ختم نبوت ﷺ کی اہمیت…علامہ ابتسام الٰہی ظہیر
ستمبر کا پہلا عشرہ ہمیں 1974 ء کی یاد دلاتا ہے‘ جب پاکستان قومی اسمبلی میں عقیدہ ختم نبوت سے انحراف کرنے کی بنیاد پر قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا تھا۔ اس فیصلے سے قبل علمائے دین نے ایک لمبی تحریک کو چلایا اور اس حوالے سے رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے زبردست انداز میں جستجو کی۔ تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام نے اس حوالے سے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ مولانا محمد حسین بٹالوی‘ مولانا ثناء اللہ امرتسری‘ مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی‘ پیر مہر علی شاہ‘ پیرجماعت علی شاہ‘ انور شاہ کاشمیری‘ عطاء اللہ شاہ بخاری‘ حافظ محمد گوندلوی‘ مفتی محمود احمد‘ مولانا شاہ احمد نورانی‘ علامہ احسان الٰہی ظہیر‘ حافظ عبدالقادر روپڑی‘ مولانا صفی الرحمن مبارکپوری‘ مظفر علی شمسی‘ آغا شورش کاشمیری‘مولانا ابراہیم کمیر پوری اور دیگر نمایاں عمائدین نے اس تحریک کو چلانے کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔ علماء نے مختلف مقامات پر منکرین ختم نبوتﷺ سے مناظرے بھی کیے اور جلسے‘ جلوسوں اور اجتماعات سے خطاب بھی کیا۔
بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان کا اخبار ”زمیندار‘‘ا س حوالے سے مسلسل برصغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی کرتا رہا۔ مولانا ظفر علی خان کے بعد ان کے شاگردِرشید آغا شورش کاشمیری نے بھی ”چٹان‘‘ کے درجنوں اداریے اور مضامین اسی عنوان پر لکھے۔ علمائے دین نے رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے مختلف ادوار میں مختلف تحریکیں چلائیں۔ 1953ء کے بعد 1970ء کے اوائل میں بھی بھرپور انداز میں اس مسئلے کو اُٹھایا گیا اور ریاست پاکستان سے اس بات کا مطالبہ کیا گیا کہ وہ لوگ جو ختم نبوتﷺ کا انکار کرنے والے ہیں‘ ان کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جائے؛ چنانچہ قومی اسمبلی کی سطح پر اس بات کا فیصلہ کیا گیا اور ختم نبوت ﷺ کا انکار کرنے کی وجہ سے منکرین ختم نبوت کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا گیا۔ بعض لوگ عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ جزوی یا فروعی اختلاف ہے ؛ حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ اختلاف ارکان اسلام کے پہلے رکن ‘یعنی شہادتین کی تشریح کے حوالے سے پایا جانے والا بنیادی اختلاف ہے؛ اگر کلمہ طیبہ کے تقاضے پورے نہ ہوں‘ تو باقی ارکان اسلام کی ادائیگی بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ اللہ کی توحید اور وحدانیت کے ساتھ ساتھ نبی کریم ﷺ کی رسالت اور ختم نبوت کو تسلیم کرنا ہر مسلمان کے لیے ازحد ضروری ہے ۔ اس حوالے سے جب قرآن مجید کا مطالعہ کیا جاتا ہے‘ تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ قرآن مجید نے بھی اس عقیدے کو مختلف انداز میں واضح کیا ہے۔ اللہ نے نبی آخرالزمان کو مشرق و مغرب‘ شمال و جنوب‘کالوں اورگوروں‘ امیر و غریب اور قیامت تک آنے والے ہر انسان کی رہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا اور سورہ اعراف کی آیت 158اور سورہ سبا کی آیت 28 میں واضح فرما دیا کہ رسول ﷺ جمیع انسانیت کے لیے اللہ کے پیغمبر ہیں اور تمام انسانیت کے لیے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے ہیں۔
مذکورہ آیات واضح کرتی ہیںکہ جمیع انسانیت کی ہدایت اور نگہبانی کے لیے اب کسی رسول اور نبی کی ضرورت نہیں‘اس لیے کہ یہ فریضہ اللہ تعالیٰ جناب رسول اکرم ﷺ کو تفویض فرماچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ احزاب کی آیت 40 میں بھی واضح فرمادیا کہ” محمد(ﷺ ) تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں‘ لیکن اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں اور اللہ ہر چیزکو جاننے والا ہے۔‘‘ یعنی جس طرح وہ کسی مردکے باپ نہیں‘اسی طرح آپﷺ کے بعدکوئی نبی بھی نہیں ہوسکتا۔ ختم نبوت کا انکارکرنے والے گروہ نے آیت میں ”خاتم النبیین‘‘ کا ترجمہ’ نبیوںکی مہر‘کرکے لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی؛ حالانکہ ہرذی شعوراس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ کسی چیز پر مہر اس کی تکمیل کے بعد ہی لگائی جاتی ہے۔ جب کسی پیمانے یا دستاویز کو سیل بند کردیا جاتا ہے ‘تو مہرکوتوڑے بغیراس میںکسی چیزکو داخل نہیں کیا جاسکتا۔ جب نامکمل چیز پر مہر نہیں لگ سکتی اور مہر لگ جانے کے بعد اس میںکوئی چیز داخل نہیں ہوسکتی تو یہ بات بھی بالکل واضح ہوگئی کہ رسول اللہ ﷺ کے آنے کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہوگیا ہے اور آپ ؐکی آمدکے بعدکوئی دوسرا نبی نہیں ہوسکتا۔ یہی گروہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ دنیا میں تشریف آوری کو بنیاد بناکر لوگوںکو دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے کہ اگرحضرت رسول اللہﷺکے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا ‘تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیونکرآئیںگے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت‘ آپؐ سے پہلے ملی اور عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمانوں کی طرف اٹھائے جانے کے بعد اس دنیا میں دوبارہ نازل ہونے سے حضرت رسول اللہ ﷺ کے بعدکسی نئے شخص کو نبوت ملنے کا ثبوت نہیں ملتا۔ جب نبوت کا
دروازہ بند ہوا‘ تو اس سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی بن چکے تھے۔ نبوت کا دروازہ بند ہوجانے کے بعدکسی کو نبوت ملنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
جہاں قرآن مجید نے مسئلہ ختم نبوت کو واضح کردیا‘ وہیں احادیث مبارکہ سے بھی اس مسئلے کی خوب وضاحت ہوتی ہے۔ بعض احادیث درج ذیل ہیں :
صحیح بخاری و صحیح مسلم ‘ مسند احمد بن حنبل اور سنن الکبریٰ للبیہقی میںحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :میری اور سابق نبیوںکی مثال ایک شخص کی ہے ‘جس نے ایک خوب صورت گھر بنایا ‘مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھو ڑ دی۔ لوگ اس گھرکو دیکھ کراس کی خوبصورتی پر تعجب کرتے ہیں‘ مگر کہتے ہیں کہ کیا خوب ہو ‘اگر اینٹ اپنی جگہ پر لگا دی جائے‘ پس میں وہ اینٹ ہوں اور میں آخری نبی ہوں ۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میںحضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی ‘جب تک تیس بڑے جھوٹے نہیں آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہوگاکو وہ اللہ کا رسول ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب جنگ تبوک کے لیے نکلے‘ تو آپ ﷺ نے حضرت علیؓ کو مدینہ میں اپنانائب مقررکیا۔ حضرت علی ؓ نے عرض کی کہ کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑکرجانا چاہتے ہیں ‘تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ اے علی! کیا آپ اس بات پر خوش نہیںکہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہو‘ جو موسیٰ ؑکی ہارون ؑ سے ہے‘ مگر میرے بعدکوئی نبی نہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ بنی اسرائیل کے لوگوں پر انبیا حکومت کرتے رہے اور ان کی رہنمائی بھی کرتے رہے۔ جب ایک نبی کا انتقال ہوجاتا ‘تو دوسرا نبی ان کی جگہ لے لیتا۔ میرے بعدکوئی نبی تو نہیں ہوگا‘ تاہم خلفاء ہوںگے اورتعداد میں بہت ہوںگے۔ صحیح بخاری میں حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے ایک روایت نقل کی‘ جس میں نبی ﷺ نے اپنے متعدد نام بتائے‘ جن میں سے ایک نام عاقب ہے‘ جس کا مطلب نبی ﷺ نے یہ بتلایا کہ عاقب وہ ہے‘ جس کے بعدکوئی نبی نہ ہو۔ صحیح مسلم میں حضر ت ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے ایک روایت نقل کی ہے‘ جس میں آپؐ نے سابق انبیاء پر اپنی فضیلت کے چھ اسباب بیان کیے اوران میںسے دواسباب یہ ہیں کہ آپ کو پوری انسانیت کے لیے بھیجاگیا اور آپ ؐپر سلسلہ نبوت بند کردیاگیا۔ سنن ترمذی‘مسند احمد اور مستدرک حاکم میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: رسالت اور نبوت ختم ہوچکی اور میرے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں ہوگا۔ سنن ترمذی میں جناب عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر میرے بعدکوئی نبی ہوتا ‘تو عمر ہوتا۔ سنن ترمذی میں ہی ایک حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد تیس بڑے جھوٹے آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہوگا کہ وہ نبی ہے‘ جبکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
سنن ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : میں آخری نبی ہوں اور تم (مسلمانو) آخری امت ہو۔ ان احادیث کے علاوہ بھی دیگر بہت سی احادیث سے عقیدہ ختم نبوتﷺ کی وضاحت ہو تی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اجماع امت کے اجتماعی عقیدے کی توثیق ہوتی ہے۔
اس بات کا باآسانی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ قادیانیوں نے نہ تو کتاب وسنت اور اجماع اُمت کو تسلیم کیا ہے اور نہ ہی پاکستان کے آئین اور قومی اسمبلی کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں؛ چنانچہ جو شخص اسلام کے ساتھ ساتھ آئین اور ریاست سے غیر مشروط وفاداری کا اظہار نہیں کرتا‘ وہ پاکستان میں کوئی بھی کلیدی عہدہ لینے کا مجاز نہیں ہے۔ اس حوالے سے اس بات کو بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ باقی اقلیتوں کا معاملہ ختم نبوت ﷺ کے مسئلے سے جدا ہے کہ باقی اقلتیں اپنے اپنے مذہب کے دائرے میں میں تو رہتی ہیں‘ لیکن اسلام کی دعویدار نہیں ہیں۔ ریاست پاکستان نے اقلیتوں کے حقوق کے لیے جو ضمانت دی ہے ‘وہ تمام تر حقوق ان اقلیتوں کو حاصل ہونے چاہئیں‘ جو ریاست پاکستان اور آئین پاکستان کی وفادار ہیں ۔
اقلیتوں کے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے والے اداروں اور انجمنوں کو قادیانیوں کو پہلے اس بات پر قائل کر لینا چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کر لیں ‘ اگر وہ اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم نہیں کرتے ‘تو ان کو اقلیتوں کے حقوق دلوانے کی بحث بلا جواز ہی ٹھہرے گی۔