خاتمہ بالخیر….ھارون الرشید
بزرگ کہا کرتے تھے: اللہ انجام بخیر کرے۔ شبلی نعمانی کے دو اشعار یہ ہیں:
عجم کی مدح کی، عباسیوں کی داستان لکھی
مجھے چندے مقیمِ آستانِ غیر ہونا تھا
مگر اب لکھ رہا ہوں سیرتِ پیغمبر خاتمؐ
خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا
کل کے کالم میں غلطیاں تو کئی ایک ہیں لیکن ایک تو فاش غلطی ”ایک گرد آلود زندگی ستارہ سی کیسے چمک اٹھتی ہے‘‘… ”زندگی‘‘ کا لفظ غائب۔ زندگی نہ رہی تو بچا کیا۔ کہا جاتا ہے کہ قلوپطرہ مری تو ایک کہرام برپا ہوا۔ لوگ دیکھنے گئے ۔ اس عہد کا ایک نامور فلسفی ان میں شامل تھا ، جس کا نام حافظے میں اس وقت ابھر نہیں رہا ۔ بعد میں کسی نے پوچھا : کیا وہ اتنی ہی خوبصورت تھی کہ شہسوار اس کے لیے جان دیتے ۔ اس نے کہا ”حسن حیات میں ہوتا ہے ‘‘ “Life is the beauty”۔ میر ؔ صاحب کا مشہور شعر ہے:
سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
ایک ہم عصر نے پھبتی کسی: کیا یہ شعر میرؔ کی آیا نے کہا ہے ۔ دوسرے نے تبصرہ کیا : میرؔ صاحب کے شعر میں تم نے بھس بھر دیا۔ دوسری غلطی یہ ہوئی کہ چولہے کی طرف لپکنے والا بچہ سیدہ فاطمۃ الزہرا ؓ کا فرزند نہ تھا۔ ہوتا تو نام رقم ہوتا، جنابِ حسن ؓ یا حسینؓ۔ یہ سیدہ اسما بنتِ ابی بکرؓ کا بیٹا تھا ، ابھی جو گھٹنوں کے بل چلنا سیکھ رہا تھا ۔ سیدہ فاطمۃ الزہراؓ وہاں تشریف فرما نہیں تھیں بلکہ سرکارؐ کے سائے میں یارِ غار جناب ابوبکر صدیقؓ اور ان کی صاحبزادی ؓ، ابدالآباد تک جن کا نام روشن رہے گا۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ نے ایک بار مدینہ کے آسمان کی طرف نگاہ کی۔ چمکتے ہوئے ان گنت ستاروں کو دیکھا تو پوچھا : یا رسول اللہؐ کیا کسی کی نیکیاں ان ستاروں کے برابر بھی ہوں گی ؟ فرمایا: ہاں ، تمہارے باپ ابوبکر کی۔ ایک دوسرے موقع پر ارشاد کیا تھا : عمر ؓ ابوبکرؓ کی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہیں۔ ایک غزوہ کے ہنگام جنابِ ابوبکرؓ نے گھر کی ساری متاع نذر کر دی تھی۔ عمر فاروقِ اعظمؓ بھی بہت سا ساز و سامان اٹھا لائے تھے ۔ عمرؓ سے پوچھا : گھر میں کیا چھوڑ آئے ہو ؟ عرض کیا : باقی آدھا سامان یا رسول اللہؐ ۔ ابوبکرؓ سے سوال کیا گیا تو گزارش کی کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا نام چھوڑ آیا ہوں۔ توکل کی یہی معراج تھی ، عیسیٰ ؑ ابنِ مریمؑ نے اپنے حواریوں سے جس کی آرزو کی تھی۔ بلاد شام کے ایک سفر میں اپنے ساتھی سے انہوں نے پوچھا : تمہاری بغل میں کیا ہے یوحنا ۔ ”دو روٹیاں ہیں یا نبی اللہ‘‘ اس نے کہا ۔ ایک آج اور ایک کل کے لیے۔ پیمبرؑ نے ارشاد کیا… اور گمان ہوتا ہے کہ ایک ہوک سی دل میں اٹھی ہو گی… ”یوحنا کیا توکل میں تو نے ہمیں پرندوں سے بھی کمتر جانا؟‘‘ سرکارؐ کے فرامین میں سے ایک یہ ہے : اگر تم اس طرح توکل کرو ، جیسا کہ توکل کرنے کا حق ہے تو تم اس طرح رزق دیے جائو، جس طرح پرندوں کو دیا جاتا ہے۔ جنابِ مالک بن دینارؒ ، امام ابو حنیفہؒ ، امام شافعی ؒ، امام احمد بن حنبلؒ ، امام مالک ؒ ، خواجہ حسن بصریؒ ، جنیدِ بغدادؒ ، امام شاذلیؒ اور شیخِ ہجویر ؒ سے لے کر شیخ عبدالقادر جیلانیؒ تک ، یہ جو ایک کہکشاں سی ہے ، انہیں صدیقین کہا جاتا ہے ۔ ہر چند کہ کسرِ نفسی کے ہمالہ پر کھڑے شیخِ ہجویرؒ اپنے گرامی قدر استاد امام ختلی ؒ کو افضل تر قرار دیتے ہیں۔ امام ختلیؒ کے اقوال میں سے ایک یہ ہے ”یہ دنیا ایک دن کی ہے اور ہم نے اس کا روزہ رکھ لیا ہے‘‘۔ سب سے بڑی اور مضحکہ خیز غلطی یہ ہوئی کہ احمد ندیم قاسمی کا شعر حفیظ تائبؔ سے منسوب ہو گیا ۔ تائب ؔکی نعت کا مقطع یہ تھا:
یا نبیؐ اب تو آشوبِ حالات نے تیری یادوں کے چہرے بھی دھندلا دئیے
دیکھ لے تیرے تائب ؔکی نغمہ گری بنتی جاتی ہے نوحہ گری یا نبیؐ
جیسا کہ عرض کیا، کل کے کالم میں نقل ہونے والا شعر قاسمی صاحب کا ہے ۔
ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصیٰ ترا
پوری نعت یوں ہے۔
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا
تہ بہ تہ تیرگیاں ذہن پہ جب لوٹتی ہیں
نور ہو جاتا ہے کچھ اور ہویدا تیرا
کچھ نہیں سوجھتا جب پیاس کی شدت سے مجھے
چھلک اٹھتا ہے میری روح میں مینا تیرا
پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ ہے تیرا کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا
تو بشر بھی ہے مگر فخرِ بشر بھی تو ہے
مجھ کو تو یاد ہے بس اتنا سراپا تیرا
میں تجھے عالمِ اشیاء میں بھی پا لیتا ہوں
لوگ کہتے ہیں کہ ہے عالمِ بالا تیرا
میری آنکھوں سے جو ڈھونڈیں تجھے ہر سو دیکھیں
صرف خلوت میں جو کرتے ہیں نظارا تیرا
وہ اندھیروں سے بھی درّانہ گزر جاتے ہیں
جن کے ماتھے میں چمکتا ہے ستارا تیرا
ندیاں بن کے پہاڑوں میں تو سب گھومتے ہیں
ریگزاروں میں بھی بہتا رہا دریا تیرا
شرق اور غرب میں نکھرے ہوئے گلزاروں کو
نکہتیں بانٹتا ہے آج بھی صحرا تیرا
اب بھی ظلمات فروشوں کو گلہ ہے تجھ سے
رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیرا
تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ہزاروں کا سہی
اب جو تا حشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا
ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصیٰ تیرا
اور حفیظ تائب کی نعت یہ ہے:
دے تبسم کی خیرات ماحول کو، ہم کو درکار ہے روشنی یا نبیؐ
ایک شیریں جھلک ایک نوری ڈھلک، تلخ و تاریک ہے زندگی یا نبیؐ
اے نوید مسیحا تری قوم کا حال عیسیؑ کی بھیڑوں سے ابتر ہوا
اس کے کمزور اور بے ہنر ہاتھ سے چھین لی چرخ نے برتری یا نبیؐ
کام ہم نے رکھا صرف اذکار سے، تیری تعلیم اپنائی اغیار نے
حشر میں منہ دکھائیں گے کیسے تمہیں ہم سے ناکردہ کار امتی یا نبیؐ
دشمن جاں ہوا میرا اپنا لہو میرے اندر عدو میرے باہر عدو
ماجرائے تحیر ہے پر سیدنی، صورتحال ہے دیدنی یا نبیؐ
سچ میرے دور میں جرم ہے، عیب ہے، جھوٹ فن عظیم آج لاریب ہے
گلشنوں، شہروں، قریوں پہ ہے پر فشاں ایک گمبھیر افسردگی یا نبیؐ
رازداں اس جہاں میں بنائوں کسے، روح کے زخم جا کر دکھائوں کسے
غیر کے سامنے کیوں تماشا بنوں، کیوں کروں دوستوں کو دکھی یا نبیؐ
زیست کے تپتے صحرا پہ شاہ عرب ؐ، تیرا اکرام کا ابر برسے گا کب
کب ہری ہوگی شاخ تمنا مری، کب مٹے گی مری تشنگی
یا نبی ؐ اب تو آشوب حالات نے تیری یادوں کے چہرے بھی دھندلا دئیے
دیکھ لے تیرے تائب کی نغمہ گری بنتی جاتی ہے نوحہ گری یا نبیؐ
قاسمی صاحب کی زندگی کا ایک چونکا دینے والا پہلو یہ ہے کہ عمر بھر ترقی پسندوں کے ساتھ رہے۔ عمر بھر غزل لکھی لیکن آخر کو سارا ہنر نعت میں نچوڑ دیا۔ خیر یہ ایک دوسرا موضوع ہے، اس پر پھر کبھی۔ بزرگ کہا کرتے تھے: اللہ انجام بخیر کرے۔ شبلی نعمانی کے دو اشعار یہ ہیں:
عجم کی مدح کی، عباسیوںکی داستان لکھی
مجھے چندے مقیمِ آستانِ غیر ہونا تھا
مگر اب لکھ رہا ہوں سیرتِ پیغمبر خاتمؐ
خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا