منتخب کردہ کالم

خارجہ پالیسی میں جوہری تبدیلی کی ضرورت: مزمل سہروردی

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پاکستان اس وقت عالمی سطح پر سفارتی حوالے سے دباؤ کا شکار ہے جسے پاکستان دشمن قوتیں سفارتی تنہائی کا نام دے رہی ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہے البتہ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں جوہری تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے‘ ماضی کی پالیسیاں پر نظرثانی کی جانی چاہیے کیونکہ بعض معاملات پر ہم نے جن بنیادوں پر خارجہ پالیسی اختیار کی اس کی ڈائنامکس میں کافی تبدیلی آئی ہے۔

ماضی میں کسی ملک نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تھا لیکن اب ترکی اور مصر وہ مسلم ممالک ہیں جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے جب کہ کئی ملک ایسے ہیں جنہوں نے اسے تسلیم تو نہیں کیا لیکن ان کے روابط کے بارے میں اطلاعات منظرعام پر آتی رہتی ہیں‘ ان میں سعودی عرب بھی شامل ہے جب کہ پاکستان کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ کئی مواقع پر خفیہ رابطے ہوئے ہیں‘ بہرحال بیک چینل رابطے تو دشمنوں کے ساتھ ہوتے ہی رہتے ہیں لہٰذا اس میں کوئی ایسی حیرانی کی بات نہیں۔ خورشید قصوری نے بطور وزیر خارجہ ترکی میں اسرائیلی وزیر خارجہ سے ملاقات کی دلچسپ کہا نی خود ہی بیان کی ہے۔

پاکستان نے ہمیشہ سے ہی موقف رکھا ہے کہ فلسطین کے تنازعہ کے طے ہونے تک وہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔ ایک وقت تھا جب تمام مسلم ممالک نے اسرائیل کے حوالہ سے یہی موقف اپنا یا تھا۔عرب ممالک تو اسرائیل کے حو الہ سے نہایت سخت موقف رکھتے تھے اور ہمیں خطرہ تھا کہ اگر ہم نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھائے تو عرب اور دیگر دوست مسلم ممالک دوست ناراض ہو جائیں گے ۔ لیکن اب تو صورتحال تبدیل ہو گئی ہے ۔ عرب ممالک بھی ایران دشمنی میں اسرائیل کے قریب ہو رہے ہیں۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے د رمیان رابطوں کی تصدیق ہو رہی ہے۔ ترکی اور اسرائیل نے دوبارہ رابطے بحال کر لیے ہیں۔

اس وقت پاکستان کو سفارتی محاذ پر نئے چیلنجز کا سامان ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ پاکستان مغربی دنیاسے آہستہ آہستہ دور ہو رہا ہے۔ چین سے قربت ہے اور اس وقت پاکستان کا سفارتی محاذ واحد چین کے سہارے کھڑا ہے۔ ایسے میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ سفارتی محاذ پر نئے دروازے اور راستے کھولے جائیں تاکہ پاکستان پر بھارتی دباؤ کم ہو سکے جب کہ امریکا اور یورپ زیادہ قریب ہو جائے۔ میرا خیال ہے کہ اسرائیل کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلی سفارتی محاذ پر ایک بڑا بریک تھرو بن سکتا ہے۔ اب تو یہ خطرہ بھی نہیں ہے کہ عرب دوست ناراض ہو جائیں گے کیونکہ وہ تو خود اسی راستے پر گامزن ہے۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بعض تبدیلیوں کی راہ میں اندرونی محاذ پر رکاوٹ کون ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مذہبی جماعتیں اس ضمن میں بڑی رکاوٹ ہیں اور سیکولر جماعتیں ان کے دباؤ اور مخالفت کے خوف کی وجہ سے ڈری ہوئی ہیں۔ لیکن ملک کی سیکولر سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں فیصلے خوف اور ڈر سے بالائے طاق رکھ کر ہو تے ہیں۔

انتہا پسند طبقہ تو بھارت سے تعلقات ختم کرنے کی بھی بات کرتا ہے۔ امریکا کا جو یار ہے غدار ہے کا نعرہ بھی لگایا جاتا ہے۔ انھی قوتوں نے ایشیا کے سبز اور سرخ کی لڑائی میں ملک کو دو دہائیوں سے ز یادہ تقسیم رکھا۔ اور بعد میں معلوم ہوا کہ ایشیا نہ تو سرخ ہے اور نہ ہی سبز۔کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ میں مجاہدین نے اسرائیل کا تعاون بخوشی قبول کیا۔ سوویت یونین کے خلاف اگر اسرائیل کا تعاون قبول ہے تو پاکستان کے لیے کیوں نہیں۔گزشتہ دنوں اسرائیلی پارلیمنٹ میں ایک مسلمان رکن کی جانب سے اذان دینے کے عمل کو مسلم ممالک اور بالخصوص پاکستان میں بہت پذیر ائی ملی ۔ اس سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ اسرائیلی پارلیمنٹ میں مسلمان رکن موجود ہیں۔

میں نے اسرائیلی کے ایک سابق وزیر خارجہ شلوم کا انٹرویو چند سال قبل کیا تھا ۔ تب میں نے ان سے کہا کہ آپ فلسطینیوں پر بہت ظلم کرتے ہیں اس لیے مسلم ممالک آپ کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں رکھتے تو انھوں نے کہا بہت سال ہمارا بائیکاٹ رکھ کر مسلم ممالک کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ ا س طرح اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تناؤ کو کم اور تنازعہ کو حل نہیں کیا جا سکتا ۔

بلکہ اس کے برعکس اگر تمام مسلم ممالک اسرائیل میں اپنے سفارتخانے کھول لیں اور بیٹھ کر وہ بات کریںتو اس کا زیادہ اثر ہو گا۔ جب آپ ہم سے بات ہی نہیں کریں گے تو بات آگے چلے گی کیسے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس دلیل میں اس حد تک وزن ہے کہ اسرائیل کی بائیکاٹ کی سیاست نے نہ تو فسلطینیوں کی کوئی مدد کی ہے اور نہ ہی اس کا مسلم ممالک کو کوئی فائدہ ہوا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان میں ہونے والے تمام امن معاہدے انھی ممالک کے ذریعے ممکن ہوئے جنہوں نے اسرائیل اور فلسطین دونوں کو تسلیم کیا ہوا تھا۔ میرے لیے یہ بات بھی ناقا بل فہم ہے کہ جب مسئلہ کشمیر کی موجودگی میں ہم بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات ہر صورت پر قائم رکھنے کی پالیسی رکھتے ہیں۔ اور شدید تناؤ میں بھی سفارتی تعلقات ختم اور بائیکاٹ کی کوئی پالیسی نہیں رکھتے۔ اس سے یہی اصول سامنے آتا ہے کہ خارجہ پالیسی میں دشمن کے ساتھ بھی رابطہ ختم نہیں کیا گیا۔

پاکستان کو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد نئی عالمی صف بندی میں جگہ بنانے کے لیے نئی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا ۔ پاکستان نے روس کے ساتھ رابطے بڑھائے ہیں‘ یہ خارجہ پالیسی کا مثبت رخ ہے‘ اسے مزید وسعت دی جانی چاہیے۔ ویسے بھی آج کل عالمی سطح پر بے وجہ کی دشمنیاں ختم کرنے کا موسم ہے ۔ اور وقت کی ضرورت بھی۔