منتخب کردہ کالم

جے آئی ٹی اور فیصلہ کن مرحلہ، کالم ابراہیم راجا

جے آئی ٹی اور فیصلہ کن مرحلہ،
کالم ابراہیم راجا

تاریخی فیصلے عدالتیں نہیں وقت کرتا ہے۔ بھٹو کی پھانسی پر عدالت کا اپنا فیصلہ تھا، وقت نے پھر اپنا فیصلہ سنا دیا۔اب ایک اور وزیراعظم کی قسمت کا فیصلہ عدالت کے ہاتھ میں ہے۔ حکمرانوں کے احتساب سے کون انکار کر سکتا ہے؟ جمہوریت کی بنیادی روح ہی یہی ہے۔احتساب پر مگر عناد کا شائبہ تک نہیں ہونا چاہیے۔
وزیراعظم جے آئی ٹی میں پیش ہوئے، انہیں پیش ہونا ہی تھا۔ جمہوریت کے وہ دعوے دار ہیں، بجا کہ پیشی کے سوا کوئی چارہ نہ تھالیکن اخلاقی طور پر۔ قانونی بہانے اگرچہ وہ بہت بنا سکتے تھے، قانون موم کی ناک ہے، جدھر چاہے موڑ لیں، یہ چوٹی کے قانون دانوں کی رائے ہے۔ وزیر اعظم تحقیقات کے لیے سرکاری افسران کے سامنے پیش ہوئے۔ مغربی اور تہذیب یافتہ معاشروں میں یہ کوئی خاص نہیں، عام سی بات ہے۔ پاکستانی معاشرے کی بات لیکن الگ ہے، یہاں اعلیٰ جمہوری اقدار رہیں نہ کبھی آئین کی بالادستی۔ وزیر اعظم خود پیش ہوئے یا پیشی پر مجبور تھے، یہ ایک الگ بحث ہے، ان کی پیشی بہرحال ایک تاریخی جمہوری عمل ہے۔ وزیر اعظم کی پیشی ہو گئی، فیصلہ کن مرحلہ مگر ابھی باقی ہے۔
ساڑھے پانچ برس پہلے کا منظر، وزیر اعظم کی آنکھوں میں گھومتا ہو گا۔ کالا کوٹ پہن کر وہ سپریم کورٹ پہنچے تھے، میمو گیٹ پر پٹیشن داخل کرنے کے لیے، بظاہر ایک منتخب حکومت اور منتخب وزیر اعظم کے خلاف۔ اب اس پر وہ اظہار افسوس کرتے ہیں، قریبی رفقا کے سامنے۔ وقت گزرا، الیکشن ہوئے، نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن گئے، جمہوری اور انتخابی عمل سے گزر کر۔ سوا برس بعد ہی انہیں ایک دھرنے کا سامنا تھا، پراسرار دھرنا۔ ایسا دھرنا پہلے پہل جس کی وجہ وزیر اعظم کو سمجھ آئی، نہ کسی اور کو۔ ذرا سی گرد بیٹھی، تو وزیر اعظم کو پتہ چلا ”یہ تو وہی جگہ ہے، گزرے تھے ہم جہاں سے‘‘۔ اللہ اللہ کر کے دھرنے سے جان چھوٹی، اقتدار بچ گیا لیکن اختیار چھن گیا، کم سے کم آدھا اختیار۔ منظم دھاندلی کے الزامات رد ہوئے، حکومت کو مگر سُکھ کا سانس نصیب نہ ہوا۔ عمران خان کے جلسوں پر جلسے حکومتی ایوانوں پر آسیب کا سایہ بن کر لہراتے رہے۔ پراسرار دھرنوں کی بات الگ، جلسے کرنا لیکن عمران خان کا جمہوری حق تھا۔ اسی دوران شیخ رشید کو نِت نئے الہام ہوتے رہے، پورے وثوق سے وہ حکومت کی رخصتی کی تاریخیں دیتے رہے، ہر تاریخ پر نئی تاریخ لیکن پرانے اعتماد کے ساتھ۔ آدھے اختیار والی حکومت گری تو نہیں لیکن ہر وقت لڑکھڑاتی اور ڈگمگاتی ضرور رہی۔ رہی سہی کسر اکتوبر 2016 میں ”ڈان لیکس‘‘ نے نکال دی۔ ہر طرف غدار غدار کی صدائیں بلند ہونا شروع ہو گئیں۔ بلائیں ٹالنے کے لیے وزیر اعظم ”صدقہ‘‘ دینے پر مجبور ہوئے، پرویز رشید کی قربانی ہوئی اور وزیر اعظم ایک ایک دن گننے لگے، اکتوبر سے نومبر تک کے۔ نومبر 2016 میں جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ تک، حکومت کی سانسیں ڈوبتی اور ابھرتی رہیں۔ نومبر کے بعد راوی چین ہی چین لکھے گا، وزیر اعظم نے یقینا یہ سوچا ہو گا، تقدیر میں مگر کچھ اور ہی لکھا تھا ”اِک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو، میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا‘‘۔ وزیر اعظم کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ پاناما لیکس کا معاملہ تو اپریل 2016 سے ہی چل رہا تھا، نومبر کے آغاز پر مگر عمران خان نے اسلام آباد لاک ڈائون کا فیصلہ کر لیا۔ صورت حال بگڑی تو سپریم کورٹ بیچ میں آ گئی، پھر پاناما کیس کی سماعت شروع ہوئی، بات اخباروں میں پکوڑے بکنے سے ہوتی ہوئی گاڈ فادر کے حوالوں تک جا پہنچی۔ وزیر اعظم اب صحافیوں کو اکثر یہ شعر سناتے ہیں ”عمر دراز مانگ کے لائی تھی چار دن، دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں‘‘۔ بہرحال عدالتی فیصلے میں وزیر اعظم کی کرسی بچ گئی، ساکھ مگر دائو پر لگ گئی۔
وزیر اعظم کی ساکھ اب جے آئی ٹی کے رحم و کرم پر ہے، وہ جے آئی ٹی جس کے دو ارکان پر حکومت نے اعتراضات اٹھائے، ان کی مبینہ سیاسی اور ذاتی وابستگیوں کی بنیاد پر۔ ان ارکان کو رضاکارانہ طور پر الگ ہو جانا چاہیے تھا، ایسا اعتراض کسی معزز جج پر بھی ہو تو وہ بینچ سے الگ ہو جاتا ہے، یہ آئینی ماہرین کی رائے ہے۔ واٹس ایپ کالز کی ضرورت کیوں پیش آئی، اب تک یہ بھی واضح نہیں ہو سکا۔ جمہوری معاشروں میں حکمرانوں کا احتساب اعلیٰ ترین روایت سمجھی جاتی ہے، پاکستان میں اگر یہ عمل ہو رہا ہے تو کوئی جمہوریت پسند اس کی مخالفت نہیں کر سکتا، احتساب کے اس عمل کو مگر مکمل شفاف بنانا بھی ازحد ضروری ہے۔ اس طرح کوئی مظلومیت کا تاثر بھی نہیں دے سکتا، یہ تاثر اگر سچ لگنے لگے تو سیاسی رہنما دیوتا بن جاتے ہیں۔ حسین نواز کی تصویر لیک ہونے پر مسلم لیگ ن نے جے آئی ٹی پر الزامات لگائے، وہ ایک سیاسی جماعت ہے جبکہ جے آئی ٹی ایک تحقیقاتی ٹیم ہے، جے آئی ٹی کا کام اِس الزام کا جواب دینا تھا، جوابی الزامات لگانا نہیں۔ حسین نواز کی جگہ کوئی بھی ہوتا، اس معاملے کو عدالت میں اٹھانا اُس کا قانونی حق تھا۔ جے آئی ٹی نے اس معاملے پر جو رپورٹ جمع کرائی‘ وہ بہت سوں کے لیے حیران کن تھی۔ اس رپورٹ کے دو حصے تھے، ایک حصے میں بتایا گیا کہ تصویر کیسے لیک ہوئی، دوسرے حصے میں کہا گیا کہ تصویر کی تحقیقات کا معاملہ اٹھانا ہی بدنیتی ہے، اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لے جانا بھی جے آئی ٹی کے خلاف سازش ہے۔ اس رپورٹ سے بظاہر یہ تاثر ملا کہ جے آئی ٹی اس معاملے میں فریق بن چکی۔ جے آئی ٹی کے کام میں حکومتی ادارے کیا رکاوٹیں ڈال رہے ہیں، یہ ایک الگ معاملہ تھا، اس پر سپریم کورٹ میں الگ درخواست دائر کی جا چکی، حکومتی اداروں کا کام اس کا جواب دینا ہے۔
پاناما لیکس کسی کی سازش نہیں تھی، سو فیصد درست۔ عمران خان نے اسے سیاسی ہتھیار بنایا، یہ ان کا حق بھی تھا۔ اس معاملے کو ہر صورت منطقی انجام تک پہنچانا ہو گا۔ ہاں کسی فیصلے سے پہلے ایک بات طے کرنا ازحد ضروری ہے، کیا یہ معاملہ قومی خزانے کی لوٹ مار کا ہے؟ یا بقول وزیر اعظم ذاتی کاروبار کو الجھانے کا؟ یا ”منی ٹریل‘‘ کے نہ ملنے والے چند تانوں بانوں کا؟ یا صرف انٹرویوز اور تقاریر میں تضادات کی بنیاد پر منی ٹریل کو مشکوک قرار دینے کا؟ اگر ایسا ہے تو اسی طرح کے معاملات میں دیگر کتنے پارٹی سربراہان گھر جا سکتے ہیں؟ کیا جے آئی ٹی صرف دو ماہ میں واضح رپورٹ تیار کر سکتی ہے؟ بجا کہ وزیر اعظم اگر بدعنوان ثابت ہو جائیں تو انہیں بلاتاخیر رخصت کرنا چاہیے، سوال مگر کچھ اور بھی ہیں۔ کیا ایک مبہم رپورٹ پر، ایک منتخب وزیر اعظم کو، انتخابات سے محض چند ماہ پہلے رخصت کرنا مناسب ہو گا؟ کیا اس طرح کے کسی فیصلے کا بوجھ اٹھانا آسان ہو گا؟ فی الحال یہ فیصلہ شاید تاریخی لگے، آنے والے وقت کا فیصلہ مگرکچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔

کالم عمار چودھری. نوشتہ دیوار تو پڑھ لیں