منتخب کردہ کالم

خوبصورت پیروں والا فوجی …حسنین جمال

حسن معراج کے پاؤں بہت خوبصورت ہیں۔ جب بھی ملاقات ہوتی کوئی سینڈل نما جوتے ان پیروں کو چھپائے ہوتے۔ آخری مرتبہ جب ملنا ہوا تو باریک سے سٹریپس والی براؤن سی چپلوں میں وہ پاؤں چلے جا رہے تھے۔ حسن معراج تیز تیز قدم اٹھاتا تھا، اسے بہت سے کام کرنے تھے، بہت سے لوگوں کو ملنا تھا۔ اس کے ساتھ چلتے ہوئے یہ سوال بار بار دماغ میں آتا کہ ایسے اچھے، ایسے نفیس پاؤں بھاری بھرکم فوجی بوٹوں میں کیسے سماتے ہوں گے۔ اگر وہ پہنتا بھی ہو گا تو کب تک یہ بوجھ اٹھا پاتا ہو گا۔ اگر اٹھا پاتا ہو گا تو اس کے باوجود پاؤں ویسے کے ویسے کیوں ہیں؟ یہ سوال پوچھا نہیں جا سکا، وہ ہمیشہ کی طرح ہوا کے رتھ پر سوار آیا اور وقت کو چابک مارتا اگلے ہی گھنٹے میں دوسرے مشن پر ڈراپ ہو گیا۔
اچھا بھلا ایک فوجی آدمی ہے، وہیں رہ کر تعمیری تخلیقی کام کر رہا ہے، فلمیں لکھ رہا ہے، بنا رہا ہے، افسری کی شان الگ ہے، لکھنے کا ڈھنگ ایسا کہ پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر رہ نہ سکے، ترسا ترسا کر ایک تحریر دے اور دو دو مہینے لوگ وہی پڑھتے رہیں، زندگی پورے سوئنگ میں ہے کہ ایک دن وہ بیرونِ ملک جانے کا اعلان کر دیتا ہے۔ نوکری کا کیا بنے گا؟ ریزائین کر رہا ہوں۔ یہ فیصلہ جانے سے ایک ہفتہ پہلے ڈسکلوز کیا گیا اور پھر حسن معراج انگلینڈ چلا گیا۔
بہت پہلے کی بات ہے (ہیئر کمز دا نوسٹیلجیا اگین) کتابیں پڑھتے پڑھتے ایک وقت ایسا آیا جب پتہ نہیں کیوں اس خوش فہمی نے گھیر لیا کہ بابو آج تک جتنا اچھا ادب تھا، تم پڑھ چکے ہو، اب کوئی لکھنے والا باقی نہیں رہا، اچھا ادب ناپید ہے، اردو ڈوب رہی ہے، بچانے والے کنارے کھڑے سیلفیاں بنا رہے ہیں، کوئی ہم عصر ادیب اس قابل نہیں کہ اسے پڑھا جائے، اچھی زبان تک عنقا ہے، جاؤ عیش کرو، پرانی کتابیں دوبارہ نکال کر پڑھو یا دوسری زبانوں کے سمندر میں غوطہ لگاؤ، جو بھی کر لو ادھر اب ٹھنڈ پروگرام ہے۔ اس وقوعے کے ٹھیک دو ماہ بعد آن لائن لکھنا شروع کر دیا، یہ بھی عجیب اتفاق تھا، ایک صاحب کی ویب سائٹ تھی، انہوں نے بلایا اور کہا کہ لکھو‘ تو بس جیسے تیسے گھسیٹا کاری شروع ہو گئی۔ اب جو بلاگنگ شروع کی ہے تو دوسروں کا لکھا بھی پڑھنا ہوتا تھا، ظاہری بات ہے بندہ جس اخبار میں ہے یا ویب سائیٹ پہ لکھ رہا ہے کم از کم اسے تو شرم کے مارے پورا پڑھ ہی لیتا ہے کہ یار کل کو اگر کسی نے بات چیت میں پوچھ لیا کہ میری تحریر دیکھی تھی تو بڑی شرمندگی ہو گی۔ تو اس شرم سے بچنے کے لیے جب پڑھنا شروع کیا تب سمجھیے گھڑوں پانی پھر گیا۔ یا خدا! اتنا بڑا دعویٰ کس احمق کو ہو سکتا ہے کہ اردو ڈوب رہی ہے؟ اچھا لکھنے والا ناپید ہے؟ اچھی زبان نہیں ہے؟ سب کچھ تھا، برابر تھا بلکہ فرسٹ کلاس طریقے سے موجود تھا۔ کئی لوگ طرح طرح کی تحریریں لکھتے ہیں۔ تو وہیں ایک بندہ ایسا تھا جسے پڑھ کر انسان خواہ مخواہ جذباتی محسوس کرتا تھا۔ محمد حسن معراج شاید دو تین مہینے میں ایک بار کچھ بھیجتا مگر ایسی ٹھکی بندھی ہوئی چیز ہوتی تھی کہ بس پڑھتے جائیے اور سر دھنیے، یا پھر یہ سوچے کہ مالک، میں خود ایسا کیوں نہیں لکھ سکتا؟
پھر وہ سب اور ان کے علاوہ بہت سے مزید مضامین اکٹھے ہوئے اور حسن صاحبِ کتاب ہو گیا۔ ریل کی سیٹی نامی وہ کتاب آئی اور اتنی تیزی سے گئی کہ بعد میں دکانوں پر نسخے صاف تھے۔ ذاتی سستی آڑے آئی اور چنگی بھلی کتاب آتے آتے ہاتھ سے نکل گئی۔ بعد میں پڑھی اور سوچا کہ اچھا ہی ہوا یار، بندہ اپنے دوستوں کی کتنی تعریف کر سکتا ہے؟ پہلے ہی لوگ سڑے بیٹھے ہوتے ہیں کہ یہ اچھا فرقہ ہائے من ترا حاجی بگو مارکیٹ میں آیا ہے، لیکن یہ حقیقت ہے، اس کی نثر واقعی قابل ستائش ہے۔
ابھی اس کتاب کا شور کم نہیں ہوا تھا کہ ایک اور کتاب ہاتھ میں آن پہنچی۔ اردو کے میدانوں سے نکل کر اس بار یہ صحرا نوردی پرائے دشت میں ہے، انگریزی کتاب ہے اور بڑے بھاری بھرکم نام والی۔ ”بیونڈ آور ڈگریز آف سیپریشن؛ واشنگٹن مون سونز اینڈ اسلام آباد بلیوز‘‘ اتنا مشکل کہ اسے یہاں لکھنے کے بجائے بھی کاپی پیسٹ کر لیا۔ نام اور سرورق دیکھا تو دل ڈوب گیا، یا اللہ، خیر ہو، حسن معراج کس سیپریشن کی باتیں کر رہا ہے، پھر ساتھ کوئی گوری بھی ہے جو کتاب میں شریک مصنف ہے۔ ادھر ادھر سے پوچھا، تسلی ہو گئی کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ پھر اگلا قیاس یہ تھا کہ ہو نہ ہو یہ برصغیر کی تقسیم پر لکھی گئی نو سو چالیسیویں کتاب ہو گی۔ یہ چکر بھی نہیں تھا۔ جب معلوم ہوا جوڈتھ ریون، دوسری مصنف، جو ہیں وہ امریکہ سے بطور سفارت کار (کنٹری کلچر افیئرز آفیسر) یہاں آئیں تھیں اور ”واشنگٹن مون سونز‘‘ لکھا دیکھا تو سوچا یار کرنٹ افیئرز ٹائپ کی چیز ہو گی۔ کچھ بھی نہیں نکلا۔ یہ تو ڈائری ہے بابا سیدھی سادی، جوڈتھ ریون کی ڈائری، حسن معراج کی ڈائری… وہ سب کچھ جو ایک امریکی نے پاکستان آ کر محسوس کیا اور ایک دیسی افسر نے بیرونِ ملک جا کر کیا۔ اس ڈائری میں جہاں اکثر معاملات اجنبی ملک میں فرسٹ ہینڈ اکاؤنٹ کے ہیں وہیں بعض جگہ بہت زبردست جذباتی موڑ بھی آتے ہیں۔ خاص طور پہ تین باب ایسے شدید موونگ ہیں کہ بندہ ایک دم سناٹے میں آ جاتا ہے۔ ایک تو وہی سیاچن سے لکھا گیا خط ہے، دوسرے جہاں جوڈتھ ریون نے اپنی والدہ کے متعلق لکھا ہے، تیسرے وہاں جب حسن معراج کی والدہ بیمار ہوئیں اور معلوم ہوا کہ انہیں کینسر ہے، پھر وہی مرض الموت ثابت ہوا۔ حسن نے کیا دل فگار نثر وہاں لکھی ہے، ذرا ترجمہ دیکھیے؛ ” ماں کے مرنے پر جب بہن بھائی میرے گلے لگے، میں نے ایک بھی آنسو نہیں بہایا، تب بھی نہیں جب میں نے اپنے ہاتھوں سے ماں کو قبر میں اتارا، میں تب بھی نہیں رویا جب ان کی بہت سی زیر استعمال چیزیں ہم لوگوں نے چیریٹی میں دے دیں۔ بہت برس بعد جب مجھے روم میں ایک ایوارڈ ملا اور پرجوش طریقے سے میں نے فون نکالا کہ میں یہ خبر کسی کو سناؤں، کسی سے شیئر کروں جو اسے سن کر خوش ہو، تو بس وہیں ایک پرسکون جھیل کے کنارے، ائیر فورس میوزیم کے بہت پاس، پوری ملٹری یونیفارم میں سجا ہوا میں، میں رو پڑا! شاید تب مجھے ماں کے نہ ہونے کا شدید احساس ہوا تھا! ‘‘
دو لکھنے والے مل کر ایک کتاب چھاپیں، یہ تجربہ ویسے مزے کا ہے۔ اردو والے تو ایڈیٹر کا وجود برداشت نہیں کرتے۔ خدا جانے شراکت کے یہ مرحلے یہاں کب آئیں گے لیکن جلدی آ جائیں تو اچھا ہو۔ کیسا مزا آئے کہ تصنیف حیدر اور حسنین جمال مل کر کوئی ایک کتاب چھاپ دیں، شمس الرحمن فاروقی اور محمد حمید شاہد صاحب کی کوئی کتاب آ جائے، مطلب کچھ بھی ہو کہ تھوڑے تازہ پن کا احساس ہو، نثر کے دو مختلف ذائقے ایک ہی جگہ مل جائیں، کہنے کو اور بہت کچھ کہا جا سکتا ہے، مختصراً ”بیونڈ آور ڈگریز آف سیپریشن؛ واشنگٹن مون سونز اینڈ اسلام آباد بلیوز‘‘ انگریزی پڑھنے والوں کے لیے ایک اچھی اور دلچسپ چوائس ہو سکتی ہے۔
یا خدا! اتنا بڑا دعویٰ کس احمق کو ہو سکتا ہے کہ اردو ڈوب رہی ہے؟ اچھا لکھنے والا ناپید ہے؟ اچھی زبان نہیں ہے؟ سب کچھ تھا، برابر تھا بلکہ فرسٹ کلاس طریقے سے موجود تھا۔ کئی لوگ طرح طرح کی تحریریں لکھتے ہیں۔ تو وہیں ایک بندہ ایسا تھا جسے پڑھ کر انسان خواہ مخواہ جذباتی محسوس کرتا تھا۔ محمد حسن معراج شاید دو تین مہینے میں ایک بار کچھ بھیجتا مگر ایسی ٹھکی بندھی ہوئی چیز ہوتی تھی کہ بس پڑھتے جائیے اور سر دھنیے، یا پھر یہ سوچے کہ مالک، میں خود ایسا کیوں نہیں لکھ سکتا؟