منتخب کردہ کالم

جے آئی ٹی اور کراچی الیکشن۔۔رئوف طاہر (جمہور نامہ)

پیر 10 جولائی کی سہ پہر، جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، اندرون و بیرون ملک کروڑوں آنکھیں اور کان ٹی وی چینلز پر لگے ہوئے ہیں۔ جے آئی ٹی کی 60 روزہ کد و کاوش کا ماحصل 2 کارٹنوں میں سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے۔

2 دن قبل وفاقی کابینہ کے چار ارکان نے ایک پریس کانفرنس میں صاف صاف کہہ دیا تھا، قطر کے سابق وزیر اعظم حماد بن جاسم کے ”بیان‘‘ کے بغیر جے آئی ٹی کی رپورٹ نامکمل ہو گی۔ وفاقی وزرا کے اس موقف میں بڑی جان تھی کہ حماد بن جاسم لندن فلیٹس کے لیے منی ٹریل کے سلسلے کی اہم ترین کڑی تھے، وہ دوحہ میں اپنے محل میں جے آئی ٹی کے خیرمقدم کے لیے تیار تھے، وہ اس کے لیے اپنا طیارہ بھجوانے کی پیشکش بھی کر چکے تھے، ویزوں کا بھی کوئی مسئلہ نہ ہوتا کہ یہ دوحہ ائیر پورٹ پر سٹیمپ ہو جاتے۔ وہ جے آئی ٹی کے ہر سوال کا جواب دینے اور اس کے لیے تمام ضروری دستاویزات فراہم کرنے کا اعلان بھی کر چکے تھے۔ پھر اس سے گریز کیوں کیا گیا؟ کہنے والوں نے تو یہ بھی کہا کہ جب منی ٹریل معاملے کا بنیادی انحصار قطری شہزادے پر تھا تو جے آئی ٹی کو تفتیش و تحقیق کے کارِ خیر کا آغاز ہی اس سے کرنا چاہئے تھا، اس صورت میں شاید حسین اور حسن کو بار بار طلب کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی، اور ان کی ایک آدھ پیشی ہی کافی ہوتی، لیکن جے آئی ٹی تو ”حدیبیہ‘‘ اور چودھری شوگر ملز سمیت دوسرے کاموں میں الجھ گئی تھی۔
5 جولائی کو مریم نواز کی میڈیا سے گفتگو کے بعد چار سینئر وزرا کی یہ پریس کانفرنس دوسرا موقع تھا جس نے عام آدمی کو بھی متاثر کیا۔ البتہ ایک بات تھی جو ہم جیسوں کو محسوس ہوئی۔ ان چاروں وزرا کا تعلق پنجاب سے تھا اور وہ بھی وسطی اور شمالی پنجاب سے۔ خواجہ سعد رفیق لاہور سے، خواجہ محمد آصف سیالکوٹ سے، احسن اقبال نارووال سے اور شاہد خاقان عباسی مری سے۔ باقی تینوں صوبوں سے بھی ایک، ایک وزیر کی موجودگی سے یہ موقف اور یہ ردعمل ملک گیر ہو جاتا۔ لیکن شاید وقت کی کمی کے باعث یہ ممکن نہ ہو سکا، ورنہ کے پی کے سے سردار محمد یوسف، بلوچستان سے جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ اور سندھ سے غلام مرتضیٰ جتوئی کے ذریعے ان صوبوں کی نمائندگی کا اہتمام ہو سکتا تھا۔
کراچی میں سندھ اسمبلی کے حلقہ 114 کا ضمنی انتخاب بھی سیاسی و صحافی حلقوں کے لیے دلچسپی کا باعث تھا۔ مئی 2013 کے عام انتخابات میں یہ نشست مسلم لیگ (ن) کے عرفان اللہ مروت نے جیتی تھی، جس کے خلاف ایم کیو ایم کے رئوف صدیقی الیکشن ٹربیونل میں چلے گئے‘ جس نے پٹیشنر کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اس پر عرفان اللہ مروت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، جس نے 11 مئی کے الیکشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے یہاں نئے الیکشن کا حکم جاری کر دیا۔ عرفان اللہ مروت ہمیشہ ایک مضبوط امیدوار رہے تھے۔ وہ دو تین بار سے نشست جیت چکے تھے۔ کچھ عرصہ قبل مسلم لیگ (ن) اور عرفان اللہ مروت میں فاصلے پیدا ہو گئے تو انہوں نے پیپلز پارٹی سے رسم و راہ بڑھائی۔ زرداری سے ملاقات کی تصویر بھی میڈیا کو جاری کر دی گئی۔ ایجاب و قبول کا رسمی اعلان باقی تھا کہ بختاور اور آصفہ کے سخت ٹویٹ نے راستہ روک دیا۔ (جام صادق علی کی وزارتِ اعلیٰٰ کے دور میں ، بے نظیر بھٹو صاحبہ کی دوست وینا حیات اپنے ساتھ زیادتی کا ذمہ دار عرفان اللہ مروت کو قرار دے چکی تھیں۔) پی ایس 114 میں ضمنی انتخابات کی مہم شروع ہوئی تو تحریک انصاف کی قیادت کی درخواست پر عرفان اللہ مروت نے پی ٹی آئی کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ پیپلز پارٹی نے سینیٹر سعید غنی کو میدان میں اتارا تھا۔ ان کے والد مزدور رہنما کے طور پر نیک نامی کما چکے تھے، اور سعید نے بھی والد کے سیاسی اثاثے کی خوب حفاظت کی تھی۔ وہ اس ضمنی انتخاب میں واحد امیدوار تھے‘ جو اسی حلقے کے رہائشی تھے۔ سینیٹ کا رکن ہوتے ہوئے بھی انہوں نے یہاں کے عام آدمی سے ربط و ضبط برقرار رکھا تھا۔ صوبے کی حکمران جماعت کے امیدوار کی حیثیت میں انہیں سرکاری اثر و رسوخ کا ایڈوانٹیج بھی تھا (اس سے ہماری مراد انتخابی دھاندلی ہرگز نہیں) 23 ہزار 840 ووٹوں کے ساتھ سعید غنی اس الیکشن میں کامیاب ٹھہرے۔ ایم کیو ایم کے لیے یہ بات اطمینان کا باعث تھی کہ لندن سے الطاف حسین کے بائیکاٹ کی اپیل کے باوجود ایم کیو ایم کا ووٹر گھر سے نکلا اور اس کا امیدوار 18 ہزار 106 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔ یہاں ”اصل مقابلہ‘‘ تیسری پوزیشن کے لیے مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصا ف کے درمیان ہوا‘ جس میں مسلم لیگ کے علی اکبر گجر نے پانچ ہزار 353 ووٹوں کے ساتھ تحریک انصاف کے نجیب ہارون کو 255 ووٹوں سے ”شکست‘‘ دے دی۔
یہاں یہ امر بھی دلچسپی کا باعث تھا کہ مسلم لیگ (ن ) کے علی اکبر گجر نے مسلم لیگی کارکنوں کے ساتھ یہ مہم ”تنِ تنہا ‘‘ چلائی، (انتخابی مہم کے آخری روز سینیٹر مشاہداللہ خاں اور سینیٹر سلیم ضیا، اس کی مدد کو پہنچے) جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار کی حمایت میں صوبائی حکومت کے علاوہ خود بلاول بھٹو بھی میدان میں اترے تھے۔ ایم کیو ایم کی مہم اس کی مرکزی قیادت (ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کے رفقا) چلا رہے تھے۔ پی ٹی آئی کے نجیب ہارون کی حمایت کے لیے خود عمران خان تشریف لائے۔ سب سے دلچسپ المیہ جماعت اسلامی کے ساتھ ہوا۔ کراچی پر کئی دہائیوں تک دائیں بازو کی جن تین جماعتوں کی چھاپ رہی، ان میں جماعت اسلامی بھی شامل تھی۔ اور اب وہ یہاں بھی زوال کی آخری حد تک پہنچ رہی ہے۔ یہاں اسے حافظ نعیم الرحمن جیسی متحرک قیادت بھی نصیب ہے۔ سید منور حسن عملی سیاست سے بہت حد تک کنارہ کش ہو چکے لیکن ان کا وجود اب بھی جماعت کے لیے باعثِ خیر و برکت ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کی زیر قیادت جماعت اسلامی کراچی میں عام آدمی کے مسائل کی سیاست بھی کر رہی ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور کمر توڑ بلوں کے خلاف جماعت کی مہم اس کا ثبوت ہے۔ لیکن لگتا ہے، کراچی جماعت اسلامی کے ہاتھ سے نکل چکا۔ گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں مایوس کن نتائج کے بعد، اب صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں صرف 1600 ووٹ؟ ہاں یاد آیا، جماعت کے درویش صفت اور سادہ دل امیر جناب سراج الحق بھی تو اس انتخابی مہم میں بنفسِ نفیس شریک ہوئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ جماعت کی ”نوجوان نسل‘‘، تحریک انصاف کو پیاری ہوئی۔ عارف علوی کی طرح نجیب ہارون بھی اپنے دورِ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ رہے۔ اپنے عہدِ شباب میں ”اسلامی انقلاب‘‘ خواب دیکھنے والوں میں سے بیشتر اب عمران خان کی ”تبدیلی‘‘ کے سپاہی بن گئے ہیں۔ لاہور میں اعجاز چودھری اور محمودالرشید کو دیکھ لیجئے۔ جناب سراج لحق اب کرپشن کے خلاف مورچہ زن ہیں، لیکن اس میں بھی Beneficiary عمران خان ہو گا۔ ہمارے سراج الحق صاحب اور ان کی جماعت کے ہاتھ کیا جائے گا؟
کراچی پر کئی دہائیوں تک دائیں بازو کی جن تین جماعتوں کی چھاپ رہی، ان میں جماعت اسلامی بھی شامل تھی۔ اور اب وہ یہاں بھی زوال کی آخری حد تک پہنچ رہی ہے۔ یہاں اسے حافظ نعیم الرحمن جیسی متحرک قیادت بھی نصیب ہے۔ سید منور حسن عملی سیاست سے بہت حد تک کنارہ کش ہو چکے لیکن ان کا وجود اب بھی جماعت کے لیے باعثِ خیر و برکت ہے۔