جو اماں ملی تو کہاں ملی؟….خورشید ندیم
ایک مزار کی دہلیز پر عمران خان کا بوسہ آج کل زیرِ بحث ہے۔ میرے خیال میں یہ فقہ کا نہیں، نفسیات کا موضوع ہے اور ایک درجے میں سیاست کا۔
فقیہہ اور صوفی میں ایک جوہری فرق ہے۔ عالم یا فقیہہ بالعموم ایک معاملے کو قانون کی نظر سے دیکھتا اور فتویٰ کی زبان میں گفتگو کرتا ہے۔ اعمال اس کی نظر میں فرض، سنت، مستحب، حرام، مکروہ، کسی ایک قانونی دائرے میں قید ہوتے ہیں۔ وہ پہلے دائرے کا تعین کرتا اور پھر ان پر حکم لگاتا ہے۔ سماجی پس منظر یا نفسیاتی کیفیت اس کے ہاں اہمیت نہیں رکھتے۔ اگر رکھتے بھی ہیں تو ثانوی درجے میں۔
صوفی انسان کو نفسیاتی وجود سمجھتے ہوئے، اس سے معاملہ کرتا ہے۔ وہ اصلاً ایک نفسیاتی معالج ہے۔ اس کے نزدیک ہر فعل کسی نفسیاتی کیفیت کا مظہر ہوتا ہے۔ وہ ظاہر سے زیادہ اس نفسیاتی کیفیت کو سامنے رکھتا ہے جس کے تحت فعل صادر ہوتا ہے۔ اگر فعل کسی قانون کی گرفت میں آتاہو تو بھی اسے سزا دینے کی جلدی نہیں ہوتی۔ وہ پہلے مرض کے علاج کی فکر کرتا ہے۔
صوفی فرد سے ایک ہمدردانہ اور شخصی تعلق قائم کرتا ہے۔ عالم کا تعلق شخصی نہیں، قانونی ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ عالم سماجی سطح پر کبھی مقبول کردار نہیں رہا۔ اس کے بر خلاف صوفی ہر دل عزیز ہوتا ہے۔ مذہبی وابستگی سے ماورا، لوگ اس سے محبت کرتے ہیں۔ وہ فرد کو اس کے مذہب اور اعمال سے بے نیاز ہو کر اپنے قریب کرتا، اس کی دل جوئی کرتا اور پھر اس کے دل میں اتر جاتا ہے۔ عالم کبھی ایسا نہیں کرتا۔ شاعری میں عالم معتوب ہے اور صوفی محبوب۔ ہماری صوفیانہ شاعری اگرچہ فنی اعتبار سے بھی کمال کے درجے پر ہے‘ لیکن اِس کی مقبولیت کا اصل سبب محبت کا پیغام ہے۔ وہ عقیدے کی بحثوں کو فقہی انداز میں نہیں اٹھاتا۔ وہ عقائد کی بھی ایسی تاویل کرتا ہے جو لوگوں کو دماغ کی دنیا سے نکال کر دل کی دنیا میں لے جاتی ہے۔ دل کی گرفت سے نکلنا پھر کسی کسی کے بس میں ہوتا ہے۔
شعرا کو اسی لیے تصوف مرغوب ہوتا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ صوفیا میں اکثر شعرا ہو گزرے ہیں۔ علما میں جو لوگ شعری ذوق رکھتے تھے، وہ جیسے جیسے علم کی دنیا میں آگے بڑھے، ویسے ویسے شعر کی دنیا سے دور ہوتے گئے۔ مولانا مودودی اس کی ایک مثال ہیں۔ ابتدا میں غزل کہتے تھے۔ آج ان کا شاعرانہ ورثہ وہی چند غزلیں ہیں جو عہدِ جوانی کی یادگار ہیں۔ علامہ اقبال میں عالم اور صوفی کے رجحانات طویل عرصہ ہم سفر رہے۔ پھر صوفی جیت گیا۔ انہوں نے زندگی کے آخری دن تصوف کی آغوش میں گزارے۔
علم عقل کے مطالبات کو مخاطب بناتا ہے اور تصوف دل کے۔ انسان چونکہ دماغ اور دل، دونوں کا مجموعہ ہے، اس لیے دونوں اسے اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے ان دونوں روایات کو جمع کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ یہ پس منظر سامنے ہو تو عمران خان کا معاملہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ عمران خان برسوں سے شدید نفسیاتی بحران میں مبتلا ہیں۔ ان کا داخلی انتشار انہیں چین نہیں لینے دیتا۔ کبھی ایک پڑاؤ کبھی دوسرا۔ انہیں کہیں مکمل اطمینان نصیب نہیں ہوا۔ ان کا یہ داخلی خلفشار کیا ہے؟
انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ نیکی اور بدی کا شعور رکھنے کے با وصف نفس کے مطالبات کی طرف لپکتا ہے۔ اس چاہ میں وہ بارہا اخلاق اور قانون کے دائرے سے نکلتا ہے۔ تاہم عالم کے پروردگار نے اس کے اندر جو شعور ودیعت کیا ہے، وہ غلطی پر اسے ملامت کرتا ہے۔ یوں اس کے داخل میں ایک نفسیاتی کشمکش جنم لیتی ہے۔ وہ نفس کے مطالبات سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتا‘ لیکن اس سمت میں پیش قدمی پر ندامت کا احساس بھی، اس کا ہم سفر ہوتا ہے۔ وہ اس کیفیت سے نکلنا چاہتا ہے۔ اس حال میں صرف صوفی اس کا ہاتھ تھام سکتا ہے۔ ایک عالم کے پاس اسے دینے کو کچھ نہیں ہوتا۔ اس کیفیت میں ممکن ہے برسوں گزر جائیں۔ صوفی کا ظرف اتنا بڑا ہوتا ہے کہ وہ سالوں ہم سفری کر سکتا ہے۔ عالم میں صبر وافر نہیں ہوتا۔
اس سفر میں، تاہم کئی نازک مقامات آتے ہیں۔ صوفی اگر اناڑی ہو تو وہ مرید کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہے جو ایک عطائی مریض سے کرتا ہے۔ امکانِ غالب ہوتا ہے کہ اس راہ میں انسان نفسیاتی صحت اور ایمان، دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہی نزاکت ہے جس کے پیشِ نظر علما اس راستے کے مسافروں کو متنبہ کرتے اور انہیں اس سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں‘ مبادا انسان ایمان ہی سے محروم ہو جائے۔
اب عمران خان کے ساتھ کیا ہوا؟ وہ میاں بشیر سے پاک پتن کی دہلیز تک کیسے پہنچا؟
کرکٹ کے دور میں اُس نے جیسی زندگی گزاری، وہ ایک کھلی ہوئی کتاب ہے۔ وہ خود اُس کا معترف ہے اور بظاہر نادم بھی۔ جب وہ عالمِ شباب میں تھا اور زندگی کی ان سب رونقوں سے مستفید ہو رہا تھا جس کا کوئی دنیا دار خواب دیکھ سکتا ہے، اس وقت بھی اس کے شعور میں پیوست نیکی اور بدی کا احساس، اسے بے چین کرتا تھا۔ یہ احساس ایک تو فطرت کی دَین ہے اور دوسرا اس مسلمان گھرانے کی جس میں اس نے جنم لیا۔
جوانی جذبات کے غلبے کا دور ہوتا ہے۔ اگر مسلسل نگرانی نہ ہو اور مواقع کی فراوانی بھی ہو تو یہ اللہ کی طرف سے کوئی برہان ہی ہو سکتی ہے جو انسان کو پیش قدمی سے روک دے، جیسے سیدنا یوسفؑ کے معاملے میں ہوا۔ بصورتِ دیگر اس سے بچ کے نکل جانا ہما شما کے بس کی چیز نہیں۔ اس دوران میں بھی، جب عمران سر تا پا نفس کے مطالبات کی گرفت میں تھا، اسے کسی ایسے ہمدرد کی ضرورت محسوس ہوتی تھی جو اسے داخلی اضطراب سے نکال سکے۔ اس کی انگلی پکڑے اور اسے کسی پُرسکون وادی میں لے جائے۔
عمران خان کی خود نوشت سوانح عمری سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں، دو شخصیات نے اسے متاثر کیا۔ ایک میاں بشیر جو روحانی شخصیت تھے۔ بعض محیرالعقول واقعات نے، میاں صاحب کے انتقال تک، عمران کو ان سے وابستہ رکھا۔ یہ واقعات عمران خان نے اپنی آپ بیتی میں لکھے ہیں۔ دوسری شخصیت گے ایٹن کی ہے۔ یہ مکتبِ روایت کے نمائندہ سکالر تھے۔ اس مکتبِ فکر نے تصوف کا دفاع کیا اور عصری عقلیت پسندی پر اسی کے علمِ کلام کی زبان میں نقد کیا ہے۔ رینے گینوں، شوان اور حسین نصر جیسے لوگ اس مکتب کے نمائندے ہیں۔ عمران خان جیسے آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ شخص کی ایک ضرورت یہ بھی ہوتی ہے کہ روحانی تجربات عقل سے ہم آہنگ ہوں۔ کوئی ایسا علمِ کلام ہو جو دونوں میں تطبیق پیدا کر دے۔ گے ایٹن کی کتابیں اس راہ میں اس کی مددگار ثابت ہوئیں۔
عمران خان کی والدہ کا انتقال ہوا تو اس کا یہ نفسیاتی بحران بڑھ گیا۔ پھر اس نے خدمتِ خلق میں اپنا اطمینان تلاش کرنا چاہا۔ قرائن بتاتے ہیں کہ نفسانی مطالبات کی دنیا اب بھی اس کے لیے ماضی کی طرح ہی پُر کشش تھی۔ اس سے کنارہ کش ہونا اس کے بس میں نہیں تھا۔ اب بھی اس کی کوشش یہی تھی کہ سابقہ مشاغل کے ساتھ، اسے اطمینانِ قلب بھی نصیب ہو جائے۔ انسانی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا۔ عمران کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔
خدمتِ خلق یا رفاہِ عامہ کے اس سفر میں اسے بتایا گیا کہ اگر اقتدار ہاتھ آ جائے تو انسانی کوشش کے نتائج کئی گنا بڑھ جائیں گے۔ جب ریاست کے وسائل آپ کے ہاتھ میں ہوں تو پھر پورا ملک ایک رفاہی معاشرے میں ڈھل سکتا ہے۔ اس خیال کی آبیاری کرنے والے بہت تھے۔ اکثر نیک نیت اور اچھا سماجی پس منظر رکھنے والے۔ وہ اس کا قائل ہو گیا۔ اس کے بعد اس کا اگلا قدم سیاست میں تھا۔ یہاں سے میرا تاثر ہے کہ یہ نفسیاتی سفر ایک نیا موڑ لیتا ہے۔ اس سفر میں پاک پتن کی دہلیز کیسے آئی؟ پاک پتن کے راستے میں گوجر خان بھی آتا ہے جہاں پروفیسر رفیق اختر ہوتے ہیں۔ عمران یہاں ٹھہرا مگر پڑاؤ نہیں کیا۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ ان سوالات کا جواب انشااللہ اگلے کالم میں۔