوط ”صوبے‘‘، پاکستان کی مضبوطی کا باعث ہوں گے۔ اِدھر مغربی پاکستان میں، مشرقی پاکستان کے مینڈیٹ کے خلاف سازشوں کا آغاز ہو چکا تھا… انتخابات کے تین ماہ بعد ڈھاکہ میں آئین ساز اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا۔ ڈھاکہ کے کوچہ وبازار مغربی پاکستان سے آنے والے بھائیوں کے لیے خیر مقدمی بینروں سے مزین تھے۔ اِدھر ڈھاکہ جانے والوں کی ٹانگیں توڑنے کا اعلان تھا… اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ اب معاملات انتہا پسندوں کے ہاتھ میں چلے گئے تھے۔ 25 مارچ کے آپریشن اور اپنی گرفتاری تک، مجیب کی آخری تقریر بھی جئے بنگلہ، جئے پاکستان کے نعرے پر ختم ہوئی تھی۔کیا ہمارے ارباب اقتدار و اختیار اور اصحابِ علم ودانش اس سوال پر غور فرمائیں گے کہ 1965ء کے صرف چھ، سات سال بعد سنہرے ریشے کی یہ سرزمین پاکستان سے بیگانہ کیوں ہوگئی؟ مسجدوں کے شہر ڈھاکہ میں ہمیں اس ذلت و رسوائی کا سامنا کیوں کرنا پڑا، جسے کہنے والوں نے سپین کے سقوط کے بعد تاریخِ اسلام کا سب سے بڑا المیہ کہا۔