جہاں سے پہلی فہرستیں آئی تھیں….رؤف طاہر
حیرت ہے، تحریکِ انصاف نے بی بی سی کی زینب بداوی کو مسلم لیگ (ن) کے میڈیا سیل کا حصہ قرار نہیں دیا۔ وہ اگرچہ ”ہارڈ ٹاک‘‘ کے نام سے انٹرویو کرتی ہیں لیکن ان کا لب ولہجہ سافٹ ہوتا ہے، حفظِ مراتب کا خیال رکھتی ہیںاور” مہمان‘‘ سے ناروا بحث میں نہیں الجھتیں۔ بعض پاکستانی میڈیا پرسنز کے برعکس ”مہمان‘‘ سے مرعوب ہوتی ہیں، نہ اسے ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا کرکے مخالف وکیل کی طرح تابڑ توڑ سوالات کے ذریعے زچ کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ ہمیں یاد ہے ،محترمہ بے نظیر بھٹو ہمارے ایک اینکر دوست کے رویے سے زچ ہو کر مائک اتار کر اٹھ گئی تھیں، اسی طرح کا رویہ ایک اور نوجوان اینکر نے جماعت اسلامی کے (اب سابق) امیر سید منور حسن کے ساتھ روا رکھا اور جناب سید بھی انٹرویو ادھورا چھوڑ کر اٹھ گئے تھے۔
زینب بداوی کے ”ہارڈ ٹاک‘‘ میں عمران خان مہمان تھے۔ سوالنامہ سیدھا سادا تھا، آپ کی تحریک انصاف نے خیبر پختو نخوامیں حکومت کی پانچ سالہ مدت مکمل کی۔ اس دوران اس نے کتنے ہسپتال بنائے؟ کتنی یونیورسٹیاں بنائیں؟ بیروزگاری کے خاتمے کے لیے کیاکچھ کیا؟ کتنے نوجوانوں کو ملازمتیں دیں؟ خان پاکستانی میڈیا کا عادی ہے، اور یہاں واسطہ بی بی سی سے تھا، جہاں سوال گندم، جواب چنا والا معاملہ نہیں چل سکتا تھا۔خان اِدھر اُدھر نکل جاتا ، لیکن زینب کو اپنا سوال یاد رہتا ۔ کتنی یونیورسٹیاں ؟کتنے ہسپتال؟کتنے روزگار؟ وہ اپنےspecificسوالات کے specificجوا ب چاہتی تھی اور خان کے پاس اس حوالے سے کہنے کو کچھ نہ تھا، زیادہ سے زیادہ وہی شوکت خانم کی کہانی، وہی 92کے کرکٹ ورلڈ کپ کا قصہ۔
ہمیں خادم پنجاب کی الوداعی پریس کانفرنس یاد آئی جس میں اپنی پانچ سالہ کارکردگی کے حوالے سے کہنے کو بہت کچھ تھا مثلاً200نئے کالج، 19یونیورسٹیاں، 17اضلاع میں ہیلتھ کارڈز کا اجرا، ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن، سیف سٹی پراجیکٹ، جدید ترین فرانزک لیبارٹری ،پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ، ملتان اور پنڈی اسلام آباد میں میٹر وبس ، لاہور میںماس ٹرانسپورٹ کا جدید ترین منصوبہ اورنج لائن ٹرین، اس پر80،90فیصد کام مکمل ہوچکا، باقی دس ،بیس فیصد ،کچھ قابل بیان اور کچھ ناقابل بیان رکاوٹوں کے باعث نامکمل رہا۔ فراز یاد آئے۔
دیکھو یہ میرے خواب تھے، دیکھو یہ میرے زخم ہیں
میں نے سبھی حساب ِ جاں بر سرِ عام رکھ دیا
”ہارڈٹاک‘‘ میں زینب بداوی بھی خان سے اسی حسابِ جاں کو برسرِعام کرنے کا تقاضا کررہی تھی۔ ریحام خان کی ”کتاب‘‘کے مندرجات کو حمزہ عباسی اور سلمان احمد جیسے خان کے نادان دوستوں نے گھر گھر پہنچا دیا تھا (اس کا رخیر میں فواد چوہدری کا حصہ بھی کم نہیں، جنہوں نے اس کتاب کے حوالے سے چار دنوں میں چار پریس کانفرنسیں کرڈالیں) اور اب خان سے زینب بداوی کی ”ہارڈ ٹاک‘‘ کے کلپس نون لیگ والے عام کررہے ہیں۔
عمران خان نے قومی اسمبلی کے پانچ حلقوں میں انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا اور سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے پانچوں حلقوں میں خان کے کاغذات نامزدگی کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ موصوف کو خدا نے کیا عزت اور مقبولیت عطا کی تھی۔تب دونوں پاپولر لیڈر ملک سے باہر تھے اور ملک کے اندر ڈکٹیٹرسیاہ و سفید کا مالک۔ اس کے پیش رو جنرل ضیاء الحق کا عرصہ اقتدار گیارہ سال پر محیط تھا اور پاکستان کا چوتھا ڈکٹیٹر اس ریکارڈ سے بھی آگے جانے کے خواب دیکھ رہاتھا۔ لیکن قدرت نے چودھری افتخار کی قسمت میں ایک تاریخی کردار لکھاتھا، جس نے ناقابل تسخیر سمجھی جانے والی ڈکٹیٹر شپ کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔اپنے منصب پر بحالی کے بعد اگرچہ ان کے جو ڈیشل ایکٹوازم نے معروف آئینی حدود سے تجاوز بھی کیاجس پر سیاسی عناصر کو شکایات بھی پیدا ہوئیں۔
لیکن اپنی ریٹائر منٹ تک وہ قوم کے ایک بڑے حصے کے ہیرو تھے۔ وہ اپنے حصے کا کردار ادا کر چکے تھے لیکن اس پر اکتفا کرنے اور اس دوران حاصل ہونے والی بے پناہ عزت وتکریم کو سمیٹنے اور سنبھالنے کی بجائے انہوں نے میدانِ سیاست میں کودنے کا فیصلہ کرلیا، جہاں پگڑی اچھلتی ہے۔ وہ ایک عدد سیاسی جماعت کے بانی سربراہ ہیں (خدا شاہد ہے، مجھے اس وقت ان کی جماعت کا نام یاد نہیں آرہا حالانکہ میرا حافظہ ابھی اتنا بھی کمزور نہیں ہوا۔)انہوں نے ہر حلقے میں عمران خان کے کاغذاتِ نامزدگی کو ریٹرننگ افسر کے روبرو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وہی سیتا وائٹ والا معاملہ۔ لاس اینجلس کی عدالت خان کو ٹیریان نامی” Love Child‘‘کا باپ قرار دے چکی ۔ خان نے اس عدالتی کارروائی کا حصہ بننے سے انکار کردیاتھا، اس نے ڈی این اے ٹیسٹ کروایا، نہ عدالت میں پیش ہو کر اس حوالے سے کوئی موقف اختیار کیا۔ البتہ میڈیا پر اپنے سیاسی مخالفین سے بحث کے دوران وہ اعتراف کرتا، میں نے کب کہا کہ جوانی میں مجھ سے کوئی لغزش نہیں ہوئی یا یہ کہ میں نے کوئی فرشتوں والی زندگی گزاری ہے۔ سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کے بقول الیکشن کمیشن 2006ء میں اس حوالے سے ریفرنس خارج کرچکا، اب یہ معاملہ ریٹرننگ افسر کے دائرہ اختیار سے باہر ہے اور ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ ہی اس بارے فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔
دلچسپ بات یہ کہ پی ٹی آئی نے سابق چیف جسٹس کے اس ”فیصلے‘‘ کو بھی مسلم لیگ(ن) کے کھاتے میں ڈال دیا حالانکہ چیف جسٹس کے منصب پر بحالی کے باقی ماندہ عرصے میں نواز شریف حکومت کے ساتھ ان کے رویے میں بھی کوئی فرق نہیں تھا (صرف شجاعت عظیم کیس کی مثال کافی ہے)۔نوازشریف حکومت کے دوران وہ تقریباً 6ماہ چیف جسٹس رہے، اور اس دوران شاید ہی کوئی دن ہو جب پرائم منسٹر ہائوس کو کورٹ روم نمبر ایک سے ٹھنڈی ہوا کا کوئی جھونکا آیا ہو۔ اس دوران یہ لطیفہ بھی مشہور ہوا کہ میاں صاحب نے ایک روز پوچھاچیف صاحب کو کب ریٹائر ہونا ہے؟ جواب ملا گیارہ ، بارہ ،تیرہ۔ میاں صاحب کی رگ ظرافت پھڑکی اور انہوں نے کہا، تو یہ ریٹائر منٹ میں بھی تین دن لے جائیں گے (گیارہ ،بارہ ،تیرہ سے مراد،سن تیرہ کے بارہویں مہینے کی گیارہ تاریخ)۔
ادھر پی ٹی آئی کی انتخابی ٹکٹیں بھی سیاسی گفتگو کا دلچسپ موضوع ہیں۔ پارٹی کے اندر بغاوت کی کیفیت ہے، پرانے وابستگان سراپا احتجاج ہیں اور یہ احتجاج کسی ایک آدھ حلقے یا ایک دوشہروں میں نہیں۔نواب زادہ صاحب زندہ ہوتے تو یہ شعر پڑھتے۔
پئیں نہ رند یہ واعظ کے بس کی بات نہیں
تمام شہر ہے، دو، چار، دس کی بات نہیں
کسی ستم ظریف نے کہا، ٹکٹوں کے لیے فہرستیں بھی وہیں سے آئیں، جہاں سے الیکٹ ایبلز کی شمولیت کی فہرستیں آئی تھیں۔
برادرم خورشید ندیم کا دکھ اپنی جگہ ، لیکن سوتے جاگتے ،اور خلوت وجلوت میں بھی خان کی وکالت کرنے والے حسین پراچہ بھی اس حوالے سے اپنے گہرے کرب کا اظہار کئے بغیر نہیں رہے۔ ڈاکٹر صاحب”جماعتی‘‘ پس منظر رکھتے ہیں لیکن ہم نے مختلف نشستوں میں انہیں جماعت سے زیادہ پی ٹی آئی کی مدح وتوصیف کرتے دیکھا۔ اب ان کا بھی کہنا ہے کہ پارٹی اجلاسوں میں عمران خان سے یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ آپ کا نظریاتی فلسفہ چکنا چور ہوگیا تو آپ کے اندر کوئی توڑ پھوڑ ہوئی یا نہیں مگر مخلص اور نظریاتی کارکنوں کے دل ٹوٹ گئے ہیں۔ عمران خان کے ہاں دل جوئی کا کوئی کلچر نہیں۔ وہ مخلص ترین کارکنوں اور دوستوں کو کسی لمحے بھی سرخ جھنڈی دکھا سکتے ہیں اور ان سے آنکھیں پھیر سکتے ہیں۔ اب اگر یہ نظریاتی قائدین وکارکنان آزاد امید وار بن کر سامنے آجاتے ہیں یا شکستہ دل ہو کر گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں تو تحریک انصاف کی اصل قوت کی عدم موجودگی میں محض جیتنے والے گھوڑوں (الیکٹ ایبلز) کی کامیابی کے کتنے امکانات ہوں گے؟بعض حلقوں میں تو مسلم لیگ (ن) میں ان کی شمولیت کی خبریں بھی آرہی ہیں۔