خدا کی پناہ….ہارون الرشید
اس قوم پہ خدا رحم کرے، جوشِ عمل میں جو بگٹٹ ہے، مگر فکر و تدبر کی ایک ساعت بھی جسے نصیب نہیں۔
عمارت کا انحصار بنیاد پر ہوتا ہے۔ کسی ادارے اور تنظیم کا بھی۔ ہمارے جمہوری نظام کی بنیاد کیا ہے، جس کے لئے اس قدر واویلا ہے۔ جو اس قدر ہمیں عزیز ہے۔ مستقبل کی تمام امیدیں، جس سے وابستہ ہیں۔ کہا یہ جاتا تھا کہ پے در پے چند الیکشن اگر منعقد ہو جائیں تو قوم ادبار سے نجات پا لے گی۔ نتیجہ بالکل برعکس نکلا ہے۔ اس نام نہاد جمہوری نظام نے ملک کی جڑیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ 93 بلین ڈالر کے ہم مقروض ہیں۔ چند ہفتوں میں پاکستانی روپے کی قدر اس تیزی سے گری ہے کہ ماہرین معیشت گنگ ہیں۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ یہ طوفان بلا خیز کہاں جا کر تھمے گا۔ دیکھتے ہی دیکھتے غیر ملکی قرضوں میں سینکڑوں ارب روپے کا اضافہ ہو گیا ہے۔ ماہرین معیشت ہی نہیں سیاستدان بھی خاموش ہیں۔ دانشور ‘ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بنے کھڑے ہیں۔ یا رب! یہ دن بھی اس ملک کو دیکھنا تھا۔ سیاست کی طرح پاکستانی معیشت بھی اب اس گھوڑے کی طرح ہے، جس کی لگامیں ٹوٹ چکی ہوں۔ 22 کروڑ کی قوم حالات کے رحم و کرم پہ ہے۔
سیاسی پارٹیوں کی سب سے بڑی ترجیح کیا ہے؟ مخالفین کی کردار کشی۔ ٹی وی مذاکروں میں سیاسی لیڈر اس لئے یکجا ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے کا تمسخر اڑائیں، الزام تراشی کریں اور اگر ممکن ہو تو توہین اور تذلیل بھی۔ اس مشق سے اطمینان نہیں ہوتا تو سیاسی پارٹیوں کے میڈیا سیل بروئے کار آتے ہیں۔ بدتمیزی اور ایسی بدتمیزی، گالم گلوچ اور ایسی گالم گلوچ ۔
موسم بہار میں لاہور کے جلسۂ عام میں ایک گیارہ نکاتی ایجنڈا عمران خان نے پیش کیا تھا۔ کسی قدر تشنہ ہی سہی لیکن یہ ایک واضح پروگرام تھا۔ قطع و برید اور حک و اضافے کے ساتھ، شاید یہ ایک جامع پروگرام کی شکل اختیار کر لیتا۔ اس کی فرصت مگر کہاں۔ کپتان کا سارا وقت ان امیدواروں کی نذر ہوتا ہے، جن میں بعض کو ٹکٹ مل چکے اور بعض دیوانہ وار جس کے طالب ہیں۔ پولنگ میں 34 دن باقی ہیں اور انتخابی مہم وہ شروع نہیں کر سکے۔ پہاڑی علاقوں کی بات دوسری ہے، جہاں تک میدانوں کا تعلق ہے، برسات کے موسم میں آسمان سے آگ برستی رہے گی یا پانی۔ الیکشن ملتوی کرنے کی بات کی جائے تو دانشور بھڑک اٹھتے ہیں۔ جمہوریت انہیں خطرے میں نظر آتی ہے۔ پولنگ کا مقررہ دن کیا میدان عرفات میں داخل ہونے کا دن ہے کہ تاخیر یا تعجیل کا ارتکاب نہیں ہو سکتا۔ کیا یہ رمضان المبارک کا چاند ہے کہ ایک بھی دن کی تقدیم یا تاخیر ممکن نہیں؟
شدید بیماری کے عالم میں محترمہ کلثوم نواز کئی دن سے وینٹی لیٹر پر پڑی ہیں۔ ایک جنگِ عظیم سوشل میڈیا پہ برپا ہے۔ چیخ چیخ کر نون لیگ کے حامی یہ کہتے ہیں کہ سیاسی حریف دل گرفتہ خاندان کی دل آزاری کے مرتکب ہیں۔ بے شرمی سے افواہیں پھیلاتے اور کہانیاں گھڑتے ہیں۔ مخالف یہ کہتے ہیں کہ شریف خاندان نے ایک ڈرامہ رچا رکھا ہے۔ محترمہ سرے سے بیمار ہی نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ہسپتال کا ترجمان میڈیا کو اعتماد میں لیتا۔ ابھی کچھ دیر پہلے ایک ممتاز معالج سے پوچھا کہ کتنے دن مریض کو وینٹی لیٹر پر رکھا جا سکتا ہے۔ ان کا جواب یہ تھا، مہینوں تک۔ اس کا انحصار مرض پہ ہوتا ہے۔ انسانی قلب کو خون کی فراہمی رک جائے تو مصنوعی تدابیر اختیار کرنا پڑتی ہیں۔ قلب سے کہیں زیادہ، زندگی کا انحصار انسانی دماغ پہ ہوتا ہے۔ بھیجے کو خون کی فراہمی معطل ہو جائے تو سات منٹ کے بعد موت واقع ہو جاتی ہے۔ جب تک دماغ زندہ ہے، زندگی برقرار۔ ان سے سوال کیا گیاکہ کیا ہسپتال کے لئے میڈیا کو اعتماد میں لینا ضروری ہے؟ غیر سیاسی آدمی نے کہا : بالکل نہیں ، سو فیصد یہ مریض کا استحقاق ہے‘ یہ اس کی ذاتی زندگی ہے ۔ اگر وہ پسند کرے تو ڈاکٹروں کو اختیار عطا کر دے جیسا کہ مشہور عوامی شخصیات اکثر کیا کرتی ہیں۔ چاہے یکسر منع کر دے۔
قیاس آرائیوں کا محور یہ ہے کہ محترمہ کی علالت کے سیاسی اثرات کیا ہوں گے۔ اللہ انہیں زندہ سلامت رکھے۔ خدا نخواستہ جان ہار گئیں تو نتیجہ کیا ہو گا۔ ہمدردی کی لہر اٹھے گی یا نہیں اٹھے گی۔ شریف خاندان کی سیاست کو فائدہ پہنچے گا یا نقصان؟
پوری کی پوری قوم ہیجان کا شکار ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ خاندان کے سوا ہمدردی اور دل سوزی کی ایک رمق بھی کہیں نہیں۔ زندگی اور موت کا نہیں، عظیم اکثریت کے لئے اصل اہمیت سیاسی مضمرات کی ہے۔ افراد کی طرح اقوام کے کردار کا اندازہ بھی بحران میں ہوتا ہے۔ جب کوئی ابتلا آ پڑے، جب کوئی امتحان در پیش ہو۔ اللہ کے بندو یہ خاندان کا مسئلہ ہے۔ ڈاکٹر مشورہ دے سکتے ہیں‘ فیصلہ اعزہ و اقربا کو کرنا ہے۔ آئے دن ہسپتالوں میں یہ صورتحال در پیش ہوتی ہے۔ مریض جانے ، معالج یا خاندان۔ دوسروں کو واسطہ کیا۔ شریف خاندان کے سیاسی مخالفین نے جس بے دردی کا مظاہرہ کیا، کیا وہ شرمناک نہیں؟ پرلے درجے کی سنگ دلی کا ارتکاب نہیں؟
یہی کچھ عمران خان کے باب میں ہوا۔ ان کا مؤقف معلوم کئے بغیر ہمارے اخبار نویس دوست ان پر چڑھ دوڑے۔ ایک چارٹرڈ طیارے میں عمرہ کرنے وہ کیوں گئے۔ ان کی اہلیہ کا نیا پاسپورٹ کیوں نہ بنوایا گیا۔ عمران خان کے ایک ہم نفس کا نام ای سی ایل فہرست سے کیوں نکالا گیا۔ تھوڑی سی تحقیق اگر وہ کرتے تو جان لیتے آئے دن ایسا ہوتا ہے۔ حج، عمرے یا علاج کے لئے ایک بار کا استثنیٰ کوئی بڑی بات نہیں۔ ہزاروں نہیں تو سینکڑوں آدمی اس رعایت سے مستفید ہوئے ہوں گے۔ الزام یہ تھا کہ قانون کی خلاف ورزی کا ارتکاب خود کپتان نے کیا۔ اب اس نے تردید کر دی ہے۔ وضاحت سے معلوم یہ ہوا کہ خاص طور پر جہاز اس کے لئے چلایا نہ گیا۔ دوسرے لوگ عمرہ کرنے جا رہے تھے۔ موقع سے اس نے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ ہرگز اس نے کسی کی سفارش نہیں کی۔ اخبار نویس مصر ہیں کہ یہ سفید جھوٹ ہے۔ ہو سکتا ہے۔ اخبار نویس ٹھیک ہیں تو شواہد پیش کرنا ان کی ذمہ داری ہے، ایک بنیادی اخلاقی ذمہ داری۔ یوں بھی کیا یہ اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ پوری قوم پانچ سات دن اسی میں الجھی رہے۔ سینکڑوں، ہزاروں لوگ سوشل میڈیا پہ اب بھی سرگرم عمل ہیں۔ ان میں وہ دیدہ دلیر جانباز بھی شامل ہیں جنہوں نے ہر وہ گالی اخبار نویسوں کو دی جو وہ دے سکتے تھے۔ دونوں آدمیوں کو کرائے کے کارندے ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کی گئی۔ یا للعجب، اس شد و مد کے ساتھ گویا اپنی آنکھوں سے انہوں نے صحافیوں کو رشوت وصول کرتے دیکھا ہو۔ یہ وہی اخبار نویس ہیں جو کل تک آپ کے بہت عزیز تھے۔ اس لئے کہ ہر روز دوسرے سیاسی لیڈروں کا کچا چٹھا بیان کیا کرتے۔ ابھی کل تک ایک ذرہ سا الزام بھی ان پر نہیں تھا۔ الزام کیا معنی، وہ آپ کے ہیرو تھے۔ سر آنکھوں پر بٹھائے جانے کے قابل۔ اب یکایک وہ جرائم پیشہ ہو گئے۔ فقط اس لئے کہ ایک لیڈر کے بارے میں بے احتیاطی کے مرتکب ہوئے۔
کیا یہ متحارب لشکر ہیں، جن میں سے کسی ایک کی فتح پر ملک اور معاشرے کی نجات کا انحصار ہے؟ کیا اسی کا نام سلطانیٔ جمہور ہے؟ کہنے کو تو یہ کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کا انحصار رواداری پہ ہوتا ہے۔ یہ رواداری کہاں ہے۔ اگر ایک رتی اور رمق بھی موجود نہیں تو وہ زندہ کیسے رہے گی۔ پولیٹیکل سائنس کے اساتذہ یہ کہتے ہیں: بیس فیصد لوگ اگر مشتعل ہو جائیں تو حکومت کام کرنے کے قابل نہیں رہتی۔ اب ان میں سے ایک کی حکومت بنے یا دوسرے اور تیسرے کی، کم از کم بیس پچیس فیصد ضرور برہم ہوں گے۔ کاروبارِ حکومت پھر کس طرح چلے گا؟
انسانوں کے پروردگار نے امانتِ عقل و علم انہیں بخشی تھی۔ صرف ایک تقاضا اپنے بندوں سے کیا تھا کہ غور و فکر اور سوچ بچار سے اپنی راہ وہ متعین کریں۔ باقی سب کچھ یاد رہا، یہی ایک بھلا دیا۔ اس قوم پہ خدا رحم کرے، جوشِ عمل میں جو بگٹٹ ہے، مگر فکر و تدبر کی ایک ساعت بھی جسے نصیب نہیں۔