خفیہ مفاہمت…کنور دلشاد
2018ء کے انتخابات کا سفر شروع ہو چکا ہے۔ اقتدار کے حصول کی کشمکش میں بہت سے مسائل سر اٹھا سکتے ہیں۔ 7 دسمبر 1970ء کے انتخابات بھی کوئی اچھی خبر نہیں لائے تھے۔ مشرقی پاکستان کا سانحہ پیش آیا تھا اور مغربی پاکستان کو کیبنٹ ڈویژن کے سیکرٹری جنرل غلام اسحاق خان نے پاکستان کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کے لئے مارشل لا آرڈر کا سہارا لیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمان اپنے اپنے حصے کے خود صدر بن بیٹھے۔ جس الیکشن کے بعد پاکستان دولخت ہو گیا وہ الیکشن متحدہ پاکستان کے تحت کروائے گئے تھے۔ الیکشن کے نتائج کو لازمی طور پر غیر موثر کالعدم اور منسوخ ہو جانا چاہئے تھا کیونکہ 1970ء کے انتخابات آئین ساز اسمبلی کے لئے کروائے گئے تھے۔ اس الیکشن میں شیخ مجیب الرحمان متحدہ اسمبلی میں 163 ارکان کی اکثریت سے ابھرے تھے اور مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں سے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو 83 ارکان سے کامیاب ہوئے تھے۔ بین الاقوامی اصولوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق مغربی پاکستان اور بنگلہ دیش میں از سر نو انتخابات ہونے لازمی تھے۔ بنگلہ دیش میں ایک کروڑ کے لگ بھگ ایسے بھی تھے جو مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی کے حق میں نہیں تھے۔ اسی طرح مغربی پاکستان میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے حق میں نہیں تھے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کے دولخت ہونے کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔ دونوں ممالک نے نئے الیکشن سے گریز کیا اور اسی الیکشن سے استفادہ کیا جو آئینی طور پر غیر موثر ہو چکے تھے۔ لہٰذا جو آئین ساز اسمبلی کا اجلاس 14 اپریل 1972ء کو ہوا وہ میرے خیال میں غیر آئینی تھا۔
پاکستان کے سابق چیف جسٹس ناصرالملک کے نگران وزیر اعظم مقرر ہونے سے الیکشن کے موخر ہونے کے تمام اندیشے خود بخود ختم ہو گئے اور گہری دھند کے بادل چھٹ گئے ہیں۔ اب پاکستان نئے قومی انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مختلف نوعیت کی قیاس آرائیاں اور مفروضے دم توڑ چکے ہیں۔ آصف علی زرداری نواز شریف سے بالا بالا شہباز شریف کے قریب ہو رہے ہیں اور ان سے خفیہ طور پر رابطے میں ہیں۔ عوام کی توجہ بٹانے کے لئے شہباز شریف آصف علی زرداری پر تنقید کرتے رہے۔ جوابی فائرنگ میںآصف علی زرداری نواز شریف کو آڑے ہاتھوں لیتے رہے اور شہباز شریف کو نظر انداز کر دیا۔ اسی پس منظر میں آصف علی زرداری اور شہباز شریف کے درمیان عاصمہ جہانگیر کی وساطت سے ملک کی ممتاز صحافی خاتون کے ہاں مفاہمت کے لئے ملاقات ہوئی۔ وہ پاکستان کی مایہ ناز صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ دانشور اور سیاسی پس منظر رکھنے والی بیباک، غیر جانبدار معتبر خاتون کا درجہ رکھتی ہیں اور محترمہ بے نظیر بھٹو بھی پریشانی کے عالم میں ان کے پاس مشاورت کے لئے اکثر جایا کرتی تھیں۔ ہماری اطلاع یہ ہے کہ آصف علی زرداری نے بھی بے نظیر بھٹو کی راہ تلاش کرتے ہوئے ان کے گھر میں ہی غالباً شہباز شریف سے ملاقات کرکے آئندہ کے انتخابات کی حکمت عملی تیار کی اور اب مفاہمت اندر سے آگے بڑھ رہی ہے‘ اور نگران وزیر اعلیٰ کے تقرر کے بعد اس مفاہمت میں مزید رنگ بھرے جائیں گے۔ 1966ء سے 1917ء تک پنجاب کے با اثر گھرانوں کے بارے میں ملک حیات ٹمن اچھی خاصی معلومات رکھتے تھے۔ بعد ازاں پنجاب حکومت کے سیکر ٹری داخلہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ پنجاب کی تمام برادریوں کے بارے میں گہرا ادراک رکھتے تھے۔
2023ء میں آصف علی زرداری بلاول زرداری کو ملک کا وزیر اعظم بنوانا چاہتے ہیں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی اپنی جڑیں مضبوط کر ے‘ بصورت دیگر آصف علی زرداری پنجاب میں سیاسی گرفت مضبوط نہیں کر پائیں گے۔ آصف علی زرداری اعلانیہ طور پر کہہ رہے ہیں کہ پنجاب میںان کی حکومت ہو گی۔
شہباز شریف نے آصف علی زرداری سے یہ خفیہ مفاہمت کر لی ہے کیونکہ آصف علی زرداری کو پورا یقین ہے کہ وہ عمران خان کی انتخابی حکمت عملی کو اسی لئے ناکام بنا دیں گے کہ ان (عمران) کے پاس ایسی ٹیم کا فقدان ہے جو ان کی جوڑ توڑ کی سیاست کا مقابلہ کر سکے۔ چوہدری سرور میں یہ صلاحیت موجود ہے لیکن ان کو جہانگیر ترین اور ان کی ٹیم آگے بڑھنے نہیں دے رہے۔ آصف علی زرداری نے شہباز شریف سے اس مفاہمت کیلئے کوشش سینیٹ الیکشن سے پہلے ہی شروع کر دی تھی‘ اور آئین کے آرٹیکل 51 میں مردم شماری کی عبوری رپورٹ پر حلقہ بندیاں کرانے کی ترمیم کو 42 روز تک ٹھکانے لگائے رکھا۔ اس دوران الیکشن 2018ء کے لئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بارے میں خفیہ ڈیل ہو رہی تھی۔ آصف علی زرداری نے بیک وقت عمران خان سے بھی رابطہ قائم رکھا اور ان کے مشترکہ دوست کراچی، دوبئی اور لندن میں رابطے میں ہیں‘ لیکن شہباز شریف نے آصف علی زرداری کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور ملک کے تین بڑے عہدے وزیر اعظم پاکستان، صدر پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب ان کے حوالے کرنے پر مفاہمت کر لی۔ اگر پیپلز پارٹی کو صدر پاکستان کا عہدہ دیا جاتا ہے تو میرے خیال میں صدر جنوبی پنجاب سے ہی آئے گا، اور قوی امکان ہے کہ وہ ذکاء اشرف ہوں گے اور پھر انہی کے ذریعے پنجاب میں پیپلز پارٹی کو مضبوط کیا جائے گا‘ لہٰذا آصف علی زرداری آئندہ انتخابات میں پنجاب سے تیس کے لگ بھگ صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیتنا چاہتے ہیں تاکہ اس کے بعد پنجاب میں اقلیت میں ہونے کے باوجود وہ وفاق میں‘ جہاں وہ پچاس سے زائد قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل کر چکے ہوں گے‘ شہباز شریف سے وزارتِ عظمیٰ کے عوض پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر مفاہمت کریں گے اور اگر یہ بھی شہباز شریف کو منظور نہ ہوا تو صدرِ پاکستان کا عہدہ‘ جو اسی سال ستمبر میں خالی ہو رہا ہے‘ وہ ہر حال میں آخری آپشن کے طور پر حاصل کر لیں گے۔ اسی طرح آصف علی زرداری سینیٹ میں سنجرانی کو لا کر وفاق میں شہباز لیگ کی حمایت کرکے جمہوریت کو کسی نہ کسی طرح متوازن رکھیں گے۔ آصف علی زرداری انتہائی ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کو سائیڈ لائن کرنے کی حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں، اور عمران خان کا اگلی حکومت بنانے سے راستہ روک رہے ہیں کیونکہ ان کو خطرہ ہے کہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے سے پیپلز پارٹی متاثر ہو گی اور شہباز شریف کی پارٹی کو سیاسی نقصان کم ہو گا۔ اسی حکمت عملی کے تحت آصف علی زرداری اور شہباز شریف نے اپنی پارٹی کے تقریباً ہر اس راہنما کو‘ جسے پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ن کے ٹکٹ سے کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی‘ تحریک انصاف میں دھکیل دیا ہے اور عمران خان اسی میں خوش ہیں کہ ان کی پارٹی کی مقبولیت کے باعث یہ لوگ ان کے ساتھ جوق در جوق شامل ہو رہے ہیں۔ عمران خان کو یہ ادراک ہی نہیں کہ یہ آصف علی زرداری کے خفیہ پلان کی کامیابی ہے اور اسی خفیہ پلان میں ان کو ایک میڈیا ہائوس کی آشیرباد بھی حاصل ہے۔ پیپلز پارٹی آئندہ انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کرے گی‘ اور یہ بھی خفیہ پلان کا ہی حصہ ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے ہی خلاف اپنے ہم نوا صحافیوں سے کالم لکھوا رہی ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی متاثر کن کامیابی حاصل نہیں کرے گی جبکہ اس کے برعکس پیپلز پارٹی عمران خان کو نفسیاتی طور پر باور کروا رہی ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی متاثر کن کامیابی سے محروم ہوتی جا رہی ہے حالانکہ حالات یہ غمازی کر رہے ہیں کہ الیکشن کے نتائج آنے کے بعد شہباز شریف اور تحریک انصاف دونوں میں آصف علی زرداری بہتر پوزیشن میں ہوں گے‘ اور اسی طرح صوبہ خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی حیران کن کامیابی حاصل کرکے عمران کو الگ تھلگ کر دے گی۔
ہنگامہ خیز اقتدار کی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرکے موجودہ وفاقی صوبائی حکومتیں سبکدوش اور چاروں صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی تحلیل ہو چکی ہیں‘ اور آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت پاکستان کے سابق چیف جسٹس ناصرالملک کی قیادت میں نگران حکومت نے ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صدر مملکت سے مشاورت کے بعد 25 جولائی کو عام انتخابات کرانے کا شیڈول جاری کر دیا ہے‘ جس کے نتیجہ میں وفاق اور صوبوں میں نئی حکومتیں بنیں گی اور جمہوریت کے لئے نئے سفر کا آغاز ہو جائے گا۔2018ء کے انتخابات قوم اور تمام سیاسی پارٹیوں کے لئے مواقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ ماضی و حال کے تناظر میں خود احتسابی کے ذریعے میگا کرپشن کا جائزہ لیں اور نواز شریف اور ان کے خاندان کے ساتھ پیش آنے والے معاملات سے عبرت حاصل کریں۔