حضور… کہاں ہیں وہ ذرائع اور ثبوت؟ …(2 )…بابر اعوان
اسی عنوان کے گزشتہ کالم کی اشاعت میں دو پیراگراف ایسے گڈ مڈ ہوئے جیسے دو ریڈیو سٹیشن اکٹھے بول پڑے ہوں۔ ایک پر، انڈہ فرائی کرنے کا طریقہ دوسرے پر باڈی بلڈنگ ٹِپس۔ لطیفہ چھوڑ دیتے ہیں‘ بہت پرانا ہے۔ ایسی ہی گڈ مڈ جمعرات کے دن نااہل نواز کرپشن کیس کی ٹرائل کورٹ کے باہر ہوئی۔ وی وی آئی پی ملزم کے لیے سرکاری خرچ پر جو درباری حصار بنایا گیا اُس میں پھنکارنے والا سانپ بھی شامل تھا۔ زہریلا یا شوں شاں المعروف شو بازی کا عادی۔ پھنیئر یا پالتو، لوکل یا انڈین، دودھ پلانے والوں کوکاٹنے کا شوقین یا کرائے کا ٹٹو ٹائپ‘ جو صرف مداری کے ہاتھ میں سجتا ہے۔ رپورٹر اس پر خاموش ہیں۔ کل شام اسلام آبادی کورٹ رپورٹروں کے ساتھ افطار ڈنر پر لمبی نشست رہی۔ اکثر مہمانوں کا خیال تھا‘ یہ سانپ مقامی نہیں۔ ایک بات سب نے کہی‘ آخر کار سانپ کا سر کچل دیا گیا۔ پنجابی کے عارف شاعر نے البتہ سانپ کا تعارف یوںکروایا:
سپّاں دے پُت مِتر نہ بنڑدے
بھاویں ہتھیں دُدھ پیائیے…
پانامہ کیس کا وقوعہ نمبر 9: کرپشن کیس شروع ہوا۔ فردِ جرم لگی‘ عدالت نے پوچھا: پیسے کہاں سے کمائے، کس منی ٹریل سے لندن پہنچائے۔ جواب آیا: بے گناہ ہوں۔ نہ پیسوں کی کمائی کا ذریعہ بتایا نہ کسی منی ٹریل کی نشاندہی کی۔ ملکیت کی دعوے داری نئے ملبوسات اور کورٹ روم کے باہر ریمپ پر فن کاری تک محدود رہی۔ ہاں البتہ پبلک ریکارڈ کے لیے نا اہل شریف کی ویڈیو سوشل میڈیا کا طواف کر رہی ہے۔ فرمایا گیا ”میرے اثاثے آمدن سے زیادہ ہیں تو تمہیں کیا…؟‘‘ یعنی چوری ہے سینہ زوری کے ساتھ۔
وقوعہ نمبر10: مہینوں جاری رہا۔ بے شمار دستاویزات سمیت گواہیاں آئیں۔ بڑے ملزم نے من مرضی کے چند رپورٹرز سے سوالات کی سپاٹ فکسنگ کے ذریعے ہر روز ایک ہی دفاعی منترہ دہرایا ”ہم پھر سرخرو ہو گئے، آج پھر سرخرو ہو گئے۔ واجد ضیاء نے ہمارے مؤقف کی تصدیق کر دی ‘‘۔ کوئی پوچھے: اگر ایسا ہی ہے تو پھر روتے کیوںہو۔ کیا زیادتی ہو گئی؟۔
وقوعہ نمبر11: استغاثہ نے مکمل بارِ ثبوت ڈسچارج کیا۔ ملزموں کے بیان قلمبند ہونا شروع ہوئے۔ سوال و جواب کا احوال یہ رہا۔ آپ مارشل لاء کے وزیرِ خزانہ بنے۔ سی ایم پنجاب رہے۔ 3 بار پی ایم بھی۔ عوامی عہدے رکھے۔ کاروبار، نوکری، مزدوری، بزنس کچھ نہ کیا۔ پھر بھی کروڑوں آپ کے اکائونٹس میں کیسے آئے؟
جواب دیا: میرے بچے انگریزی شہری ہیں‘ ان پر پاکستان کا قانون لاگو نہیں ہوتا‘ انھوں نے تحفے میں کروڑوں روپے دیے‘ اس لیے یہ سوال حسن، حسین سے متعلقہ ہے نواز شریف سے نہیں۔ اگلا سوال آیا: ذرائع آمدن کا سورس بتا دیں۔ نا اہل نواز نے جواب دیا: ابا جی سے ”خرچی‘‘ ملتی تھی‘ جس گُلک میں خرچی جمع کر رکھی تھی‘ وہ جدہ کے سفر کے دوران ٹوٹ گئی۔ یہ سارا قصور جنرل مشرف کا ہے‘ جس نے 10 سال والے معافی نامے پر میرے دستخط کٹ اینڈ پیسٹ کرکے ڈال دیے‘ ورنہ نواز شریف معافی نہیں مانگ سکتا‘ نہ جھک سکتا ہے۔ اٹک قلعے میں کچھ ایسا پلایا گیا جس سے لمبی پُرسکون مدہوشی طاری ہو گئی۔ معلوم نہیں کس نے ہمیں آلِ سعود کے سرور پیلس جدہ پہنچا دیا۔ 7/8 سال بعد جونہی ہوش آیا میں دوڑا، دوڑا پاکستان واپس لوٹ آیا۔ یہ سب خلائی مخلوق نے کیا ہے۔ آپ چاہیں تو ماڈل ٹائون باقر نجفی جیسا کمیشن نہیں بلکہ سیف الرحمن احتساب کمیشن جیسا اصل تے وڈا سچ مچ کمیشن بنا دیں۔ پھر جونہی خلا سے مخلوق طلب ہو‘ اس سے پوچھ لیں۔ نواز شریف جھوٹ نہیں بول سکتا۔ گردن جھکا کر نہ جنرل جیلانی کی نوکری کی‘ نہ ہی جنرل ضیا کے پیچھے گردن جھکا کے کھڑا ہوا۔ تاریخ گواہ ہے‘ میں نے ہمیشہ ان دونوں کے بوٹوں پر سے کبھی نگاہ اوپر نہ اٹھائی۔ نواز شریف تو بھاگ نہیں سکتا۔ اٹک سے جدہ کا سفر کھلی اغوا کاری ہے۔ اس پر سچی مچی کا ویسا کمیشن بنا دیں جیسا میں نے جھوٹ موٹ کا ڈان لیکس پر بنایا تھا‘ جس کے بعد میں نے مخولیہ طور پر 2 وزیر،1 بیوروکریٹ اور ایک مشیر نکال دیا‘ حالانکہ مشیرِ عام کی خاص قومی ڈیوٹی یہ تھی کہ دوپہر و رات چیف ایگزیکٹو آف پاکستان کے لنچ ڈنر پر ساگ گوشت پکا کر لائے۔ تازہ‘ آرگینک۔ اب ترقی رک گئی۔
وقوعہ نمبر12: ایک طرف کورٹ کے سوال چلتے رہے دوسری جانب پانامہ کیس کے بڑے ملزم کی یادداشت چلنے سے انکاری تھی۔ ہر سوال کا جواب: مجھے یاد نہیں‘ کچھ پتہ نہیں‘ یہ سوال مجھ سے نہ پوچھا جائے۔ اسی دوران مقدمے کی کارروائی کوّر کرنے والے رپورٹرز کا گروپ ملنے آیا۔ پوچھنے لگے: نواز کی یادداشت کو کیا ہوا۔ میں نے از راہِ مذاق کہا: یادداشت جلد بحال ہونے والی ہے۔24 گھنٹے بعد نواز شریف کی آدھی یادداشت لوٹ آئی۔
وقوعہ نمبر13: نا اہل نواز کو منی ٹریل تو یاد نہ آیا‘ ممبئی حملے یاد آ گئے‘ ان کا ٹرائل بھی یاد آ گیا اور اجمل قصاب والی ساری واردات۔ یاد رہے یہ یادداشتیں تب بحال ہوئیں‘ جب ایک آن ڈیوٹی بھارتی صحافی نے جاتی امرا کے منڈیلا سے مُلاقات کی۔ دراصل یہ ملک دشمن بیان بازی‘ کمک مانگنے کے لیے ”مے ڈے‘‘ کال تھی۔
وقوعہ نمبر 14: نا اہل نواز کی مے ڈے کال نے سرحد پار کمک بٹالین کو ایکٹیو کر دیا؛ چنانچہ سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس کے گواہِ سلطانی سابق جرنیل اسد دّرانی کی کتاب آ گئی۔ مہنگی کتاب سوشل میڈیا میں ٹکے ٹوکری پھینکی گئی‘ جس میں آئی ایس آئی کی اہلیت بیان کرتے ہوئے پنشن خور نے نااہل شریف سے بڑا انکشاف کر ڈالا۔ ”ٹاپ پاکستانی سپائی ماسٹر پروموشن کے لیے پڑوسیوں کے چوکیدار سے پوچھتے ہیں‘‘۔ کمک بٹالین کا سرجیکل سٹرائیک نشانے پر لگا۔ نا اہل شریف کو ملک دشمن بیانیہ ”جاپنے ‘‘ پر قومی غم و غصے سے عبوری ریلیف مل گیا۔ تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آ گیا۔
وقوعہ نمبر 15: صاحبزادی کے بیان سے شروع ہوا، اور ٹرائل کورٹ کے 50ویں سوال کے آس پاس پہنچ کر سارے بیانیے کو لپیٹ لے گیا۔ جہاں عدالتی سوال کے جواب میں مریم صفدر نے اعتراف کر لیا‘ مئے فیئر فلیٹس بھائی کے تھے۔ سال 2016ء میں ملکیتی ٹرسٹ میں ڈیڈ کے ذریعے میں بھی مالک/ٹرسٹی بنی۔ اس جواب کے بعد مقدمے میں پہلا سوال پھر جواب طلب ہے۔ رقم کدھر سے کمائی، لندن کیسے لے جائی گئی اور جائیداد کس طرح بنائی۔ پاکستان میں ”living beyond means‘‘ کا قانون مشرف نے نہیں بنایا۔ انسدادِ رشوت ستانی ایکٹ مجریہ 1947ء میں پہلی مرتبہ آمدنی کے قانونی ذرائع سے زیادہ عیاشی والی زندگی کو کرپشن کے زمرے میں شامل کیا گیا تھا‘ حتیٰ کہ ملزم ذرائع آمدن اور منی ٹریل ثابت کر دے۔ آج 28 مئی کا دن ہے۔ آئیے انتظار کرتے ہیں، کمک بٹالین کے لیے نااہل نواز شریف ایٹمی پروگرام کے حوالے سے تشکر کی کون سی پرشاد بھجواتا ہے۔ نا اہل نواز کے سٹائلش ٹرائل میں صرف 3 دن بچے ہیں۔ 31 مئی رات 12 بجے پنجاب کے کارِ خاص والے، کمانڈوز، ایلیٹ، وزارتِ داخلہ کے انتظامات حکومت کے ساتھ ہی ہوا میں تحلیل ہو جائیں گے۔
یکم جون کا نیا سورج پنجاب سرکار کی 11 سرکاری کمپنیوں میں 166 ارب روپے کی کرپشن کا شملہ پہن کر طلوع ہو گا۔ اسی لیے وڈے بھاء جی والے انجام سے بچنے کے لیے 4 دن کے خادمِ اعلیٰ نے تنکے کا سہارا لیا۔ چہار روزہ خادمِ اعلیٰ بولا: نیب قانونی ادارہ ہے جسے چاہے بلا سکتا ہے‘ قانون کے آگے سر جھکانا ہو گا۔ یہ بیان نون لیگ کے صدر نے دیا۔ نون لیگ کا رہبرِ اعلیٰ کہتا ہے: احتساب کے قومی ادارے کو نہیں مانتا۔ خوش بخت ہیں گنگا، جمنا کے واسی‘ جن کی ہر بات کو نااہل نواز کا بیانیہ اتفاقی طور پر سپورٹ کرتا ہے۔ ہماری آزادی کی سب سے بڑی علامت پاک بھارت بین الاقوامی بارڈر کو عارضی لکیر کا نام دینے والی آشیرباد تک۔
اسی لیے دُکھی دل پاکستانی عدالت کے اندر اور باہر پوچھ رہے ہیں۔ حضور… کہاں ہیں وہ ذرائع اور ثبوت؟
شِری کرشن کی تعلیم سے ادب سیکھو
دُکھی دلوں کو زیادہ دُکھا کے، کیا لو گے؟
دیارِ رام میں راون کی پیروی بھی درست
متاعِ عصمتِ سیتا چُرا کے، کیا لو گے؟
کسی طریق سے یہ دن گزر ہی جائیں گے
مگر جہاں کو تماشا دکھا کے، کیا لو گے؟
سنو، سنو کوئی آواز دے رہا ہے تمہیں
یہ قصرِ دانش و حکمت جلا کے، کیا لو گے؟