منتخب کردہ کالم

جو کام جنرل محمود بھی نہ کر سکا…… …..رئوف طاہر

جو کام جنرل محمود بھی نہ کر سکا…… …..رئوف طاہر

احتساب عدالت نے ایک ہفتے کا استثنیٰ دے دیا تھا کہ لندن جا کر بیگم صاحبہ کی عیادت کر سکیں لیکن معزول وزیراعظم نے اس دوران پاکستان ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ کوئٹہ کا شمار ملک کے ان حصوں میں ہوتا ہے جہاں معمول سے کہیں زیادہ سردی پڑتی ہے اور درجۂ حرارت نقطۂ انجماد تک پہنچ جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ موسمی حالات بھی ناسازگار ہوتے جا رہے ہیں لیکن معزول وزیراعظم انہیں بھی خاطر میں لانے کو تیار نہیں۔ انہوں نے دو دسمبر کو کوئٹہ میں جلسۂ عام سے خطاب کے لیے محمود اچکزئی کی دعوت قبول کر لی ہے۔
گذشتہ سہ پہر انہوں نے عمران خان کی تحریک انصاف کے ہوم گرائونڈ میں (کرکٹ کی اصطلاح میں) خوب چوکے چھکے لگائے۔ ایبٹ آباد کے کالج گرائونڈ میں یہ بلاشبہ یہاں کی تاریخ کا ایک بڑا جلسہ تھا۔ سرد موسم میں معزول وزیراعظم کی گرما گرم تقریر نے خوب رنگ جمایا۔ ہزارہا سامعین میں شاید ہی کوئی ہو جس کے دل کی دھڑکنیں اپنے لیڈر کے ایک ایک لفظ سے ہم آہنگ نہ ہوں۔ معزول وزیراعظم اسے عوام کی عدالت میں اپنی نظرثانی کی درخواست قرار دے رہے تھے اور ٹی وی چینلز پر ایک دنیا دیکھ رہی تھی کہ ہزارہا زبانیں اور ہزارہا لہراتے بازو اس درخواست کی قبولیت کا اظہار کر رہے تھے۔
پاناما کیس میں28 جولائی کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست پر عدالت عظمیٰ کے فل بنچ کا فیصلہ خلاف توقع نہ تھا کہ نظرثانی درخواست کی سماعت وہی بینچ کرتا ہے جس کے فیصلے پر ازسرِ نو غور کے لیے استدعا کی جاتی ہے۔ اس میں وکیل بدلا جا سکتا ہے‘ نہ نئے دلائل پیش کئے جا سکتے ہیں۔ بھٹو صاحب کی نظرثانی درخواست کا معاملہ تو اس لحاظ سے بھی دلچسپ رہا تھا کہ سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ میں سے چار نے ہائی کورٹ کی طرف سے پھانسی کے فیصلے کی توثیق اور تین نے اس کی مخالفت کی تھی لیکن نظرثانی کی درخواست مسترد کرنے والوں میں یہ تین جج بھی شامل تھے۔
ہم پنجاب یونیورسٹی میں لاء کے طالب علم رہے لیکن سچ بات یہ ہے کہ ہمیں قانون کی خشک کتابوں سے کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ عدالتی فیصلوں میں بوریت کاعنصر بھی ہمارے لیے اکتاہٹ کا باعث رہا۔ اب عدالتی فیصلوں میں ادبی چاشنی نے ہم جیسوں کے لیے بھی ان میں دلچسپی کا سامان کر دیا ہے۔ پاناما کیس میں ”گاڈ فادر‘‘ اور ”سسلین مافیا‘‘ سے شروع ہونے والی بات ایک نسبتاً غیر معروف شاعر کے اس مشہور و مقبول شعر تک جا پہنچی تھی۔
تو ادھر اُدھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں‘ تری رہبری کا سوال ہے
یہ الگ بات کہ بال کی کھال اتارنے اور قانون کی خشک تشریحات اور اکتا دینے والی عدالتی نظائر کے عادی سینئر قانون دان اس پر ناک بھوں چڑھاتے نظر آئے۔
نظرثانی درخواست پرمفصل فیصلے کے زبان و بیان نے معزول وزیراعظم اور ان کے حامیوں کو ”فیئر کمنٹ‘‘ کا ایک اور موقع مہیا کر دیاتھا۔ پاکستان کی 70 سالہ عدالتی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے وہ ”منصفی‘‘ کا سوال اٹھا رہے ہیں۔ ایبٹ آباد کے جلسے میں بھی معزول وزیراعظم یہی سوال اٹھا رہے تھے۔ چونکہ عام انتخابات کے آئینی شیڈول سے مہینوں پہلے یہ ایک طرح کی انتخابی مہم ہے‘ جو شروع ہو گئی ہے‘ عمران خان ایک عرصے سے اس میدان کے تنہا شہ سوار بنے ہوئے ہیں۔ اب معزول وزیراعظم بھی میدان میں اترے ہیں‘ ایبٹ آباد کے اس جلسے کو مسلم لیگ نون کی انتخابی مہم کا آغاز سمجھئے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی چار سالہ کارکردگی کا ذکر بھی کیا اور اپنے حریف کو اس کی کارگزاری کے حوالے سے آئینہ بھی دکھایا۔ لیکن میڈیا نے ان کے ”ڈیفائنٹ موڈ‘‘ کے حوالے سے اس اعلان کو ہیڈ لائنز بنایا کہ وہ موت سے ڈرتے ہیں‘ نہ جیل جانے سے…اور سچ بات یہ ہے کہ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے اور نازونعم میں پرورش پانے والے شخص کے یہ الفاظ محض بڑھک نہیں بلکہ اپنے ساتھ ماضی کا حوالہ بھی رکھتے ہیں۔
18 اپریل 1993ء کی شام جب اسٹیبلشمنٹ کے گاڈ فادر غلام اسحاق خان وزیراعظم کی برطرفی اور قومی اسمبلی کی تحلیل کا فیصلہ کر چکے تھے اور صدارتی تقریر کی نوک پلک سنواری جا رہی تھی‘ پرائم منسٹر ہائوس کو ایوانِ صدر سے لمحے لمحے کی خبر مل رہی تھی لیکن یہاں کوئی اضطراب‘ کوئی افراتفری نہ تھی۔ وزیراعظم اپنے رفقاء کے ساتھ ایک ایک لمحے سے لطف اٹھا رہے تھے۔ شرکاء مجلس میں سے ایک نے پوچھا کہ اس کے بعد کیا ہو گا؟ وزیراعظم کا جواب تھا‘ میں نے سامان تیار کر لیا ہے‘ یہاں سے سیدھا اڈیالہ جیل جانے کو بھی تیار ہوں۔ اگلے دن کسی رسمی اعلان کے بغیر پورے ملک میں شٹر ڈائون تھا۔ معزول وزیراعظم نے ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر عوام کی عدالت میں جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ جہاں بھی ‘ لاکھوں لوگ خیرمقدم کے لیے موجود تھے۔ کراچی کا احوال پروفیسر غفور احمد صاحب (مرحوم) نے اپنی کتاب میں لکھا‘ ”تاریخی استقبال کے لیے پورا شہر امڈ آیا تھا۔ ائرپورٹ پر لاکھوں لوگ جمع تھے۔ ائرپورٹ سے ان کا جلوس تقریباً گیارہ گھنٹے میں مزار قائد پہنچا‘ جس میں ییلو کیب اور ہزاروں گاڑیاں شامل تھیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی چوائس‘ نگران وزیراعظم میر بلخ شیر مزاری نوازشریف کی آمد کے کئی گھنٹے بعد کراچی پہنچے‘ لیکن ہجوم کے باعث شاہراہ فیصل کی بجائے ملیر کے راستے چیف منسٹر ہائوس پہنچ سکے۔ نرسری کے قریب وزیراعلی مظفر شاہ کی گاڑی عوامی غیظ و غضب کا نشانہ بن گئی ۔ہجوم نے اسے الٹ کر آگ لگا دی تھی‘‘۔ اسی دن کا ایک منظر جاوید ہاشمی نے بھی اپنی خودنوشت میں بیان کیا ہے‘ ” فوجی حکام نے ہمیں راستہ بدلنے کا حکم دیا لیکن میاں نوازشریف آگے بڑھتے رہے۔ فوجی جوانوں نے پوزیشنیں سنبھال لیں اور بندوقوں کا رُخ ہماری طرف پھیر دیا۔ شیخ رشید نے شدید اصرار کے ساتھ کہا کہ ہمیں واپس چلے جانا چاہیے۔ اعجاز الحق نے کہا‘ جب فوجی اس طرح پوزیشنیں سنبھال لیں تو انہیں Shoot to Kill کا آرڈر مل چکا ہوتا ہے۔ میاں نوازشریف ایک لمحے کے لیے نہیں گھبرائے۔ وہ ہر طرح کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار تھے۔ انہوں نے میگا فون مجھے تھما دیا اور کہا‘ جلوس کو پرجوش طریقے سے آگے بڑھائیں‘ مجھے گولی یا لاٹھی کی پروا نہیں۔ بالآخر فوجیوں نے راستہ دے دیا‘‘۔
اور پھر 12 اکتوبر 1999ء کی فوجی کارروائی کے بعد‘ جب جنرل محمود شب کے آخری پہر اپنے باوردی رفقاء کے ساتھ فوجی میس کی کال کوٹھڑی میں پہنچے‘ اور معزول وزیراعظم سے جنرل مشرف کی برطرفی کا حکم واپس لینے‘ قومی اسمبلی توڑنے اور وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے کے کاغذات پر دستخطوں کے لیے اصرار کیا اور اس میں لالچ اور خوف کے سبھی حربے آزمائے ۔آخر کار زیرعتاب وزیراعظم نے یہ کہتے ہوئے کاغذات میز پر پٹخ دیئے Over my dead body
اسی حوالے سے ایک حکایت کے راوی حفیظ اللہ نیازی ہیں۔ اگست 2014ء کے دھرنوں کا دوسرا ہفتہ تھا۔ وزیراعظم کے استعفے کے لیے دیدہ و نادیدہ دبائو بڑھتا جا رہا تھا۔ تب جنرل محمود کے ایک دوست نے پوچھا‘ کیا نوازشریف استعفیٰ دیدے گا؟ جنرل کا جواب تھا‘ ”جس نوازشریف سے مجھے 12 اکتوبر کی شب واسطہ پڑا تھا‘ وہ اب بھی استعفیٰ نہیں دے گا۔ اگر جنرل محمود پستول کی نوک پر بھی استعفیٰ نہیں لے سکا تھا‘ تو کوئی اور بھی نہیں لے سکے گا‘‘۔