جو چاہے بنیں اٹارنی جنرل نہ بنیں….نسیم احمد باجوہ
67 سال پہلے کی بات ہے جب کالم نگار نے ڈیرہ غازی خان کے سکول میں فارسی پڑھی، دسویں جماعت کا امتحان پاس کرنے کے لئے۔ امتحان میں کامیابی تو کوئی بڑی بات نہیں ‘مگر فارسی زبان سے تعارف ہو گیا۔گلستان اور بوستان کے توسط سے شیخ سعدی ؒ کے فرمودات پڑھے۔ میں فارسی کے عالم فاضل اساتذہ سے جان کی امان مانگتے ہوئے لکھ رہا ہوں کہ غالباً یہ مشورہ انہوں نے دیا تھا کہ سگ باش بردارِ خورد نہ باش (شائستہ ترجمہ یہ ہوگا کہ چھوٹا بھائی ہونے سے کتاہونا بہتر ہے) زمانہ بدلا تو سماجی اقدار اور سماجی رشتے بدلے۔ اب اس دورِ جدید میں وہ کون سا نیک بخت چھوٹا بھائی ہو گا‘ جو اپنے بڑے بھائی کو باپ کی جگہ دیتا ہے اور اس احترام کا مستحق سمجھتا ہے‘ جو کئی صدیوں سے ہماری تہذیبی اقدار تسلیم کرتی چلی آئی ہیں۔ اب میری طرح ہر بڑے بھائی کو ہمہ وقت یہی فکر رہتی ہے کہ میں اپنے چھوٹے بھائیوں کی دست درازیوں سے اپنی پگڑی کو بچائے رکھوں تو کیونکر؟ اتنی سطور لکھی جا چکی تھیں کہ خیال آیا کہ وہ سب کی سب جملہ معترفہ کی زد میں آتی ہیں اور ان کا آج کے کالم سے صرف ایک چھوٹے سے لفظ (نہ) کا تعلق ہے‘ جو اِن کے درمیان مشترک ہے۔ کلاسیکی فارسی کے ایک قول کے مطابق چھوٹا بھائی بننے سے ہر ممکن گریز کریں اور کالم نگار کے (موجودہ حالات میں دیئے گئے) صائب مشورہ کے مطابق اٹارنی جنرل نہ بنیں۔
جدید نظامِ حکومت میں سرکار کے سب سے بڑے وکیل کو اٹارنی جنرل کہتے ہیں۔ وہ حکومت کی طرف سے استغاثہ دائر کرتا ہے اور اس کا دفاع بھی کرتا ہے۔ اٹارنی جنرل سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہر فیصلہ قانون اور آئین کے مطابق کرے گا۔ اس کے قانونی اقدامات سے انصاف کا بول بالا ہوگا۔ وہ ان لوگوں کا بھی لحاظ نہیں کرے گا (غیر قانونی مراعات دینے کے معنوں میں) جنہوں نے اسے اس بڑے عہدہ پر فائض کیا ہے اور کابینہ کا رکن ہونے کے باوجود (جیسا کہ بہت سے ممالک میں ہوتا ہے) کبھی بھی جی حضوری نہیں کرے گا، ہمیشہ اپنے ضمیر کی آواز سنے گا اور جو قدم بھی اُٹھائے گا وہ قانون اور آئین کی روح کے مطابق ہوگا۔ وہ ذاتی تعلقات، رشتہ داریوں اور سیاسی وفاداریوں کے بندھنوں سے بالاتر ہوکر اپنے فرائض منصبی ادا کرے گا، وغیرہ۔
مندرجہ بالا سطور پڑھ کر میرے ذہین قارئین کو یقینا پتہ چل گیا ہوگا کہ ایک وکیل کے لئے اس عہدہ میں جتنی بھی کشش ہو یہ کانٹوں کا تاج ہے۔ آپ اِسے پہن کر نہ چین کی بانسری بجا سکتے ہیں اور نہ آرام سے زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ اس عہدے کو سنبھالنے کا مطلب ہے کڑی آزمائش، ہر طرح کی مصیبت اور یہاں تک کہ جان کو خطرہ۔ ایک کالم کی محدود جگہ میں ممکن نہیں کہ میں آپ کو دُنیا بھر کی سیر کرائوں اور بتاتا جائوں کہ وہاں اٹارنی جنرل (بے چارہ کا لفظ بے ساختہ لکھنے کو جی چاہا) کس عذاب میں ہے؟ میرے لئے صرف یہ ممکن ہے کہ میں آپ کو شمالی اور جنوبی امریکہ کے وسطی ممالک لے چلوںاور ہم اپنی توجہ صرف ان پر مرکوز رکھیں۔ گوئٹے مالا کے دارلحکومت کا بھی وہی نام ہے (City کے چھوٹے سے اضافہ کے ساتھ) جو اس ملک کا ہے، وہاں کی اٹارنی جنرل ایک بلند ہمت، نڈر اور بہادر خاتون تھیں، نام ہےThelma Aldana ۔ وہ چار سال اس عہدہ پر فائض رہیں۔ انہوں نے جتنی دیر کانٹوں کا تاج پہنا اس کا حق ادا کر دیا۔نہ صرف اس ملک کے نائب صدر بلکہ صدر مملکت (Otto Perez Molina)کو بھی عدالتوں سے سزا دلوا کر جیل بھجوانے کا سہرا بجا طور پر ان کے سر باندھا جا سکتا ہے۔ایک صدر کا یہ حشر کرنے کے بعد انہوں نے اس کے جانشین کے خلاف قانونی چارہ جوئی شروع کی۔ الزام یہ تھا کہ اس نے اپنی انتخابی مہم کے لئے درکار رقوم حاصل کرنے کے لئے قانون شکنی کی۔
گوئٹے مالا کے دو پڑوسی ممالک کے نام ہیں ہنڈراس اورایل سلواڈور ۔ ان تینوں ممالک میں برسر اقتدار طبقہ (سیاست دان، جرنیل ، جج اور بڑے سرکاری افسر) کے افراد مالی بدعنوانی، لوٹ مار اور کرپشن میں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ قابل تعریف بات یہ ہے کہ اِن تینوں ممالک میں اٹارنی جنرل کرپشن کے خلاف جہاد کرنے والوں کے ہر اوّل دستہ میں شامل تھے۔ہنڈراس کے اٹارنی جنرل کی تفتیش سے بہت بڑا غبن منظر عام پر آیا۔ اب آپ ایل سلواڈورپر ایک نظر ڈالیں، ایک سابق صدر جیل میں ہے، دوسرا ملک سے بھاگ کر گوئٹے مالا میں پناہ گزین ہے اور تیسرا سابق صدر (جو زیادہ چالاک نکلا)مقدمہ کی کارروائی شروع ہونے سے پہلے ہی وفات پا گیا۔ ایل سلواڈورمیں سپریم کورٹ کے پانچ جج صاحبان اگلے سال ریٹائر ہوں گے تووہاں کی حکومت سکھ کا سانس لے گی اور پوری کوشش کرے گی کہ ان کی جگہ اعلیٰ سطح کی کرپشن سے چشم پوشی کرنے والے جج نامزد کرے۔
9/11کے بعد دنیا جس نئے دور میں داخل ہوئی اس میں مغربی طاقتوں اور اسلامی انتہا پسندوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ افغانستان پر امریکی حملہ کا سب سے تباہ کن نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان نے بھی اپنے آپ کو اس جنگ میں جھونک دیا۔ ہمارا کتنا زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا وہ مجھے دہرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ کو ہمارے ناکام سیاست دان یہ اعداد و شمار دن رات سناتے رہتے ہیں تاکہ اپنے روٹھے ہوئے سرپرست (امریکہ) کو منا سکیں۔ جو سچائی میں یہاں لکھنا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ اصل دہشت گرد امریکہ اور اس کے حواری ہیں۔ آپ افغانستان، عراق، لبیا (اور اب فلسطین میں) ہونے والی جارحیت کو دیکھیں۔ ردعمل کے طور پر ہونے والی دہشت گردی سامراجی طاقتوں کی دہشت گردی کے مقابلہ میں ہزاروں نہیں لاکھوں گنا کم ہے۔ اَن گنت بے گناہوں کی ہلاکت پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہوگاـ‘ مگر آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ دہشت گردوں کی پر تشدد کارروائیوں اور ان کے دشمنوں کے اقدامات کا ایک غیر ارادی فائدہ یہ ہوا کہ غیر قانونی طور پر بڑی رقوم کی ایک ملک سے دوسرے ملک منتقلی اور Money Laundering کے اربوں کھربوں ڈالروں کے نظر نہ آنے والے سیکنڈلز کا راز فاش ہو گیا۔
وسطی امریکہ میں جس بین الاقوامی ادارہ نے وہاں تینوں مذکورہ بالا ممالک کے ہر اٹارنی جنرل کی پوری مدد کی ہے اس کا نام ہےInternational Commission Against Impunity ۔ میری معلومات کے مطابق اس ادارہ کو اقوام متحدہ کی حمایت اور پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ آپ نے حالیہ دنوں چھپنے والے اخباروں میں پڑھا ہوگا کہ برطانیہ میں بھی جرائم کی تفتیش کی ایجنسی نے خبر دی ہے کہ جتنے ملکوں کے امیر لوگوں نے غیر قانونی طریقہ سے برطانیہ میں سرمایہ منتقل کر کے لندن اور اس کے گرد و نواح میں مہنگی جائیدادیں خریدی ہیں ان میں پاکستان سرفہرست ہے۔ یقینا دبئی کی بھی یہی صورتحال ہے۔ اگر آپ وسطی امریکہ یا لاطینی (جنوبی) امریکہ کے بجائے برطانیہ میں رہتے ہوں اور (کالم نگار اور اس کے بچوں کی طرح) بیرسٹر ہوں اور آپ کو ملکہ برطانیہ کی طرف سے اٹارنی جنرل کا عہدہ پیش کیا جائے‘ تو اسے ضرور قبول کر لیں۔ کالم نگار ہر روز اپنی ڈاک کا بغور مطالعہ کرتا ہے۔ افسوس کہ ہر طرح کے خطوط موصول ہوتے ہیں اور جس خط کا کئی عشروں سے انتظار ہے وہ ابھی تک نہیں آیا اور لگتا ہے کہ اب کبھی نہیں آئے گا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ملکہ برطانیہ نے 19 مئی کو لندن کے مضافات میں اور ہیتھرو ایئر پورٹ کے قریب ونڈسر کے شہر میں ہونے والی اپنے پوتے کی شادی کی تقریب میں مجھے نہیں بلایا۔ میں نے احتجاجاً شادی کی رسومات کو ٹیلی ویژن پر بھی نہ دیکھا اور چمکیلی دھوپ میں لمبی سیر کر کے غم غلط کیا۔ گھر واپس آیا تو ایک بڑی اچھی خبر میری منتظر تھی کہ ملکہ برطانیہ نے باپ کی اشک شوئی کے لئے اس کے ایک بیٹے (علی) کو برطانیہ کی ہائی کورٹ کا (جزوقتی) جج بنانے کے فیصلہ کی تحریری اطلاع بھیج دی اور جب تک آپ یہ سطور پڑھیں گے‘ سیالکوٹ کے ایک کسان کا پڑپوتا اس عُہدہ کا حلف اٹھا چکا ہوگا۔ یہ نہ صرف علی کے دوستوں اور رشتہ داروں بلکہ سارے پاکستانیوں (خصوصاً کاشتکاروں اور دیہاتیوں) کے لئے خوشی کا مقام ہے۔ میں اپنے پیارے قارئین کو اس خوشی میں شریک کرتا ہوا مبارک باد دیتا ہوں۔ کتنا اچھاہو کہ میرے آبائی وطن میں بھی سب لوگوں کو خوشی اور خوشحالی اور اللہ تعالیٰ کی برکتیں نصیب ہوں۔ آیئے ہم سب دعا مانگیں۔ بہت سی دُعائیں مانگنی ہوں گی مگر دعا مانگنے کے ساتھ دوا کا استعمال کرنا نہ بھولیں۔ دوا کا نام ہے انقلابی اصلاحات۔ دوبارہ لکھتا ہوں۔ انقلابی اصلاحات یعنی وہ تبدیلیاں جن سے ایک نیا، ترقی پسند اور عوام دوست نظام معرض وجود میں آئے۔