بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کے پاس کوئی قیادت نہیں رہی تھی۔ بھٹو خاندان قیادت کے لئے دستیاب نہ رہا۔ بی بی کے شوہر جناب آصف علی زرداری نے نہ جانے کن وجوہ کی بنا پر خود کو بھٹو خاندان کا جانشین سمجھتے ہوئے پارٹی قیادت سنبھال لی۔ مگر ان میں وہ قائدانہ خصوصیات موجود نہیں‘ جن کی بنا پر پاکستان جیسے ملک میں سیاسی پارٹی کو چلایا جا سکتا ہے۔ زرداری صاحب‘ ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی شہید کے جانشین بننے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ بی بی کی شہادت کے نتیجے میں رہے سہے ووٹ پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو دیئے گئے۔ انہیں صرف پنجاب سے کامیاب ہونے والے چند امیدواروں کی حمایت سے وفاقی حکومت بنانے کا موقع ملا۔ پارٹی سندھ کے سوا کسی صوبے میں اپنی حکومت نہ بنا سکی۔ بلوچستان میں نواب اسلم رئیسانی کو پیپلز پارٹی کے نام پر حکومت ضرور دی گئی‘ لیکن ان کی شخصیت ایسی نہیں تھی کہ بلوچستان جیسے صوبے میں موثر حکومت بنا سکتے۔ انہیں کسی موقع پر بھی ایک مضبوط وزیر اعلیٰ بننے کا موقع نہیں ملا۔ بلوچستان کی روایتی مخلوط حکومتوں کی طرح وہاں بھی اپنے اپنے مفادات کو برقرار رکھنے والوں نے صوبائی حکومت چلائی۔ بطور پارٹی سربراہ کے آصف زرداری پیپلز پارٹی کے نام پر حکومت کرنے والوں کی سیاسی طاقت برقرار نہ رکھ سکے۔ خود زرداری صاحب صدر مملکت بننے کے بعد پارٹی کو قیادت فراہم کرنے کے قابل نہ رہے۔ گویا پیپلز پارٹی مجموعی طور پر بی بی شہید کی جگہ پُر کرنے کے قابل نہ رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی شہادت کے بعد پارٹی اپنا وجود پوری طرح برقرار نہ رکھ پائی۔ بی بی کی شہادت کے نتیجے میں جن حلقوں میں بھٹو صاحب کا اثر تھا‘ وہاں سے امیدوار تو ضرور کامیاب ہوئے‘ لیکن زرداری صاحب کے لئے مشکل یہ تھی کہ انہیں قومی سطح کے کسی لیڈر کا تعاون حاصل نہ ہوا۔ انہوں نے وفاق میں پارٹی کے امیدواروں کی مدد سے بطور صدر‘ مخدوم یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعظم بنوایا‘ لیکن ان کا طرز حکومت کچھ ایسا تھا کہ وہ قومی لیڈر کی حیثیت حاصل نہ کر سکے۔ مثلاً سندھ میں حکومت پیپلز پارٹی کی تھی‘ لیکن وہاں ان کے ذاتی اثرات نہ ہونے کے برابر تھے۔ دوسرے کسی صوبے میں ان کا سیاسی اثر و رسوخ ایسا نہیں تھا کہ بی بی شہید کا متبادل فراہم کر سکتے۔ نتیجہ یہ تھا کہ یوسف رضا گیلانی‘ صرف آصف زرداری کے سیاسی طور طریقوں کے محتاج بن کر رہ گئے۔ حقیقت یہ تھی کہ بطور پارٹی حکومت چلانا‘ بی بی شہید کا جانشین بننے والوں کے بس کی بات نہیں تھی۔
جانشینوں کا یہ ٹولہ‘ بھٹو صاحب اور بی بی شہید کا پیدا کردہ خلا پُر نہ کر سکا۔ ادھر پنجاب میں نواز لیگ کی حکومت‘ شہباز شریف کے زیر قیادت مضبوطی سے قائم ہوئی تھی۔ انہوں نے بیوروکریسی کو اپنے تجربے اور مہارت کی بنا پر پوری طرح سے قابو میں رکھا ہوا تھا۔ سندھ میں قائم علی شاہ کامیاب حکومت چلانے میں ناکام رہے۔ وہاں پر آصف زرداری اور ان کے خاندان نے پارٹی کی اصلی قیادت کا خلا پُر کرنے پر توجہ نہیں دی۔ وہاں پارٹی کی حکومت‘ آصف زرداری کے ذاتی اور خاندانی مفادات پورے کرنے پر مامور ہو گئی۔ سندھ کے لیڈروں کے پاس کوئی سیاسی پروگرام اور نظریہ موجود نہیں رہا۔ خود زرداری صاحب‘ بھٹو صاحب کے نظریات اور سیاسی فلسفے سے محروم تھے۔ وہ پارٹی کو صرف اپنے خاندان تک محدود رکھنے کے خواہش مند تھے۔ 2013ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی پنجاب کی حمایت حاصل نہیں کر پائی۔ ن لیگ آٹھ سال کی صوبائی حکومت کے اختیارات استعمال کر کے اپنے حامیوں کا مضبوط نیٹ ورک بنانے میں کامیاب رہی۔ وفاقی حکومت ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کے وزرا پنجاب میں شہباز شریف کی مضبوط انتظامی صلاحیتوں کو شکست نہ دے سکے۔ آئینی ترامیم کے بعد‘ وفاقی حکومت کے اختیارات بڑی حد تک کم ہو چکے تھے۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شہباز شریف نے ن لیگ کو خاندانی طاقت کا حصہ بنا لیا۔ پیپلز پارٹی کے پاس کوئی مرکزی لیڈر موجود نہ رہا‘ جبکہ نوازشریف سیاسی حمایت حاصل کر کے دوسرے صوبوں میں بھی اپنا رسوخ قائم کرنے میں کامیاب رہے۔
آج صورتحال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی‘ سندھ میں صوبائی حکومت ہونے کے باوجود طاقت کے مراکز میں کوئی اثر و رسوخ نہیں رکھتی۔ خیبر پختونخوا میں وہ پوری طرح حلقہ اقتدار سے باہر ہو چکی ہے۔ پنجاب میں پرانے اثرات کے تحت کبھی کبھار وہ اپنے وجود کا احساس ضرور دلاتی ہے‘ مگر اس کے پیچھے عوامی طاقت کا وہ ہجوم باقی نہیں رہ گیا کہ جلسوں یا جلوسوں میں وہ طاقتور افرادی قوت جمع کر سکے‘ جس سے حکومتیں گھبرایا کرتی تھیں۔ اب پیپلز پارٹی کے نام پر جو لوگ جمع ہوتے ہیں‘ انہیں بی بی شہید اور بھٹو صاحب کی جگہ پُر کرنے کے لئے کوئی متبادل قیادت دستیاب نہیں۔ مشکل یہ ہے کہ دوسرا کوئی لیڈر بھی قیادت کا وہ خلا پُر نہیں کر سکتا‘ جو بھٹو خاندان کے قائدین کی شہادتوںکے بعد پیدا ہوا۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کو پنجاب میں وہ حمایت حاصل نہ رہی‘ جس کی طاقت سے صوبائی حکومت بنائی جا سکتی اور جن وزرائے اعظم کو پارٹی کے نام پر آگے لایا گیا‘ انہیں پارٹی میں کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔ ان میں مرکزی قائدین بننے کی نہ صلاحیت تھی اور نہ ہی وہ کسی بھی زمانے میں قومی سطح پر اپنی حیثیت بنا پائے تھے۔ اب سیاسی طاقتیں عملاً صوبوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔
پیپلزپارٹی پورے ملک میں سیاسی طاقت کی حیثیت سے کام کر چکی ہے‘ مگر اب اس کے پاس سندھ کے سوا کچھ نہیں رہ گیا۔ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) نے حصہ پتی کر کے وزارت اعلیٰ حاصل کی ہے‘ مگر ملک گیر سطح پر وہ سیاسی طاقت حاصل نہیں کر پائی کہ ایک قومی جماعت کہلا سکے۔ حقیقت میں ن لیگ بھی ایک صوبائی جماعت ہے‘ لیکن پنجاب کی آبادی اور وسائل کے اعتبار سے وہ ملک کے انتظامی ڈھانچے میں مضبوط اثر و رسوخ پیدا کر چکی ہے۔ وہ پنجاب کے صوبائی اختیارات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی سیاسی طاقت میں اضافہ کرتی رہتی ہے۔ اس کے پاس نہ کوئی سیاسی فلسفہ ہے اور نہ پروگرام۔ عوامی حقوق حاصل کرنے کے لئے بھی اس نے کبھی سیاسی جدوجہد نہیں کی۔
آج عوام سیاسی عمل میں شریک نہیں۔ دستیاب سیاسی جماعتوں میں کوئی بھی نہ عوامی حقوق حاصل کرنے کی خواہش مند ہے اور نہ ہی کسی کے پاس ایسی قیادت موجود ہے‘ جو ملک کی تقدیر بدلنے کا منصوبہ یا نظریہ رکھتی ہو۔ صرف عمران خان‘ تبدیلی کے نعرے پر مقبولیت حاصل کر رہے ہیں‘ لیکن وہ بھی کوئی ٹھوس اور واضح پروگرام سامنے نہیں لا سکے۔ پاکستانی سیاست‘ اجتماعی خوابوں اور نظریات سے بڑی حد تک محروم اور مستقبل کی تعمیر کے عمل میں نظریات اور قیادت فراہم کرنے کے معاملے میں بالکل تہی دست ہے۔ سچ یہ ہے کہ سیاست میں مفادات کی بالادستی نے نظریات پر غلبہ حاصل کر لیا ہے۔ مجھے پاکستان میں ایسی کوئی پارٹی نظر نہیں آ رہی جس کے پاس مستقبل کے حوالے سے کوئی پروگرام یا نظریہ موجود ہو۔ چند ایک مذہبی جماعتیں‘ طویل مدتی منصوبوں پر باتیں ضرور کرتی ہیں‘ اور اپنے اپنے عقائد کی روشنی میں پروگرام بھی پیش کرتی ہیں‘ مگر انہیں اتنی عوامی حیثیت حاصل نہیں ہوتی کہ وہ انتخابات میں اکثریتی ووٹ حاصل کر سکیں۔ علاقائی یا مقامی طور پر تھوڑے بہت ووٹ حاصل کر لیتی ہیں‘ لیکن حکومتیں بنانے کے قابل نہیں ہیں۔ سیاسی تصورات کی موجودہ صورتحال دیکھ کر شدید مایوسی پیدا ہو رہی ہے اور مستقبل کے خوابوں کی تعبیر کے لئے راہیں بنتی نظر نہیں آ رہیں۔