منتخب کردہ کالم

خطرے کی گھنٹی ….رئوف طاہر

کالم کے لیے موضوعات کا قحط نہیں۔ سیاسی مسائل کی فصل ہے کہ لہلہا رہی ہے۔ معزول وزیر اعظم نواز شریف احتساب عدالت میں پیش ہو چکے۔ ”حاضری‘‘ لگی اور پانچ منٹ بعد جانے کی اجازت مل گئی۔ سہ پہر کو انہوں نے میڈیا سے گفتگو کی‘ جسے ”پریس کانفرنس‘‘ کا نام دیا گیا تھا لیکن اصل میں یہ ”مونولاگ‘‘ تھا‘ احتیاط سے لکھا گیا بیان‘ جسے قوم سے خطاب کا عنوان بھی دیا جا سکتا ہے اور بیانیہ وہی جسے وہ 28 جولائی کے (معزولی کے) فیصلے کے بعد سے قوم کے سامنے رکھ رہے ہیں۔ جی ٹی روڈ پر چار روزہ سفر کے دوران لاکھوں عوام جس کی تائید کرتے رہے اور حلقہ این اے 120 کے ضمنی انتخاب میں نامساعد حالات اور دیدہ و نادیدہ مشکلات کے باوجود محترمہ کلثوم نواز کی فتح زندہ دلان لاہور کی طرف سے جس کی تصدیق و توثیق تھی۔ فردِ جُرم کے لیے سوموار 2 اکتوبر کی تاریخ دے دی گئی۔ اسی تاریخ کو پیشی کے لیے حسین‘ حسن‘ مریم اور صفدر کے قابل ضمانت وارنٹ بھی جاری کر دیئے گئے۔ بدھ 27 ستمبر کی سہ پہر لندن سے مریم کی ٹویٹ ہر دلِ دردمند کو فکر مند کر گئی‘ تین سرجریوں کے بعد بیگم صاحبہ گھر منتقل ہو گئی تھیں۔ انہیں مزید علاج اور توجہ کی ضرورت تھی کہ بدھ کو طبیعت بگڑ گئی‘ وہ پھر ایمرجنسی میں تھیں۔ سیاست اتنی سنگدل بھی ہو سکتی ہے؟ بنی گالا کے باہر عمران خان کے ترجمان بیگم صاحبہ کی صحت کے لیے دعا کے ساتھ تشویش کا اظہار بھی کر رہے تھے کہ معزول وزیر اعظم اسی بہانے پھر ملک سے باہر چلے جائیں گے۔ انہیں اور ان کے بچوں کے نام ای سی ایل پر ڈالنے کا مطالبہ پہلے سے موجود تھا۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی تبدیلی کے لیے پی ٹی آئی کی مہم اور پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ صاحب کی ”جانشینی‘‘ کے لیے ملتان کے شاہ محمود قریشی کا نام ہفتے عشرے سے سننے میں آ رہا تھا۔ جناب قریشی اسی مہم پر کراچی میں تھے۔ ایم کیو ایم کے اتفاق رائے کی خبریں پہلے سے موجود تھیں‘ اب تو اس کا اعادہ ہونا تھا کہ مردان سے پی ٹی آئی کے ایم این اے علی احمد خان کا ٹویٹ خود تحریک انصاف میں ملتان کے سجادہ نشین کے نام پر اختلاف کی خبر بن گیا۔ عمران خان کے اتحادی سراج الحق کی جماعت اسلامی بھی قومی اسمبلی کے آخری سات آٹھ مہینوں کے لیے نیا قائد حزب اختلاف لانے کو ایک غیر ضروری مشق قرار دے رہی تھی۔ چوہدری شجاعت حسین کی طرح اسے بھی گلہ تھا کہ اپنے طور پر فیصلہ کر لینے کے بعد ”مشاورت‘‘ کا کیا مطلب؟
ہمیں حیرت تھی کہ اتنے دن گزر گئے اور خان کی طرف سے کسی نئے استعفے کا مطالبہ نہیں آیا‘ لیکن حیرت کا یہ عرصہ طویل نہ تھا‘ خان کی طرف سے انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ کے استعفے کا مطالبہ آ گیا۔ آفتاب سلطان کا شمار ان سینئر افسروں میں ہوتا ہے جن کی پیشہ ورانہ اہلیت کے ساتھ امانت‘ دیانت اور صداقت پر بھی کبھی انگلی نہیں اٹھائی گئی۔ دنیا بھر میں خفیہ ایجنسیاں باہم رابطے میں رہتی ہیں۔ برطانیہ کی ایم آئی فائیو اور ایم آئی سکس سے ملاقاتوں کے لیے پاکستانی آئی بی کے سربراہ کی ملاقاتوں کا شیڈول چار ماہ پہلے طے پا چکا تھا۔ اب انہی دنوں میں معزول وزیر اعظم بھی وہیں تھے۔ ادھر کسی نے خان کے کان میں سرگوشی کر دی اور انہوں نے کسی تصدیق کے بغیر آئی بی کے سربراہ کی معزول وزیر اعظم سے ملاقات کے فسانے پر یقین کرکے‘ ان کے استعفے کا مطالبہ کر دیا۔ اس کے ساتھ تحریک انصاف کے ترجمان نے آفتاب سلطان کو قمرالزماں چوہدری کی جگہ نیب کا چیئرمین بنائے جانے کی پھلجھڑی بھی چھوڑ دی۔
جمعرات کی صبح (جب یہ کالم لکھا جا رہا ہے) فرزند راولپنڈی ایک مارننگ شو میں فرما رہے تھے‘ میں ناشتہ کر چکا ہوں‘ دیسی انڈوں‘ پراٹھوں‘ سری پائے اور دودھ کے ساتھ خاصا بھاری بھرکم ناشتہ‘ جس کے بعد وہ ”اس‘‘ جمہوریت پر ہزار لعنت بھیج رہے تھے جس میں گزشتہ ایک ہفتے میں کوئی ایک دن ایسا نہیں تھا جب کورم پورا ہوا ہو۔ وہ ان ”بے ایمانوں‘‘ اور ”حرام خوروں‘‘ پر بھی لعنت بھیج رہے تھے‘ جو حاضری لگا کر ایوان سے غائب ہو جاتے ہیں اور تنخواہیں و مراعات پوری وصول کرتے ہیں۔ (حیرت ہے‘ شیخ صاحب کو یہاں اپنے خان کا خیال بھی نہ آیا۔ موجودہ پارلیمنٹ کے تین برسوں میں‘ ایوان میں جس کی صرف 16 حاضریاں تھیں۔ تحریک انصاف کے ”ایماندار اور دیانتدار‘‘ ارکان نے ان مہینوں کی تنخواہیں بھی تمام تر مراعات سمیت وصول کر لی تھیں جب وہ قومی اسمبلی سے ”استعفوں‘‘ پر تھے۔)
18ویں آئینی ترمیم نے (قومی اور صوبائی اسمبلیوں) میں قائد حزب اختلاف کا کردار بہت اہم بنا دیا ہے۔ وہ اپنی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین ہوتا ہے۔ نیب کے سربراہ کے تقرر کے لیے اس کی مشاورت آئینی تقاضا ہے (قائدِ ایوان اور قائدِ حزب میں اتفاق رائے نہ ہو تو معاملہ بارہ رکنی پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا جاتا ہے جس میں سرکاری بنچوں اور حزب اختلاف کی مساوی نمائندگی ہوتی ہے چھ ارکان سرکار سے اور چھ حزب اختلاف سے) چیف الیکشن کمشن کے تقرر میں بھی قائد حزب اختلاف کی ”مشاورت‘‘ لازمی ہوتی ہے۔ تقرر کے بعد چیف الیکشن کمشنر سمیت سبھی ارکان کو اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی طرح آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ عام انتخابات سے قبل وفاقی اور صوبائی نگران حکومتوں کے تقرر کے لیے بھی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے قائدین حزب اختلاف کی ”مشاورت‘‘ ضروری ہے۔ نیب کے موجودہ سربراہ قمرالزماں چوہدری 10 اکتوبر کو سبکدوش ہو رہے ہیں‘ جس کے بعد نئے سربراہ کے تقرر کا مرحلہ ہو گا۔ اگلا سال عام انتخابات کا ہے (خان فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہا ہے) تب نگران حکومتوں کے تقرر کا معاملہ ہو گا۔ خان الیکشن کمشن پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کر رہا ہے۔ گزشتہ دنوں تو اس نے موجودہ الیکشن کمشن کو کرپٹ مافیا کا آلہ کار قرار دے دیا جسے بقول اس کے سیاسی مخالفین کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ موجودہ الیکشن کمشن سے خان کی یہ بیزاری قابل فہم ہے کہ تحریک انصاف کے لیے فارن فنڈنگ سمیت خود خان کی اہلیت کے مقدمات بھی یہاں زیر سماعت ہیں۔ خان نئے انتخابات کے لیے نئے الیکشن کمشن کی تشکیل کا مطالبہ کرتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ موجودہ الیکشن کمشن سے ”نجات‘‘ کا آئینی راستہ کیا ہو؟ سوائے اس کے اس کے ارکان رضاکارانہ استعفے دے دیں یا اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی طرح ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس پیش کئے جائیں‘ لیکن اس کے لیے ان کے خلاف الزامات کے ٹھوس ثبوت چاہئیں محض خان کی خواہش پر انہیں ”قربانی کا بکرا‘‘ نہیں بنایا جا سکتا۔ خان کا کہنا ہے کہ نئے قائد حزب اختلاف کا تقرر نہ ہوا تو نیب کے نئے سربراہ اور اور نگران حکومتوں کے تقرر پر ماضی کی طرح ”مک مکا‘‘ ہو جائے گا۔ گزشتہ قومی اسمبلی میں چوہدری نثار علی خان قائد حزب اختلاف تھے۔ چیف الیکشن کمشنر کے تقرر اور نگران وزیر اعظم کے لیے حزب اختلاف کی طرف سے نام دینے سے قبل انہوں نے خان صاحب سے بھی مشاورت کی تھی۔ جناب جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم کے تقرر پر خان صاحب سمیت ساری قوم نے بھرپور اعتماد اور اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ خان صاحب (اور خود چیف الیکشن کمشنر) کے اصرار پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری عام انتخابات کے لیے عدلیہ کی خدمات مہیا کرنے پر بڑی مشکل سے رضامند ہوئے تھے۔ لیکن انتخابات کے بعد خان صاحب عدلیہ پر تنقید کے علاوہ الیکشن کمیشن پر بھی نااہلی اور دھاندلی کا الزام لگا رہے تھے۔ ایک اور بات جس کی طرف خان صاحب کا دھیان شاید نہیں گیا‘ وہ یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں تو خود ان کی حکومت ہے چنانچہ یہاں نگران حکومت کے لیے خود ان کے وزیر اعلیٰ کا کردار بھی اہم ہو گا۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے‘ پنجاب میں قائد حزب اختلاف تحریک انصاف کا ہے‘ چنانچہ یہاں بھی نگران حکومت کے لیے اس کی ”مشاورت‘‘ لازم ہو گی۔
جمعرات کی صبح فرزند راولپنڈی کی گفتگو بہت الارمنگ تھی۔ وہ نئے انتخابات کے لیے نئے الیکشن کمیشن کا مطالبہ کر رہا تھا‘ جس کے ارکان ایماندار‘ دیانتدار‘ صادق اور امین ہوں۔ لیکن پھر وہی سوال کہ محض خان کی خوشنودی کے لیے موجودہ الیکشن کمشن سے نجات کا آئینی راستہ کیا ہو؟ وفاق میں نگران حکومت کے لیے بھی خان کی رضامندی کو ضروری قرار دیتے ہوئے اس کا کہنا تھا‘ یہ دونوں شرائط پوری نہ ہوئیں تو نئے انتخابات نہیں ہو سکیں گے۔ اس کے لیے وہ یکم اکتوبر سے شروع ہونے والے آئندہ تین ماہ کو فیصلہ کن قرار دے رہا تھا‘ تو کیا ملک کسی ٹیکنوکریٹ حکومت کی طرف بڑھ رہا ہے اور کیا اس کے نتائج و عواقب پر بھی غور کر لیا گیا ہے؟