منتخب کردہ کالم

خواجہ صاحب….محمد بلال غوری

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی مثال اس لاچار شخص کی سی ہے جس نے اپنی نخریلی بیوی کو بھی خوش رکھنا ہے اور ہٹلر مزاج ماں کو بھی ناراض نہیں ہونے دینا۔ خدا جانے وہ یہ دوہری ذمہ داریاں کب تک بطریق احسن سرانجام دے پاتے ہیں اور اپنے گھر کو ٹوٹنے سے بچاتے ہیں۔ ان کی کابینہ میں چند متحرک و فعال وزرا کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے نوآموز وزیر اعظم ”کھڑپینچوں‘‘ میں گھر گئے ہیں‘ مگر بیشمار وزرا ایسے بھی ہیں جو جھنڈے والی گاڑی اور پروٹوکول پر ہی خوش ہیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی کابینہ میں 38 وزرا شامل تھے مگر شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں 29 وفاقی وزرا، 18 وزرائے مملکت، 4 مشیر اور 8 خصوصی معاون شامل ہیں۔ 18ویں ترمیم کی رو سے وفاقی کابینہ کے ارکان کی تعداد 49 سے زیادہ نہیں ہو سکتی‘ لیکن اس وقت وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی 59 ارکان پر مشتمل بھاری بھرکم کابینہ کے ساتھ حکومت چلا رہے ہیں۔ اپوزیشن ہو، میڈیا یا پارلیمنٹ، سب احتساب عدالتوں میں جاری معاملات میں اس قدر محو ہیں کہ اس طرف کسی کا دھیان ہی نہیں گیا۔ یوں تو بیشتر وفاقی وزیر ان دنوں پروٹوکول پر مامور ہیں‘ یا پھر انہیں میڈیا ٹاک سے ہی فرصت نہیں ملتی مگر جو اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حوالے سے مشہور ہیں، وہ بھی مفلوج نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو احتساب عدالت پیشیوں اور اپنے وکلا سے مشاورت سے فرصت ملے تو وہ قومی خزانے کے بارے میں کچھ سوچیں۔ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کس قدر بااختیار ہیں، یہ بات تو اسی دن سب کو معلوم ہو گئی تھی‘ جس دن انہیں جوڈیشل کمپلیکس میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔ ہمارے دوست مشاہداللہ خان کلائمیٹ چینج کے وفاقی وزیر ہیں۔ وہ جب ترنگ میں آتے ہیں تو لگی لپٹی رکھے بغیر کوئی ایسا بیان داغ دیتے ہیں‘ جس سے سیاسی ماحول تبدیل ہو جاتا ہے۔ انجینئر خرم دستگیر دفاع کے وفاقی وزیر ہیں لیکن آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں قیام پاکستان کے بعد اس تگڑی وزارت کو کوئی مائی کا لال چلا سکا ہے بھلا؟ خواجہ آصف جیسا دبنگ وزیر یہ قلمدان لینے کے بعد ہومیوپیتھک ہو گیا تو خرم دستگیر سے کیسا گلہ۔ رانا تنویر حسین دفاعی پیداوار کے وفاقی وزیر ہیں اور شاید ان کے فرشتے بھی اس بات سے بے خبر ہوںگے کہ ان دنوں دفاعی پیداوار اور دفاعی اثاثوں کو ”مین سٹریم‘‘ کیا جا رہا ہے۔ حافظ عبدالکریم کمیونیکیشن کے وفاقی وزیر ہیں، خدا جانے انہیں کن مواصلاتی رابطوں اور کس نوعیت کی ابلاغی صلاحیتوں کے باعث یہ قلمدان سونپا گیا ہے اور وہ کیا کارہائے نمایاں سرانجام دے رہے ہیں۔ ہمارے ہاں انسانی حقوق میسر ہوں یا نہ ہوں مگر موجودہ حکومت نے انسانی حقوق کی وزارت کا اضافہ ضرورکر دیا ہے اور یہ قلمدان سونپا گیا ہے ممتاز احمد تارڑ کو۔ ریاض حسین پیرزادہ بین الصوبائی ہم آہنگی کے وفاقی وزیر ہیں مگر ان کی اپنی حکومت سے ہم آہنگی نظر نہیں آتی اور وہ ایک مبینہ خط پر قومی اسمبلی کے ایوان سے احتجاجاً واک آئوٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں پوسٹل سروس پر بیشک نزع کا عالم طاری ہو مگر اس محکمے کی نگہداشت کے لئے بھی ایک وفاقی وزیر متعین کیا گیا ہے‘ اور یہ بھاری بھرکم ذمہ داری مولانا امیر زمان کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے۔ نارکوٹکس سمیت تمام منشیات کی روک تھام یوں تو محکمہ نارکوٹکس کی ذمہ داری ہے جو بالعموم وزارت داخلہ کے ماتحت ہوتا ہے مگر حکومت نے گڈ گورننس کے پیش نظر لیفٹیننٹ جنرل (ر) صلاح الدین ترمذی جیسے قابل شخص کو وفاقی وزیر نارکوٹکس بنا دیا ہے۔ اسی طرح ریاستوں اور فرنٹیئر ریجنز کا مقدر سنوارنے کی غرض سے دو وفاقی وزرا کو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ وفاقی وزیر برائے سٹیٹس اینڈ فرنٹیئر ریجنز ہیں جبکہ غالب خان وفاقی وزیر مملکت ہیں۔ یہ واحد حکومت ہے جس میں محکمہ شماریات کو بھی وزارت کا درجہ دے کر اس کا قلمدان کامران مائیکل کے سپرد کیا گیا ہے۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سید جاوید علی شاہ آبی ذخائر کے وزیر ہیں اور محض جھنڈے والی گاڑی پر ہی خوش دکھائی دیتے ہیں‘ مگر محسن شاہ نواز رانجھا ابھی تک وزیر بے محکمہ ہیں کیونکہ سرتوڑ کوشش کے باجود ان کے لئے کوئی قلمدان تلاش نہیں کیا جا سکا۔
ایسے میں ایک ہی وزیر باتدبیر ہے جو ان دنوں سیاسی منظرنامے پر سب سے زیادہ توجہ سمیٹ رہا ہے اور اس کا نام ہے خواجہ آصف۔ بالعموم وزیر دفاع ”تڑیاں‘‘ لگاتا ہے اور وزیر خارجہ پہلو بچاتا ہے۔ سفارت کاری کے ماہرین کا خیال ہے کہ خاموشی کی بھی ایک زبان ہوتی ہے اور بطور وزیر دفاع خواجہ آصف نے اظہار کے اس ذریعے کا بے دریغ استعمال کیا‘ لیکن وہ سابقہ محکمے میں جس قدر محتاط نظر آتے تھے اب اتنے ہی نڈر اور بے خوف دکھائی دے رہے ہیں۔ پہلے انہوں نے اپنا گھر ٹھیک کرنے کا بیان دے کر ”کھڑاک‘‘ کیا اور اب امریکیوں کو کھری کھری سنا کر دنیا بھر میں دھوم مچا دی ہے۔ اپنے دورہء امریکہ کے دوران غیر ملکی نشریاتی اداروں کو دیئے گئے انٹریوز کے دوران خواجہ آصف میں ذوالفقار علی بھٹو کی جھلک دکھائی دی اور انہوں نے اپنے زورِ بیاں سے سب کو حیران کر دیا۔ وزیر خارجہ بالعموم نپی تُلی بلکہ لگی لپٹی ملفوف سی گفتگو کیا کرتے ہیں‘ جس سے کوئی مطلب اخذ نہ کیا جا سکے لیکن خواجہ آصف کے منہ سے مسلسل سچ نکل رہا ہے اور یہ ان کے سیاسی مستقبل کے لئے کوئی اچھا شگون نہیں۔ ایوب خان کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ تھے‘ اور بھارت سے جنگ چھڑ گئی۔ اقوام متحدہ نے دونوں ملکوں کو جنگ بندی کے لئے ڈیڈ لائن دی جسے بھارت نے تو قبول کر لیا لیکن پاکستان نے کوئی جواب نہ دیا۔ مستقبل کی حکمت عملی طے کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا‘ جس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لئے بھٹو کو بھیجا گیا۔ بھٹو نے اپنی خطابت کے جوہر دکھانے کے بعد ڈیڈ لائن ختم ہونے سے محض ایک منٹ پہلے اقوام متحدہ کی پیشکش قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔ چند روز بعد ایوب خان لندن گئے تو بھٹو بھی ان کے ساتھ تھے۔ وزیر اعظم ہیرلڈ ولسن نے ایوب خان کو معنی خیز انداز میں دیکھتے ہوئے کہا ”آج کل وزرائے خارجہ کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ سربراہانِ مملکت سے بڑھ کر دھواں دھار تقریر کریں بالخصوص جب وہ بیرون ملک ہوتے ہیں تو بہت گرجتے، برستے ہیں۔‘‘ یہ بات ایوب خان کے سینے میں پیوست ہو گئی اور اس نے کچھ عرصہ بعد ہی بھٹو کو اپنی کابینہ سے نکال باہر کیا۔ کہیں خواجہ آصف بھی بھٹو کی طرح بارودی سرنگوں پر تو نہیں چل رہے؟ بھٹو چین سے دوستانہ تعلقات کے سب سے بڑے پرچارک تھے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی حکام کو ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے۔ لیکن بھٹو کو کابینہ سے نکالے جانے پر سب سے زیادہ افسوس چینی وزیر اعظم کے ردعمل پر ہوا۔ چو این لائی نے پاکستانی سفیر سلطان خان سے کہا ”مجھے معلوم ہے کہ چین کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے والی شخصیت بھٹو نہیں بلکہ خود صدر ایوب ہیں‘ اور یہ صدر کا ہی استحقاق ہے کہ وہ کس کے ذریعے اپنی پالیسیوں پر عملدرآمد کرواتا ہے۔‘‘ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات کے مطابق جب امریکی صدر کینیڈی پاکستان آئے اور انہوں نے پوچھا کہ آخر پاکستان کو چین سے کیا توقعات ہیں؟ تو ایوب خان نے کہا ”ہمیں چین سے کچھ نہیں چاہئے، ہماری طرف سے چین جائے بھاڑ میں‘‘۔ چین بھٹو کی مدد کو تو نہ آیا البتہ جب بھٹو کی حکومت آئی تو چینی وزیر اعظم چو این لائی نے کہا ”یحییٰ خان ہمارے دوست ہیں، ان کا خیال رکھیں‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ یحییٰ کو پورے اعزاز کے ساتھ قومی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا گیا۔ اگر خواجہ آصف چین پر انحصار کرتے ہوئے بہادری دکھا رہے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ چینی دوستوں نے تو ان کے قائد نواز شریف کے بارے میں بھی کسی کو یہ سفارش نہیں کی کہ میاں صاحب ہمارے دوست ہیں‘ ان کا خیال رکھنا۔ بہرحال جب بھی خواجہ آصف کا کوئی زوردار بیان سامنے آتا ہے تو دل چاہتا ہے کوئی خیر خواہ ان سے کہے ”خواجہ میرے خواجہ، باز آ جا‘‘