’’ خلائی مخلوق ‘‘ … اور شوکت خانم کی کہانی….رؤف طاہر
سابق وزیراعظم نے ساہی وال کے جلسے میں ” نظر نہ آنے والی قوتیں ‘‘ کہا تھا ( اختصار کے لئے ” نادیدہ قوتیں ‘‘ کہہ لیں ) جبکہ صادق آباد کے جلسے میں ” خلائی مخلوق ‘‘ کے الفاظ استعمال کئے۔ مریم کا تبصرہ بھی دلچسپ تھا ،” جلسہ صادق آباد کا ، مجمع بھی صادق آباد کا ، لیڈر عوام کا ، ایجنڈا پاکستان کا ‘‘۔ عمران خان کے لاہور والے جلسے کے حوالے سے سوشل میڈیا اس دس لفظی تبصرے سے بھرا ہوا تھا، ” جلسہ لہور دا ، مجمع پشور دا، ایجنڈا کسے ہور دا ‘‘ (جلسہ لاہور کا ، مجمع پشاور کا ، ایجنڈا کسی اور کا)۔یہی الفاظ میاں صاحب نے سوموار کی صبح نیب کورٹ کے باہر اخبار نویسوں سے گفتگو میں دہرا دیئے اور میرے خیال میں اس میں کچھ غلط بھی نہ تھا۔ ہمیں پھر خان کا 30 اکتوبر 2011 ء کا جلسہ یاد آیا۔ کوئی عصر کے لگ بھگ شامی صاحب کا فون آیا ، کہاں ہو ؟ ہم انجینئرنگ یونیورسٹی کے قریب ، جی ٹی روڈ پر ، عوامی فلیٹس میں محمد طاہر کے پاس تھے ۔ کراچی کا دانشور ان دنوں لاہور میں مقیم تھا۔ دنیا نیوز کے لئے وہ رات کا ایک پروگرام کرتا۔ سلمان غنی لاہور میں اس کے سہولت کاروں میں شامل تھے ۔ ہمارے شامی صاحب بھی با صلاحیت نوجوانوں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کو مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں اور طاہر بھی ان خوش بختو ںمیں تھا۔
” عوامی فلیٹس ‘‘ کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ بے نظیر بھٹو (کے دوسرے دور ) سے ورثے میں ملنے والی جاں بلب معیشت ابھی سانس لینے کے قابل ہوئی ہی تھی کہ مئی 1998 ء کے ایٹمی دھماکوں کے نتیجے میں عالمی اقتصادی پابندیوں نے آلیا لیکن نوازشریف نے ہمت نہ ہاری۔ اس کے سامنے دوسری جنگ عظیم کے تباہ حال یورپ کا ماسٹر پلان تھا۔ اس نے ” اپنا گھر سکیم ‘‘ کے تحت ملک بھر میں پانچ لاکھ گھروں کی تعمیر کا منصوبہ بنایا جو بے گھر لوگوں کو آسان اقساط پر ملنا تھے ۔ ( ان قسطوں کو ماہانہ کرایہ سمجھ لیں ) پھر 12 اکتوبر ہوگیا۔ زیر تعمیر فلیٹس پر باقی ماندہ کام مشرف دور میں ہوا لیکن بے گھر مستحقین کو الاٹ منٹ کی بجائے انہیں اصحاب ثروت کو نیلام کر دیا گیا۔ محمد طاہر اس فلیٹ میں ایک ریٹائرڈ افسر کا کرایہ دار تھا … (لاہور کے نئے ایئر پورٹ سمیت تعمیر و ترقی کے کئی اور منصوبے اس سکیم کے علاوہ تھے ۔ )
30 اکتوبر 2011 ء کی اُس سہ پہر شامی صاحب نے ہمیں یہیں سے لے لیا۔ پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کے ڈاکٹر امان اللہ ملک بھی ہمراہ تھے ۔ایک ہجوم تھا، جو پیدل مینار پاکستان کی جانب رواں دواں تھا۔ کوئی ڈیڑھ کلو میٹر دور ہمیں گاڑی چھوڑنا پڑی ۔ لیکن اب 29 اپریل کے جلسے پر لاہور میں کچھ بھی غیر معمولی نہ تھا۔ جلسے کے ” پِیک آورز ‘‘ میں (خان کی تقریر کے دوران بھی ) اس علاقے میں گاڑی پر آسانی سے گھوم پھر سکتے تھے ۔یہاں خان کے جلسوں والے تمام روایتی عناصر موجود تھے۔ نہیں تھے تو لاہوریے نہیں تھے۔
خان کی تقریباً 2 گھنٹے کی تقریر کا بیشتر حصہ شوکت خانم کی دلگدازکہانی تھی۔ اذیت دہ مرض سے دو چار ماں کی کہانی، جس کے بیٹے نے اس کی یاد میں کینسر ہسپتال بنانے کا فیصلہ کیا اور پھر ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ اس نے اس شب کا ذکر بھی کیا ، جب گڑھی شاہو لاہور کی مسجد میں، علاقے کے کم وسیلہ ، بلکہ غریب اور نادار لوگوں نے بھی ، پانچ ، پانچ ، دس ، دس روپے کے نوٹوں سے اس کی جھولی بھر دی تھی۔ یاد آیا ، اُس صبح ہمارے بچوں کے جوش و خروش کا بھی کیا عالم تھا۔ وہ ڈبل پاکٹ منی کا مطالبہ کررہے تھے، سکول سے واپس آکر بتایا کہ اس روز وقفے کے دوران انہوں نے کچھ بھی کھایا پیا نہیں تھا اور ساری رقم کرکٹ ہیرو کی نذر کر دی تھی۔
خان کی یہ ادا بھی اچھی لگی کہ اس نے شوکت خانم کی مہم میں اہم کردار ادا کرنے والے مرحومین کو بھی یاد کیا، احسن رشید اور سلونی بخاری ۔ ہم نے 1998 ء کے اواخر میں بسلسلہ روزگار جدہ ہجرت کی تو ابتدا ہی سے جن احباب کی محبت بھری سرپرستی حاصل رہی، ان میں احسن بھی تھے،وہاں جرمن ٹیکنالوجی کی حامل ایک ملٹی نیشنل آئل کمپنی کے سربراہ ، بحر احمر کے کنارے ان کے عالیشان بنگلے میں ضیافتیں ہم آج تک نہیں بھولے۔ وہ پاکستانیوں کے مسائل میں خصوصی دلچسپی لیتے اور انہیں حل کرنے میں مقدور بھر معاونت بھی کرتے۔ پاکستان کے قومی کاز میں بھی پیش پیش ہوتے۔ عمران کی شوکت خانم مہم میں، سعودی ایلیٹ کے خاص تعاون کا وہ اہم ذریعہ تھے۔ شوکت خانم مکمل ہوا اور عمران خان نے سیاست کو ہول ٹائم لیا تو احسن رشید بھی جدہ سے لاہور چلے آئے۔ پی ٹی آئی کے پارٹی الیکشن میں ، وہ اعجاز چودھری کے ہاتھوں پِٹ گئے۔ کہا جاتا ہے، پی ٹی آئی کی ایلیٹ کلاس ، ایک ” نو وارد ‘‘ سے خوف زدہ تھی، جو روپے پیسے میں ان سے کم نہ تھا اور خلوص و اخلاص اور مہرو وفا میں ان سے کہیں بڑھ کر تھا۔ پی ٹی آئی کے صوبائی الیکشن میں ہمارے مڈل کلاسیئے دوست اعجاز چودھری کو ، احسن رشید کے مقابلے میں اسی ایلیٹ کلاس کی سرپرستی حاصل تھی۔ پارٹی الیکشن میں بوگس ووٹر لسٹوں ، روپے پیسے کے ا ستعمال اور دھونس دھندلی کی دیگر شکایات پر خان نے جسٹس (ر) وجیہہ الدین کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن قائم کیا جس نے لمبی چوڑی تحقیقات کے بعد ، الیکشن نتائج کو کالعدم قرار دینے ، اور جناب جہانگیر ترین ، پرویز خٹک ،علیم خاں اور نادر لغاری کے اخراج کی سفارش کی تھی۔شوکت خانم کے لئے سلونی بخاری کی خدمات بھی تحسین کے قابل تھیں۔ قدرت کے اپنے کام ہیں، کینسر کے خلاف جہاد میں پیش پیش ، احسن رشید اور سلونی بخاری اسی موذی مرض کے ہاتھوں شکست سے دو چار ہوئے۔
شوکت خانم کے لئے خدمات کے حوالے سے نوازشریف کا ذکر خلافِ مصلحت تھا، کہ اب وہ سیاسی حریف ہے (اپنی وزارتِ اعلیٰ کے دوران اس نے اس کار خیر کے لئے 15 ایکڑ (سرکاری) اراضی عطیہ کی تھی۔ خان نے ہسپتال کا سنگِ بنیاد بھی اسی سے رکھوایا تھا۔ (بعد میں اسے اکھاڑ پھینکا۔ )شہباز شریف نے جلا وطنی کے دنوں میں، جدہ سے 25 لاکھ بھجوائے۔ خان نے سرور پیلس آ کر شکریہ ادا کیا۔ ) لیکن مرحومین میں غلام حیدر وائیں کا ذکر تو کیا جاسکتا تھا، جس نے ا پنی وزارتِ اعلیٰ کے دوران شوکت خانم کے لئے پانچ ایکڑ کا اضافہ کیا… اور فن و ثقافت کا مقبول کردار دلدار پرویز بھٹی، جو شوکت خانم کی فنڈ ریزنگ میں فی سبیل اللہ شریک رہا اور اسی مہم کے دوران نیو یارک میں اگلے جہان سدھار گیا۔ نیویارک کے صحافی اشرف قریشی راوی ہیں کہ دلدار کی میت کی پاکستان روانگی کا سارا انتظام مرحوم کے ٹیکسی ڈرائیور بھتیجے نے کیا تھا…
اور مشرقی موسیقی کو نیا رنگ اور نیا آہنگ دینے والا عظیم فنکار ، نصرت فتح علی خاں، جسے اندرون و بیرون ملک لاکھوں، کروڑوں کی پیشکش والے پروگراموں کے لئے فرصت نہ ہوتی لیکن شوکت خانم کے لئے بلامعاوضہ پرفارمنس سے وہ کبھی انکار نہ کرتا۔ مختلف ملکوں میں اس کے ان پروگراموں کی تعداد پچاس سے کم نہ تھی۔
خان کے گیارہ نکات میں تعلیم ، صحت ، زراعت ، ماحولیات، پولیس، خواتین کے امور ، احتساب اور روزگار سمیت آٹھ ، نو نکات صوبائی سبجیکٹس ہیں۔ خیبر پختونخوا میں اس کی حکومت ہے۔ کاش ! وہ بتا سکتا کہ ان پانچ برسوں میں اپنے صوبے میں اس حکومت کی کارکردگی کیا رہی ؟
معزول وزیراعظم کی رابطۂ عوام مہم نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ۔ساہی وال کا جلسہ اسی علاقے کا جلسہ تھا، زیادہ سے زیادہ پچیس تیس کلو میٹر کے علاقوں سے لوگ آئے تھے۔ صادق آباد کے جلسے کی اپنی اہمیت تھی۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے بعد ، اب یہاں بہاولپور صوبے کی پرانی تحریک نے بھی نئی انگڑائی لی ہے، اس کے باوجود صادق آباد کا جلسہ عوام کی شرکت اور جوش و خروش کے حوالے سے بے پناہ تھا اور اہم تر بات یہ کہ اپنے عوام سے کہنے کے لئے نوازشریف کے پاس ” سیاست ‘‘ کے علاوہ ” کارکردگی ‘‘ بھی ہوتی ہے، ان علاقوں میں عوامی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی کے کاموں کی فہرست …وہ ایک ایک کا ذکر کرتا ہے، خلقِ خدا پرُجوش نعروں سے جس کی تائید کرتی ہے ۔ اور پھر موٹرویز … ساہی وال کے جلسے میں اس نے لاہور ، ملتان موٹر وے کا ذکر کیا اور صادق آباد میں ملتان ، سکھر موٹر وے کا حوالہ ۔ اقبال نے کہا تھاع
پیش کرنا داں اگر کوئی عمل دفتر میں ہے
نوازشریف اپنا نامۂ اعمال پیش کررہا ہے۔ خان بھی خیبر پختونخوا کے حوالے سے اپنی فردِ عمل پیش کرے۔