حضورﷺکی حکمرانی اور جمہوری حکمرانی…..امیر حمزہ
حضرت محمدﷺ مدینہ منورہ کی ریاست کے حکمران ہیں۔ آپ کی زندگی انتہا درجے پر سادگی سے گزر رہی تھی۔ بعض اوقات کئی کئی دن چولہے کے نیچے آگ بھی نہیں جلتی تھی۔ کھجور‘ پانی اور بکری کے دودھ پر ہی گزارہ چلتا تھا۔ ازواج ِمطہراتؓ اپنے عظیم شوہر کا پورا پورا ساتھ دے رہی تھیں‘ پھر ایسا ہوا کہ فتوحات کی صورت میں مدینہ منورہ نعمتوں اور خوشحالیوں سے آراستہ ہونا شروع ہو گیا۔ حضورﷺ کے ہاتھ مبارک سے مال و دولت اہل مدینہ کو تقسیم ہو رہا تھا۔ صرف گزارے کے لائق گھر والوں کو بھی مل رہا تھا۔ معاملہ ایسا تھا کہ رعایا کے گھروں میں خوشحالی زیادہ تھی‘ جبکہ حکمران کے گھروں میں رعایا کی نسبت بہت کم یا معمولی فرق پڑا تھا۔ مومنوں کی روحانی مائوں نے جب یہ صورت دیکھی تو انہوں نے معاشی خوشحالی کا مطالبہ کر دیا۔ ازواج مطہراتؓ کا یہ مطالبہ اللہ کے رسولﷺ کو ناگوار گزرا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے مزاج کی ناگواری دیکھی‘ تو آسمان سے قرآن نازل فرمایا :”اے میرے نبیؐ! اپنی بیویوں کو بتا دو‘ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کی طلبگار ہو تو پھر میرے پاس آ جائو‘ میں تمہیں دنیا کا سازوسامان دے دیتا ہوں اور پھر تمہیں بہت ہی اچھے طریقے سے رخصت کر دیتا ہوں اور اگر تم اللہ اور اس کے رسولؐ اور آخرت کے محلات چاہتی ہو تو اللہ تعالیٰ نے تم میں سے نیک کام کرنے والیوں کے لئے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے‘‘ (احزاب:28,29)۔
اب اللہ کے رسولﷺ نے اپنی تمام ازواج مطہرات سے علیحدگی اختیار کر کے ایک الگ تھلگ بالاخانے میں رہائش اختیار کر لی‘ تاکہ جو بی بی دنیا کا مال حاصل کرنا چاہتی ہے‘ وہ آئے اور رخصت ہو جائے۔ آپ جس کمرے میں تشریف فرما تھے‘ وہاں دروازے پر غالباً حضرت بلالؓ تشریف فرما ہو کر بیٹھ گئے۔ رعایا میں مشہور ہو گیا کہ ان کے محبوب حکمران نے مالی خوشحالی کا مطالبہ کرنے پر اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ حضرت عمرؓ نے یہ سنا تو حضورؐ کے پاس حاضر ہونے کو دربان کے پاس آئے اور اجازت طلب کی۔ اجازت نہ ملی۔ دوسری بار آئے‘ پھر اجازت نہ ملی‘ تیسری بار آئے تو اندر بلا لیا گیا۔ اب اندر کا منظر حضرت عمرؓ جو بیان کرتے ہیں‘ وہ یہ تھا کہ ایک کونے میں پانی کا مشکیزہ تھا‘ ایک کونے میں صاف اور رنگی ہوئی کھال لٹک رہی تھی۔ حضورﷺ کھجور کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ کھجور کے پتوں کی بھرائی کا تکیہ تھا کہ حضورﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے اور تکیے کے ساتھ ٹیک لگا لی۔ آپ کے بدن مبارک کا پہلو ننگا تھا اور اس پر کھجور کی چٹائی کے نشانات تھے۔ حضرت عمرؓ نے یہ منظر دیکھا ‘تو رو پڑے۔ حضورﷺ نے پوچھا: اے خطاب کے بیٹے! روتے کیوں ہو؟ عرض کیا: اللہ کے باغی حکمران نہروں‘ محلوں اور خوشحالیوں میں ہیں اور آپ‘ اللہ کے محبوب ہیں‘ مگر آپ کا یہ حال دیکھ کر رو دیا ہوں۔ آپ نے فرمایا: عمر! یہ کیسی باتیں کرنے لگ گئے ہو‘ کیا تمہیں اس بات پر شک ہے کہ ان کو تمام لذتیں اسی دنیا میں دی گئی ہیں‘ جبکہ تمہارے لئے آخرت ہے۔ حضرت عمرؓ عرض کرنے لگے:غلطی ہو گئی‘ اے اللہ کے رسولﷺ! میرے لئے اللہ سے بخشش کی درخواست فرما دیجئے۔
مندرجہ بالا محض ایک واقعہ ہے جو بتلاتا ہے کہ حکمران اور حکمرانی ہو تو حضورﷺجیسی ہو۔اب ایک دوسرا منظر ملاحظہ ہو‘ صحابہؓ موجود ہیں‘ مجلس میں ان کے حکمران سرکارِ مدینہ بھی تشریف فرما ہیں۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ حضورﷺ کی معاشی تنگی پر گفتگو ہوئی ہے۔ قدرے نعمتوں کو اختیار کرنے پر کوئی بات ہوئی ہے تو حضورﷺ نے فوراً فرمایا: ”میں کس طرح خوشحال رہ کر زندگی گزاروں‘ صورتحال یہ ہے کہ قیامت کا صور پھونکنے والے فرشتے نے صور کو منہ میں لیا ہوا ہے۔ وہ کان لگائے ہوئے ہے‘ ماتھا جھکائے ہوئے منتظر کھڑا ہے کہ جونہی اسے پھونک مارنے کا حکم ملے تو وہ (ایک سیکنڈ کے کھربویں حصے کی تاخیر کے بغیر) پھونک مار دے (اور ساتوں آسمانوں اور زمینوں کو اڑا دے‘ جب صورتحال ایسی ہو تو میں( محمد) کس طرح خوشحالیوں کے اہتمام میں زندگی گزاروں؟‘‘۔ حضرت ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ صحابہ نے حضورﷺ کا فرمان سنا تو ایک بوجھ تلے دب کر (دبک کر خاموش) بیٹھ گئے۔ حضورﷺ نے فرمایا: ”یوں کہا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کافی ہیں‘ وہ کیا اچھے وکیل ہیں۔ اللہ ہی پر ہمارا بھروسہ ہے‘‘ (ترمذی: صحیح:2431)۔
لوگو! یہ ہے میرے حضورﷺ کا ویژن اور طرزِ زندگی۔ اپنے انداز زندگی میں بے مثال۔ ایسے ہی سرکار مدینہ جب اس دنیا کو چھوڑ کر اپنے مولا کریمﷺ کے پاس فردوس میں تشریف لے جاتے ہیں ‘تو اپنا کوئی جانشین مقرر نہیں کرتے‘ نہ اپنے گھرانے سے‘ نہ اپنے خاندان سے‘ نہ اپنے قبیلے سے۔ اک انقلاب کی بنا پڑی کہ ساڑھے چودہ سو سال پہلے وراثت کی حامل بادشاہتوں کی دنیا میں ایک بوریا نشین ایسے حکمران آئے کہ حکمرانی کا انتخاب امت پر چھوڑ دیا۔اے اہلِ پاکستان! آج ہم بھی اس انتخاب کے ایام سے گزر رہے ہیں۔ ہم نے پاکستان کی 70سالہ تاریخ میں آمریتیں جمہوری لپائی کے ساتھ بھی دیکھیں اور عوامی جمہوریتیں کرپشن کی ڈھٹائی کے ساتھ بھی دیکھیں‘ لیکن قائداعظم اور قائد ملت کی سادگی اور سچائی کے بعد ہمیں پورا سچ تو کیا ملتا‘ ہمیں آدھا سچ بھی نہ مل سکا۔ ہمیں آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن نہیں مل سکا۔ ہمیں تھانوں اور عدالتوں سے عدل نہیں مل سکا۔ ہسپتالوں سے شفاف علاج نہیں مل سکا۔ تعلیم گاہوں سے علم کا سستا زیور نہیں مل سکا۔ موروثیت سے پاک ہمیں کوئی سیاسی ادارہ نہیں مل سکا۔ کرپشن کے کاک پٹ سے ہمارے حکمران نازل ہوتے رہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ دنیا میں کرپشن‘ یعنی لوٹ مار میں پاکستان کا نمبر 170کے قریب پہنچنے کو ہے‘ جس ملک میں کرپشن زیرو ہے‘ وہ 57مسلمان ملکوں میں سے ایک بھی نہیں ۔ کہا کہوں… جس پاک و مطہر و اطہر ہستی حضرت محمد ﷺ کا میں نے تذکرہ کیا‘ ان کا کلمہ پڑھنے والے 57حکمرانوں میں سے کسی ایک کی حکمرانی بھی ایسی نہیں جو زیرو نہ سہی ‘دس بارہ نمبر ہی ہوتی۔ آہ! ایک بھی نہیں‘ کرپشن میں زیرو ملک ہے‘ تو ڈنمارک ہے۔ جرائم کے اعتبار سے دنیا میں ناروے ایسا ملک ہے‘ جہاں میرے پیارے دوست ڈاکٹر اجمل نیازی اپنے وزٹ کے بعد بتلاتے ہیں کہ وزیر داخلہ بتلا رہی تھیں‘ پچھلے کئی سال سے ہمارے تھانوں میں جرم کی رپورٹ ہی درج نہیں ہوئی۔ آہ! ہمارے حکمران دُہری شہریتوں کے ساتھ برطانیہ اور دیگر یورپی ملکوں میں رہائش رکھتے ہیں‘ مگر نہ ان جیسا الیکشن کمیشن بناتے ہیں‘ نہ جمہوری برداشت پیدا کرتے ہیں‘ نہ عدالتوں میں عدل لاتے ہیں نہ موروثیت کو چھوڑتے ہیں‘ نہ تعلیمی ادارے بنا کر ہر امیر غریب کے لئے یکساں تعلیمی نظام بناتے ہیں۔ جی ہاں! یورپ والوں نے مندرجہ بالا رویے میرے حضورﷺ سے لئے ہیں۔ خلفائے راشدین سے لئے ہیں۔ وہ دنیا میں ترقی یافتہ بن گئے۔ ہم نے نہ اپنا اسلام اپنایا‘ نہ ہی مہذب ملکوں کے جمہوری رویے اپنائے۔ بس ہر کوئی اپنا مفاداتی اُلّو سیدھا کر رہا ہے۔ نظام اور اداروں کی اصلاح کہیں نظر نہیں آتی۔ کیا اس طرح ہم ترقی یافتہ بنیں گے؟ میں صوبہ خیبر میں گیا‘ تو لوگوں نے بتلایا کہ پی ٹی آئی نے صوبے میں پولیس‘ ہسپتال اور تعلیمی نظام کے اداروں کو قدرے بہتر کیا ہے ‘مگر جناب! پانچ سال کا وقت تھا‘ مثالی کام کا تقاضا پورا نہیں ہوا۔
یا اللہ! ہم سب کو ہدایت دے۔ اپنے پیارے رسولﷺ کے راستے پر چلا کر پاکستان اور اہل ِپاکستان کی خیر کر دے۔ (آمین)