منتخب کردہ کالم

’’جَے پاکستان‘‘ سے سرنڈرتک…رئوف طاہر

’’جَے پاکستان‘‘ سے سرنڈرتک…رئوف طاہر
دسمبر کا دوسرا ہفتہ اختتام کو ہے۔ دسمبر کو شاعروں نے بھی موضوع بنایا
ذرا سی دیر دسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
یہ فرصتیں ہمیں شاید نہ اگلے سال ملیں
دسمبر کے حوالے سے عرش صدیقی مرحوم کی پکار کا اپنا انداز تھا۔ان کی ایک خوبصورت نظم کے آخری مصرعے ؎
اسے کہنا کہ لوٹ آئے
اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
میرے لیے دسمبر کے ان دنوں کا ایک اور حوالہ ہے۔ چھیالیس سال ہو گئے‘ یہ حوالہ بھولتا ہی نہیں۔ آج جب یہ سطور رقم کر رہا ہوں‘ دسمبر کی چودہ تاریخ ہے‘ کل جب یہ کالم چھپے گا‘ دسمبر کی پندرہ ہو گی۔ مسجدوں کے شہر ڈھاکہ میں جہاں 1906ء میں مسلم لیگ نے جنم لیا‘ قائداعظم کے پاکستان کا سورج کنارے آ لگا تھا۔ قائداعظم کا پاکستان ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل میں سمٹ آیا تھا‘ جسے انٹرنیشنل ریڈ کراس نے نیوٹرل زون قرار دے دیا تھا اور گورنر اے ایم مالک نے کابینہ سمیت یہاں پناہ لے لی تھی‘ یا پھر ڈھاکہ چھائونی ‘جہاں جنرل نیازی سینے پر ہاتھ مار کر کہہ رہا تھا‘ بھارتی ٹینک میرے سینے سے گزر کر ڈھاکہ میں داخل ہوں گے۔
بنگالیوں کی شکایات کی فہرست خاصی طویل رہی تھی لیکن وہ ان کا ازالہ متحدہ پاکستان کے اندر ہی چاہتے تھے۔ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح‘ فیلڈ مارشل ایوب خاں کے خلاف صدارتی انتخاب کی مہم میں ڈھاکا پہنچیں تو بنگالیوں کا جوش و خروش کراچی والوں سے کم نہ تھا۔اکثر مقامات پر شیخ مجیب بھی ”ماں‘‘ کے ساتھ نظر آتا۔
6 ستمبر 1965ء کو لاہور پر ہندوستانی حملے کی خبر پر ڈھاکہ والوں کا ردعمل لاہوریوں سے مختلف نہ تھا۔ وہ دیوانہ وار سڑکوں پر نکل آئے تھے‘ چاروں طرف پاکستان زندہ باد کے نعروں کی گونج تھی‘ ڈھاکہ یونیورسٹی میں بھی Down With India کے نعرے کم نہ تھے۔ آغا شورش کاشمیری کی نظم کا عنوان تھا ”مشرقی بنگال کے آتش بجانوں کو سلام‘‘…
1970ء کے انتخابات میں مشرقی پاکستان کی 162 نشستوں میں سے 160 شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے جیت لی تھیں۔ شیخ نے مغربی پاکستان میں بھی 8 امیدوار کھڑے کئے تھے۔ لاہور میں ملک حامد سرفراز (مرحوم) بھی ان میں شامل تھے‘ ایسی قدآور سیاسی شخصیت جس کے ذکر کے بغیر یہاں کی سیاسی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی‘ ”نئے پاکستان‘‘ میں بھٹو آمریت کے خلاف ایئرمارشل اصغر خاں کی رفاقت میںجمہوریت کا پرچم تھامے رہے۔ سندھ میں شیخ مجیب کو پیر صاحب پگاڑا (موجودہ پیر صاحب کے مرحوم والد) کی سرگرم تائید و حمایت حاصل تھی۔اپنے امیدواروں کی حمایت میں مجیب مغربی پاکستان بھی آئے۔ لاہور کے گول باغ میں بعض نوجوانوں کی ہنگامہ آرائی ڈھاکہ سے آنے والے لیڈر کے لیے گہرے دکھ کا باعث تھی۔ مغربی پاکستان کی 138 نشستوں میں سے 81 بھٹو کے حصے میں آئیں‘ غالب تعداد پنجاب سے تھی (82 میں سے 62) مشرقی پاکستان میں ان کا ایک بھی امیدوار نہ تھا۔
انتقال اقتدار سے پہلے اب آئین سازی کا مرحلہ تھا۔ شیخ مجیب نے الیکشن چھ نکات کی بنیاد پر لڑا تھا لیکن یہ علیحدگی کا مینڈیٹ نہ تھا‘ یہ متحدہ پاکستان کے اندر زیادہ سے زیادہ صوبائی اختیارات کا پروگرام تھا۔ سیاسی مخالفین اسے وفاق کو کمزور کرنے کا پروگرام قرار دیتے ‘جواب میں مجیب کا اصرار ہوتا کہ اس سے پاکستان مضبوط ہو گا۔ الطاف حسن قریشی صاحب سے طویل انٹرویو میں شیخ کا کہنا تھا (جولائی 1969ئ) ”ہمیں مغربی پاکستان کے عوام سے کوئی کد نہیں‘ ہمیں صرف اس طبقے سے نفرت ہے جس نے کبھی سرکاری افسروں اور کبھی صنعتکاروں کے روپ میں ہمارے حقوق پر ڈاکے ڈالے‘ یہ چھوٹا سا طبقہ مغربی پاکستان کے عوام کو بھی ظلم کی چکی میں پیستا رہاہے‘ ہم سب مل کر اس کے خلاف جنگ لڑیں گے۔ مشرقی پاکستان کے لوگ صرف انصاف چاہتے ہیں۔ چھ نکات دراصل انصاف کا منشور ہے‘‘ …”میں نے پاکستان کی جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا اور آج مجھ ہی پر پاکستان کو ٹکڑے کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ آپ خود ہی سوچئے کہ مشرقی پاکستان کو علیحدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ ہماری آبادی 56 فیصد ہے۔ مغربی پاکستان علیحدگی کا تصور کر سکتا ہے‘ مگر ہم بالکل نہیں کر سکتے‘‘۔ شیخ نے یہی بات الیکشن جیتنے کے بعد (15 فروری کو) ڈھاکہ کی ایک میٹنگ میں کہی جس میں مغربی پاکستان سے اس کی پارٹی کے لیڈر بھی موجود تھے‘ ”چھ نکات مغربی پاکستان کے عام آدمی کے خلاف نہیں‘ یہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے استحصالی عناصر کے خلاف ہیں‘‘ اور پھر شیخ نے اپنے مغربی پاکستانی رفقا کی طرف رخ کر کے‘ ہنستے ہوئے کہا‘بدقسمتی سے آپ لوگوں کے ہاں یہ (استحصالی عناصر) زیادہ پائے جاتے ہیں۔
اسمبلی کو 120 دن کے اندر آئین سازی کا کام مکمل کرنا تھا (ورنہ یہ ٹوٹ جاتی) اسمبلی کا اجلاس بلانے میں تاخیر سے مشرقی پاکستان میں شکوک و شبہات جنم لینے لگے۔ اس دوران جنرل یحییٰ خاں ڈھاکہ گئے‘ وہ اسے ”پاکستان کے آئندہ وزیراعظم‘‘ سے ملاقات قرار دے رہے تھے‘ لیکن جواب میں شیخ کی طرف سے اپنے لیے آئندہ پانچ سالہ صدارت کی یقین دہانی حاصل نہ کر سکے کہ مشرقی پاکستان کا لیڈر یہ عہدہ مغربی پاکستان کی کسی سیاسی شخصیت کو دینا چاہتا تھا۔ واپسی پر جنرل یحییٰ خاں لاڑکانہ گئے‘ بھٹو سے راز و نیاز نے مشرقی پاکستان والوں کے شکوک و شبہات میں اضافہ کر دیا تھا۔ اب بھٹو اسمبلی کے اجلاس سے پہلے‘ مشرقی اور مغربی پاکستان میں کسی سیاسی سمجھوتے پر اصرار کر رہے تھے۔ حیرت ہے‘ بھٹو نے خود کو مغربی پاکستان کا اجارہ دار کیسے سمجھ لیا جبکہ یہاں 138میں سے 57 نشستیں ان کے مخالفین نے جیتی تھیں‘ دو صوبوں‘ سرحد اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی کے پلے کچھ نہ تھا۔ مشرقی پاکستان (اور خود مغربی پاکستان سے بھٹو مخالف سیاستدانوں) کے دبائو پر یحییٰ خاں نے 3 مارچ کو ڈھاکہ میں آئین ساز اسمبلی کے اجلاس کا اعلان کر دیا۔ ادھر بھٹو اس کے خلاف سرگرم ہو گئے۔ 28 فروری کو مینارِ پاکستان پر جلسہ اس مہم کا نکتۂ عروج تھا‘ بھٹو کہہ رہے تھے ”تو ٹھیک ہے‘ اُدھر مجیب کو اور اِدھر مجھے اقتدار دے دو‘‘ عباس اطہر (مرحوم) نے سرخی نکالی ”اُدھر تُم‘ اِدھر ہم‘‘ …وہ اس سے پہلے دو وزیراعظم کا آئیڈیا بھی پیش کر چکے تھے۔ یہیں انہوں نے ڈھاکہ جانے والوں کی ٹانگیں توڑ دینے کی دھمکی بھی دی۔ یحییٰ خاں نے اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا۔ مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسندوں کی بن آئی تھی‘ جن پر مجیب کی گرفت کمزور تر ہوتی چلی گئی۔ سات مارچ کے یوم احتجاج پر ڈھاکہ میں بنگلہ دیش کے پرچم تھے لیکن مجیب نے اب بھی متحدہ پاکستان کا آپشن ترک نہیں کیا تھا۔ ریس کورس کے جلسۂ عام میں اس نے تقریر کا اختتام ”جَے بنگلہ‘‘ کے بعد ”جَے پاکستان‘‘ کے نعرے سے کیا۔
ڈھاکہ میں مذاکرات کا نیا کھیل شروع ہوا۔ بھٹو کے علاوہ مغربی پاکستان سے دوسری جماعتوں کی منتخب لیڈر شپ بھی ڈھاکہ پہنچی‘ ان میں ولی خاں بھی تھے۔ مذاکرات دراصل فوجی آپریشن کے لیے وقت حاصل کرنے کی حکمت عملی تھی۔ کھیل ختم ہوتا دیکھ کر ولی خاں نے یحییٰ خاں سے ملاقات کی وہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے ایک اور کوشش کی تجویز لے کر گئے تھے‘ جس پر جنرل کا جواب تھا‘ Enough is Enough, I have decided to shoot my way through”دل شکستہ پشتون لیڈر یہاں سے مجیب کے پاس پہنچا کہ شاید مذاکرات کے تسلسل کی کوئی راہ نکل آئے‘ شیخ کا جواب تھا‘ “You know, He has decided to Shoot his Way through”
اور پھر 25 مارچ کی شب ”ہونی‘‘ ہو گئی‘ آپریشن شروع ہو گیا تھا۔ اگلے روز اخبارات کے صفحۂ اول پر تصویر تھی‘ مشرقی پاکستان کے منتخب لیڈر (جو ایک طرح سے پورے پاکستان کا اکثریتی لیڈر تھا) کی کراچی ایئرپورٹ پر تصویر‘ یہاں وہ مغربی پاکستان والوں کی حراست میں تھا۔ بھٹو کا کہنا تھا ”خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا‘‘۔ اور پھر 16 دسمبر کو جنرل نیازی‘ ڈھاکہ کے اسی ریس کورس گرائونڈ میں سرنڈر کی دستاویز پر دستخط کرنے کے بعد جنرل اروڑا کو اپنا پستول پیش کر رہے تھے جہاں شیخ مجیب نے 7 مارچ کو علیحدگی پسندوں کے بدترین دبائو کے باوجود اپنی تقریر کا اختتام ”جَے پاکستان‘‘ کے ساتھ کیا تھا۔