منتخب کردہ کالم

’’جو نہیں جانتے وفا کیا ہے‘‘ (جمہور نامہ) رئوف طاہر

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی کہ حسین حقانی کی اتنی اہمیت نہیں کہ اسے ایوان میں زیر بحث لایا جائے۔ واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے تازہ آرٹیکل کو انہوں نے پاکستان سے غداری اور امریکیوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش قرار دیا جس میں امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر نے کہا تھا کہ اس نے سویلین قیادت(صدر زرداری اور وزیر اعظم گیلانی) کی اجازت سے اسامہ بن لادن کی تلاش کے لیے سی آئی اے کے اہل کار پاکستان بھجوائے تھے۔
حسین حقانی ایک بار پھر خبروں میں ہیں‘ تو کیا کیا یاد آ رہا ہے۔ ہم نے ”نظریاتی شعور‘‘ کی آنکھ ایک ہی طلبہ تنظیم کی گود میں کھولی۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ مخاطب کو اپنی گفتگو سے متاثر کر دینے کی صلاحیت ان میں اس وقت بھی بہت تھی۔
تب پاکستان کے تعلیمی اداروں‘ خصوصاً بڑے شہروں کے تعلیمی اداروں میں ”سیدی مرشدی‘ مودودی‘ مودودی‘‘ کے نعرے گونجتے تھے۔ حقانی انہی نعروں کے ساتھ کراچی یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر منتخب ہو گئے۔ طلبہ کی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے بنکاک گئے اور فار ایسٹرن اکنامک ریویو کے نمائندہ برائے پاکستان بن کر لوٹے۔ جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء نصف النہارپر تھا۔ مردم شناس جنرل نے حقانی سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور انہیں اپنے سیکرٹری اطلاعات جنرل مجیب الرحمن کی تحویل میں دے دیا۔ سپردم بہ تومایۂ خویش را۔
17اگست (1988) کے سانحۂ بہاولپور کے ساتھ پاکستان کی تاریخ ایک نیا موڑ مڑ گئی۔ جونیجو حکومت (اور اسمبلی) کی برطرفی کے بعد عام انتخابات کے لیے 16نومبر کی تاریخ کا اعلان خود جنرل ضیاء الحق کر گئے تھے، جماعتی بنیادوں پر ان کے انعقاد کا حکم سپریم کورٹ نے بیگم نصرت بھٹو کی پٹیشن پر جاری کر دیا۔1977ء سے 1988ء تک پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا تھا لیکن پیپلز پارٹی اب بھی ایک بڑی قوت کی حیثیت سے موجود تھی۔ اس کا راستہ روکنا(یا اسے کٹ ٹو سائز کرنا ) بھٹو مخالف سیاسی و مذہبی عناصر اور اسٹیبلشمنٹ کے خیال میں‘ پاکستان کے استحکام اور جمہوری نظام کی بقا و فروغ کے لیے لازم تھا جس کے لیے اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کا قیام عمل میں آیا اور ابلاغ کے محاذ پر اس کے شہ دماغوں میں حسین حقانی بھی تھے۔ انتخابی مہم میں پیپلزپارٹی کی قیادت(محترمہ نصرت بھٹو اور بے نظیر ) کے خلاف پراپیگنڈے کے بعض پہلو متانت اور شرافت کے معیار سے فروتر تھے‘ جس پر خود آئی جے آئی کے سنجیدہ عناصر ناپسندیدگی کا اظہار کئے بغیر نہ رہتے۔ واقفانِ حال انہیں حقانی کے ذہنِ رسا کا شاہکار قرار دیتے اور خود موصوف کو بھی انہیں”اون‘‘ کرنے میں تامٔل نہ ہوتا۔انتخابات کے نتیجے میں وفاق میں بے نظیر اور پنجاب میں نواز شریف برسر اقتدار آئے تو حقانی کی خدمات وزیر اعلیٰ پنجاب کے سپرد کر دی گئیں۔ بے نظیر کی وفاقی حکومت کو ابلاغ کے محاذ پر زچ کرنے میں حقانی ایک بار پھر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے تھے۔
بے نظیر صرف اٹھارہ ماہ نکال پائیں۔ صدر غلام اسحاق خاں‘ آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل کو ان کے ”سکیورٹی رسک‘‘ ہونے کا یقین‘ بلکہ حق الیقین تھا۔ جناب غلام مصطفی جتوئی نگران وزیر اعظم بنے تو ‘ اب تک نواز شریف کی رفاقت کا دم بھرنے والے بعض اور اصحابِ دانش کی طرح حقانی بھی اندازے کی غلطی کر بیٹھے۔ ان کے خیال میں انتخابات کے بعد بھی اقتدار کا ہُما جتوئی صاحب ہی کے سر پر بیٹھنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے اپنی رائے پر اصرار کرنے والے نواز شریف کی بجائے نرم خو اور مصلحت پسند جتوئی بہتر چوائس تھے۔ حقانی ان کے لیے لابی بھی کر رہے تھے لیکن عوام کا مینڈیٹ نواز شریف کے لیے تھا‘جو آخر کار‘ ایوان صدر اور اسٹیبلشمنٹ کی خواہشات و ترجیحات پر غالب آیا اور نوازشریف نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا لیا۔ بعض مشترکہ دوستوں کی کاوش سے حقانی کے لیے معافی تلافی ہو گئی اور کچھ عرصہ ایکسٹرنل پبلسٹی کی ذمہ داریوں کے بعد حقانی کو ہائی کمشنر بنا کر سری لنکا بھجوا دیا گیا۔ شاید اس طرح انہیں طاقت کے سرچشموں سے دور رکھنا بھی مقصود تھا۔
1993ء کی پہلی سہ ماہی میں ایوان صدر اور پرائم منسٹر ہائوس میں کشمکش آخری مرحلے میں داخل ہوئی تو حقانی کی ”وفاداری‘‘ ایوانِ صدر کے ساتھ تھی۔ وزیر اعظم کے خلاف سازشی استعفوں کا سلسلہ شروع ہوا تو حقانی بھی کولمبو سے اسلام آباد پہنچے اور وزیر اعظم کے خلاف احتجاجاً مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔یہ بحران وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ بابائے اسٹیبلشمنٹ غلام اسحاق کو بھی لے گیا لیکن اصل”لوزر‘‘ غلام اسحاق خاں تھا کہ نواز شریف تو اپنی سیاسی طاقت کے باعث پہلے سے بھی زیادہ سیاسی قدوقامت کے ساتھ میدان میں موجود تھا اور اسٹیبلشمنٹ کا گاڈ فادر زندہ درگور ہو گیا تھا۔
بے نظیر ایک بار پھر اقتدار میں تھیں۔ وہ حقانی کی صلاحیتوں سے مرعوبیت کی حد تک متاثر تھیں۔ اپنی گزشتہ ناکامی کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ آہ بھر کر کہتیں”ہمارے پاس کوئی حقانی نہیں تھا‘‘ اور اب دوسرے دور اقتدار میں حقانی کی خدمات انہیں دستیاب تھیں۔ ؎
کوئی مشتری ہو تو آواز دے لے
میں کم بخت جنسِ ہنر بیچتا ہوں
وہ پہلی بار بے نظیر کے ساتھ لاہور کے گورنر ہائوس آئے تو رائٹسٹ اخبار نویسوں سے زیادہ لیفٹسٹوں کا نشانہ بنے لیکن ان کا استدلال تھا ”میں تو ایک پروفیشنل ہوں‘ کوئی بھی میرے ہنر سے استفادہ کر سکتا ہے‘‘۔ وہ بے نظیر کے دوسرے دور میں سیکرٹری اطلاعات اور چیئرمین ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے منصب پر فائز رہے۔ اس دور میں انہوں نے بے نظیر صاحبہ کی پولیٹیکل سیکرٹری اور ان کی ہمراز و دم ساز ناہید خاں کی ہمشیرہ کو اپنی دوسری رفیقۂ حیات بھی بنا لیا۔
نواز شریف کے دوسرے دور میں‘ حقانی کچھ عرصہ زیر حراست رہے‘ جسے مشرف دور میں کیش کرانے کی کوشش ناکام رہی تو موصوف امریکہ جا بسے۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی ایک بار پھر برسرِ اقتدار آئی ‘ تو حقانی امریکہ میں پاکستان کے سفیر ہو گئے۔ کہنے والے انہیں امریکہ میں‘ امریکہ کا سفیر بھی کہتے کہ عموماً ان کے کوٹ پر پاکستان اور امریکہ‘ دونوں کے پرچم ہوتے۔ (ان کی تیسری بیگم‘ فرح اصفہانی قومی اسمبلی کی خاتون رکن منتخب ہو گئی تھیں)۔ 2011ء کی آخری سہ ماہی تھی جب میمو گیٹ سکینڈل منظر عام پر آیا۔ یہ منصور اعجاز کے ساتھ حقانی کی ای میلنگ تھی‘ جس میں وہ پاک فوج کے خلاف‘ حکومتِ پاکستان کے لیے امریکی تائید و حمایت کے خواہاں تھے۔ عوامی سطح پر میمو گیٹ کا انکشاف عمران خاں نے 30اکتوبر 2011ء کے مینارِ پاکستان کے جلسۂ عام میں کیا۔ بعد میں میاں صاحب اس پر سپریم کورٹ میں پٹیشن لے گئے اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی زیر قیادت فل کورٹ میں خود پیش ہوئے۔ پاکستان میں سول‘ ملٹری ریلیشن شپ نازک ترین مرحلے میں داخل ہو گئی تھی۔ زرداری +گیلانی حکومت نے عسکری قیادت کو مطمئن کرنے کے لیے حقانی کو سفارت سے برطرف کر دیا(شیری رحمن ان کی جانشین بنیں) 6 دسمبر کی شام صدر زرداری کی اچانک دبئی روانگی سے افواہوں کا ایک طوفان تھا جو اٹھ کھڑا ہوا۔ امریکہ کے ”فارن پالیسی میگزین‘‘ میں میمو گیٹ پر سویلین حکومت کا گھیراتنگ ہونے کے ساتھ صدر زرداری کی ذہنی و اعصابی کیفیت کے حوالے سے یہ انکشاف بھی تھا کہ 2روز قبل صدر اوباما سے ان کی فون پر گفتگو بے ربط تھی۔ اس دوران حقانی کی طرف سے وعدہ معاف گواہ بننے کی پیشکش کی خبریں بھی آئیں۔
جنرل پاشا کی مدتِ ملازمت میں توسیع اور جنرل کیانی کی فل ٹرم ایکسٹینشن کے اعلان سے یوں لگتا تھا کہ خطرات ٹل گئے‘ لیکن میمو گیٹ پر حکومت اور عسکری قیادت کا رخ دو متضاد سمتوں میں تھا۔ سپریم کورٹ میں داخل کرائے گئے بیانات میں حکومت میمو گیٹ کی حقیقت ہی سے انکاری تھی اور اسے محض کاغذ کا ایک بے وقعت ٹکڑا قرار دے رہی تھی جبکہ جنرل کیانی اسے حقیقت قرار دیتے ہوئے اس کی تحقیق و تفتیش پر مُصر تھے۔ جنرل پاشا‘ اس سلسلے میں حقانی اور منصور اعجاز میں رابطوں کے ٹھوس ثبوتوں کے دعویدار بھی تھے۔ اس دوران حقانی سپریم کورٹ میں پیشی کے لیے آئے‘ سخت حفاظتی اقدامات کے ساتھ وہ ایوانِ صدر میں مقیم رہے اور سپریم کورٹ میں یہ وعدہ کر کے واپس واشنگٹن چلے گئے کہ آئندہ جب بھی طلب کیا جائے گا‘ وہ حاضر ہو جائیں گے۔ پرندہ کبھی واپس نہ آنے کے لیے اُڑ گیا تھا، اپنے دوسرے وطن کی طرف‘ جو دراصل اب اس کا پہلا وطن تھا۔