جن دنوں نے ہم کو چھوڑد یا…( آخری قسط)….نذیر ناجی
1971ء کے سانحے میں مسلمانوں کے لئے بدترین کردار‘ عوامی لیگ نے ادا کیا۔ علیحدگی کے نعرے لگانے والے مشرقی پاکستان کے پرُ امن شہریوں کو ‘بغیر کسی جواز کے خونخوار انسانوں میں بدلا جاتا رہا۔ مشرقی پاکستان کے بے بس انسانوں کو‘ آزادی سے خون بہانے اور بے جان لاشوں کو دفنانے کی نہ مہلت تھی اور نہ ہی گنجائش‘ کیونکہ مکتی باہنی کے سر پھرے اور درندہ صفت انسان‘ بے گناہ مردوں‘عورتوں‘ اور بچو ں کو،جو اپنا گھر ‘ اپنا محلہ اور اپنا چھوٹا سا کاروبار لے کر صرف یہ چاہتے تھے کہ کسی طرح بنگلہ دیش میں داخل ہو کر پناہ حاصل کریں‘ مگر اس کی دوردور تک گنجائش نہیں تھی۔ جن کو مکتی باہنی کے کارندے قرار دیا جا رہا تھا‘ درحقیقت وہ بنگالی فوجیوں کا خونخوار دستہ ہوتا‘ جوکسی بھی شہر میں داخل ہو کر بستی والوں کی فرار کی راہیں مسدود کر دیتا۔ اور جس گائوں یا قصبے پر قبضہ کیا جاتا‘ وہاں ایسے بزدلوں کو مکتی باہنی میں داخل کر دیا جاتا‘ جس کی انہیں آسانی سے انسانی معاونت مل جاتی۔ ایسے درندے‘ جو تربیت یافتہ مکتی باہنی کے کارندے بن چکے تھے‘ نئی مسلح فورس‘ خونخوار بنگالیوں اور بھارت نوازفوجیوں کے ساتھ مل کر بھوک اور پیاس سے تڑپتے انسانوں کا خون بہاتے۔ ہر آپریشن میں مکتی باہنی کے وحشی درندوں کو یہ اختیار دے دیا جاتا کہ ہتھیاراٹھانے والوں کو جبراً سرینڈر کرنے پر مجبور کر دیا جائے۔ ایسے لوگوں کو ایک گروہ میں چن کر ہاتھ پائوں باندھ دئیے جاتے اور زندگی کے لئے محض گھاس اور پتے کھانے کو ملتے۔
مغربی پاکستان کے فوجی دستے‘ جو کسی بھی مقام پر کسی بھی طرح کی بالادستی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے تووہ سکھوں اور ہندووں کو قتل کر دیتے۔ دوسری طرف مکتی باہنی کے گھیرے میں آنے والے مسلمانوں کی تعداد دوچارسوکے درمیان ہوا کرتی اور سارے مظلوموں کو طرح طرح سے قتل کر کے وحشی درندے لطف اندوز ہوا کرتے۔فساد بڑا وحشیانہ کھیل ہے۔ مکتی باہنی کے درندے‘ نہتے لوگوں‘ مظلوم عورتوں اور معصوم بچوں کو ختم کر کے فارغ ہوتے‘ تو نیم جاں بے کسوں‘ مزاحمت کرنے والے زخمیوں اور جان بچانے کی جدوجہد میں مصروف انسانوں کو انتہائی تضحیک آمیز طریقوں سے اپنی مرضی کے مطابق‘ اچھی طرح بدلے لے مارتے اور اس دوران اگر کچھ زخمی مرد اورتکلیف دہ حالات میں ‘جانیں دینے والی خواتین مل جاتیںتو انہیں موقع پر ظلم و ستم کے تجربات کر کے ‘جب تک ایک ایک کر کے اپنی دانست میں ختم نہ کر لیتے ‘وہ اگلے کسی مقتل کی طرف روانہ نہ ہوتے۔
ان دنوںموجود ہ پاکستان میں کبھی کبھی اور کہیں کہیں خونخواری کے واقعات ہو جاتے ‘تو گردونواح تک ”آدم بو آدم بو ‘‘للکارتے ہوئے‘ خالی کھیتوں اور خالی گھروں میں ‘اپنی وحشت اور درندگی کے جذبات کی تسکین کرتے اور لاشوں کے لباس میں سے زندگی کے کام آنے والی کوئی چیز چھپا کر‘ خون کے پیاسے درندوں کوجو کچھ ان کے کام کا نظر آتا‘ اسے دیکھتے ہی دیکھتے ملیا میٹ کر لیتے۔ کسی زندہ انسان کا سر ملتا‘ تو اس کی کھوپڑی توڑ دی جاتی۔ کسی عورت کے پیٹ میں بچہ ہوتا ‘تو یہ تلواروں اور خنجروں سے اس کی تکہ بوٹیاں کر دیتے۔ میں اس وقت ظاہر ہے ‘بچہ تھا۔ابا جی ان دنوں سارے بیٹے بیٹیوں اور ہماری ماں کو لے کر چھت پر چڑھ جاتے۔ کڑکتی دھوپ اور تپتے مناظر میں ہر چیز زندگی کی دشمن تھی‘ مگر حملہ آور شہدے کسی قیمت پر بھی شکار کی طرح شکنجے میں آئے ہوئے بے بس مردوں‘ عورتوں اور بچوں کو گرفت میں لا کر‘ جس میں زیادہ تڑپنے کی ہمت ہوتی‘اسے خو ب اچھی طرح تڑپا تڑپا کے مسلمان دشمن نعرے بلند کرتے۔ہمارا گھرانہ فیروز پور چھائونی سے چلنے والی پسینجر ٹرین پر آیا ‘تو ہمیں جتنی گنجائش ملتی‘ ریل کے ڈبوں میں اپنی اپنی توفیق کے مطابق گھس جاتے۔ تلوار‘ کلہاڑے اوربندوق کے سامنے‘ مسلمان بھی ہاتھ جوڑ جوڑ کر اپنی جانیں بچاتے۔
آج بھی اپنے ملک میں جب اور جہاں کوئی بدامنی اور فتنہ و فساد سنائی اور دکھائی دیتا ہے تو ہم لپک کر تماشا دیکھنے پہنچ جاتے ہیں‘لیکن دونوں ملکوں کے قاتل اور درندے‘ اپنے اپنے قبضے میں آئے ہوئے بے گناہوں اور نہتوں کا شکار کھیلتے آرہے ہیں‘ اوریہی کام آج بھی جاری ہے۔بھارت کی چند بے بس اور نہتی عورتیں ‘ان درندوں سے بچ کر سرحد پار چھوڑ آئیں۔ کیا دنیا میں اور بھی درندوں کے روپ میں ایسے لوگ مل جاتے ہیں؟ میں1947ء کے فسادات سے باہر نہیں نکل پایا۔ میرے وطن میں آج بھی وہی کچھ ہوتا ہے۔ لوٹ مار اور انسانی بے بسی کے مناظر آنکھوں کے سامنے آتے رہتے ہیں۔ ہم اپنے وطن کے شہریوں اور خواتین کو‘ ان کی بے بسی اور بد قسمتی کے نظارے دکھلاتے رہتے ہیں ۔اور یہی کچھ دونوں طرف کے شہریوں کو دکھائی دیتا رہتا ہے۔کیا ہمیں درندگی اور بربریت سے کبھی نجات ملے گی؟ یا ہم ہر آبادی اور کھیت میں غریبی کے ہاتھوں دھتکارے ہوئے مقتولوں کا خون دیکھتے رہیں گے اور سرحد کے دوسری طرف‘ درندہ صفت فسادی وہی کچھ کرتے ہیں گے‘ جو 47ء کے فسادات میں کیا گیا۔
عالمی جلاد خونریزی کے تماشے خاموشی کی کیفیت اور بے بسی کی حالت میں چھپ کر کھڑے دیکھتے رہتے ہیں۔ سرحد کے دوسری طرف عورتوں اور بچوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک ہوتا ہے۔فرق صرف یہ پڑا ہے‘ وہاں کے ہندو درندے‘ مسلمانوں کے خون سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور یہاں کے جنونی اپنے ہم وطن مسلمانوں کا حسب ِاستطاعت حساب لیتے رہتے ہیں۔ (ختم شد)