منتخب کردہ کالم

حلقہ 120بمقابلہ حکومتی مشینری۔۔۔ کالم | طیبہ ضیاءچیمہ

حلقہ 120بمقابلہ حکومتی مشینری۔۔۔ کالم | طیبہ ضیاءچیمہ
ڈاکٹر یاسمین راشد تحریک انصاف کی سیٹ سے حلقہ 120 سے ضمنی الیکشن کے لئے نامزد ہوئیں۔ تکڑی خاتون ہیں۔2013 کے الیکشن میں نواز شریف نے اس حلقہ سے 91 ہزار 683 ووٹ حاصل کیے تھے اور پی ٹی آئی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد 52 ہزار 354 ووٹ حاصل کر سکی تھیں۔ اس طرح نواز شریف 39 ہزار 329 ووٹوں کی لیڈ سے جیتے تھے۔ حالیہ ضمنی انتخاب سے کلثوم نواز کو جتوانا حکومت کے لئے چیلنج بنا ہوا ہے۔وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف ، حمزہ شہباز اور سلمان شہباز سمیت جتنے بھی لوگ ہیں ان کے مریم نواز یا کلثوم نواز سے اندر خانے اختلافات ہو سکتے ہےں لیکن یہ لوگ این اے 120 کے ضمنی انتخاب میں بیگم کلثوم نواز کو جتوانا چاہتے ہیں کیونکہ ان کو علم ہے کہ اگر این اے 120 میں بیگم کلثوم نواز کو شکست ہوئی تو سارا الزام اُن پر آ جائے گا، اس لیے این اے 120 سے بیگم کلثوم نواز کو جتوانا اُن کے لیے ضروری ہے۔
البتہ یہ بات درست ہے کہ مریم نواز این اے 120 کی مہم میں اپنے پسندیدہ لوگوں کے ذریعے آپریٹ کر رہی ہیں۔ اور ان پسندیدہ لوگوں کے علاوہ جو بھی لوگ مہم کا حصہ تھے یا تو وہ خود پیچھے ہو گئے ہیں یا انہیں پیچھے کر دیا گیا ہے۔ حمزہ شہباز اس اندر خانے کی بد مزگی اور بے اختیاری کی وجہ سے بیرون ملک گوشہ نشیں ہو گئے ہیں تاکہ تائی جان کی ہار جیت سے خود کو لا تعلق رکھ سکیں ۔ مسلم لیگ ن کے پرانے ساتھی اور رہنما بھی اس حقیقت سے متفق ہیں کہ مریم کو حمزہ پر فوقیت دینا میاں نواز شریف کا غیر دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ پندرہ بیس ہزار ووٹوںکے فرق کو کلثوم نواز کی ہار تصور کیا جائے گا۔ گوالمنڈی کے لوگوں میں خاصا شعور بیدار ہو چکا ہے۔ مریم کی اداروں سے کھلم کھلا لڑائی کو برین واش طبقہ کے علاوہ اکثریت نے مسترد کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے ارکان اسمبلی اور وزرا کے الیکشن مہم چلانے پر نوٹس لینے کے بعد مسلم لیگ ن نے این اے 120 کا الیکشن جیتنے کے لیے نت نئے طریقے ایجاد کرنے شروع کر دئیے۔
حلقے کی با اثر شخصیات سے حلفیہ وعدے لیے جانے لگے۔مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی مختلف برادریوں کے سر کردہ افراد کو اپنے ڈیروں پر بلا کر ووٹ حاصل کرنے کے لیے قائل کر رہے ہیں۔لاہور کے سابق لارڈ مئیر خواجہ حسان نے حلقہ کی مساجد کے امام صاحبان اور خطیب صاحبان کو بلوا کر ان سے انتخابی مہم چلانے کی درخواست کی ہے۔کہا جا رہا ہے وزیر اعلیٰ کی لند ن روانگی کے بعد ماڈل ٹاون آفس انتخابی دفتر بن کر رہ گیا ہے۔پولیس کے ذریعے سے بھی انتخابات پر اثر انداز ہونے ،کی کوشش کی جا رہی ہے۔گاما پہلوان کی نواسی کا تعلق گوالمنڈی کے معزز گھرانے سے ہے۔ گاما پہلوان شہرت کے باعث سیاستدانوں سے بھی تعلقات رکھتے تھے۔ سابق گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی کی اہلیہ کلثوم نواز کی رشتے دار تھیں۔ بھٹو دور حکومت میں میاں شریف مرحوم کی فیکٹری بھی حکومت نے قبضہ میں کر لی تو کلثوم نواز نے گورنر جیلانی سے سفارش کر کے سسر کی فیکٹری واپس دلائی۔ میاں شریف مرحوم کے گورنر جیلانی سے قریبی تعلقات بن گئے اور اپنے بڑے بیٹے نواز شریف کو سیاست میں انٹری دلانے میں میاں شریف مرحوم نے تعلقات کو بروقت استعمال کیا۔ جنرل ضیاالحق کو بھی سندھی پیپلز پارٹی کے مقابلہ میں پنجاب سے ایک جماعت بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ گورنر جیلانی نے میاں شریف کے بیٹے کو متعارف کرایا۔ یوں دو جرنیلوں کی شفقت سے مسلم لیگ کو ایک اور جماعت نصیب ہو ئی جو بعد میں نون کہلانے لگی۔ اتفاق فاﺅنڈری کی حیران کن ترقی نواز شریف کے سیاست میں قدم رنجہ فرمانے کے بعد تیزی سے ہوئی۔ لیکن اب یہ کاروباری ترقی کے معاملات پاناما سے اقامہ اور اقامہ سے مریم کی جانشینی تک پہنچ گئے ہیں۔ جرنیلوں کے احسان اپنی جگہ اور جرنیلوں سے مخالفت اپنی جگہ۔ نواز شریف کی اب جرنیلوں سے نہیں بنتی سوائے خوشامد پسندوں کے۔ سابق جنرل پرویز کیانی نواز شریف کے پسندیدہ آرمی چیف تھے۔
حلقہ 120 کے پرانے بھیدی بتاتے ہیں کہ کلثوم نواز کی آرا اور فیصلوں کو شریف خاندان میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ سسر کی فیکٹری واپس دلانے سے شوہر کو سیاست میں آگے لے جانے تک کلثوم نواز کا ہاتھ ہے۔ حکومتی معاملات میں بھی کلثوم نواز کی مردم شناسی کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ نواز شریف کی نا اہل سیٹ کو اہل بنانے کے لئے بھی کلثوم نواز کا انتخاب بھی در حقیقت کلثوم نواز کا ہی فیصلہ تھا ورنہ نواز شریف بھائی شہباز شریف کا نام لے چکے تھے جو انہیں الٹے پیروں واپس لیناپڑا۔ حلقہ 120 حکومتی مشینری بمقابلہ ایک عام شہری امیدوار، ڈاکٹر یاسمین راشد سے ہے۔ نہ اندھی دولت نہ حکومتی مشینری کا تعاون اور سہولت میسر۔ایک طرف نواز شریف کا کھمبا اور دوسری طرف ایک نئی آواز نیا عزم۔۔۔۔۔ روایتی سیاست بمقابلہ نئی سیاست۔۔۔۔حلقہ 120یقینا پنجاب کی تاریخ میں اہم کردار ادا کرے گا۔