خود چھوڑیں یا چھڑا دیئے جائیں … جاوید چودھری
ارسلہ سلیم اسلام آباد پولیس میں ایس پی ہیں‘ لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہیں‘ قائداعظم یونیورسٹی سے ایم ایس سی کیا‘ 2014ءمیں پولیس سروس میں آئیں‘ یہ اس وقت سپیشل برانچ میں تعینات ہیں‘ جے آئی ٹی نے جس دن مریم نواز کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا تھا اسی دن ٹیم کے سربراہ واجد ضیاءنے آئی جی اسلام آباد سے درخواست کی ‘ ملکی قانون کے مطابق کسی خاتون سے تفتیش کےلئے کسی خاتون پولیس آفیسر کی موجودگی
ضروری ہے‘ آپ ایس ایس پی لیول کی کوئی خاتون آفیسر نامزد کر دیں‘ اسلام آباد پولیس کے پاس کوئی خاتون ایس ایس پی موجود نہیں تھی‘ ایس پی ارسلہ سلیم سینئر خاتون پولیس آفیسر تھیں چنانچہ پولیس نے ان کا نام جے آئی ٹی کو بھجوا دیا‘ یہ 3 جولائی کو جے آئی ٹی سیکرٹریٹ پہنچ گئیں‘ یہ یونیفارم کے بغیر تھیں‘ واجد ضیاءنے ان سے یونیفارم کے بارے میں پوچھا‘ خاتون آفیسر نے جواب دیا ” میں سپیشل برانچ میں تعینات ہوں اور سپیشل برانچ یونیفارم نہیں پہنتی“ واجد ضیاءنے حکم دیا ”ہم چاہتے ہیں مریم نواز کو تفتیشی ٹیم کے سامنے لانے والے کی شناخت واضح ہو چنانچہ آپ پانچ جولائی کویو نیفارم پہن کر آئیں “ اسلام آباد پولیس نے اس حکم پر ارسلہ سلیم کو ایک دن کےلئے یونیفارم پہننے کی اجازت دے دی‘ یہ 5 جولائی کو یونیفارم میں جوڈیشل اکیڈمی پہنچیں‘ مریم نواز کی گاڑی کا دروازہ کھولا اور غیر ارادی طور پر انہیں سیلوٹ کر دیا‘ مریم نواز جب گاڑی سے اتریں تو ایس پی کو کوئی چیز گرنے کی آواز آئی‘ ارسلہ سلیم نے جھک کر دیکھا‘ وہ پین تھا‘ ایس پی کو محسوس ہوا مریم نواز اگر پین اٹھانے کےلئے جھکیں تو شاید سیکورٹی کا مسئلہ پیدا ہو جائے‘ دوسرا کل کو جب مریم نواز کی ایسی تصاویر اخبارات میں شائع ہو گئیں جن میں وہ ایک خاتون ایس پی کے قدموں میں جھکی ہوئی ہیں تو یہ بھی برا لگے گا چنانچہ یہ فوری طور پر جھکیں‘ پین اٹھایا اور مریم نواز کے
حوالے کر دیا‘ مریم نواز دوگھنٹے جے آئی ٹی کے سامنے موجود رہیں‘ تفتیش کے اس عمل کے دوران ارسلہ سلیم بھی مریم نواز کے ساتھ تھیں لیکن کیونکہ ان کے کانوں پر ہیڈ فون چڑھا دیئے گئے تھے چنانچہ یہ تفتیشی ٹیم کا کوئی سوال اور مریم نواز کا کوئی جواب نہیں سن سکیں‘ ارسلہ سلیم مریم نواز
کے جانے کے بعد سپیشل برانچ میں واپس آ گئیں لیکن اس وقت تک ان کا سیلوٹ اور مریم نواز کے قدموں میں جھک کر قلم اٹھانا ایشو بن چکا تھا‘ میں دل سے خاتون ایس پی کے سیلوٹ کو غلط سمجھتا ہوں‘
ہمیں اب یہ شاہی روایات ختم کر دینی چاہئیں‘ شاہ ابن شاہ ابن شاہ کا یہ سلسلہ بند ہوجانا چاہیے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہم خاتون ایس پی کی سرعام مذمت شروع کر دیں‘ یہ سیلوٹ اور جھک کر پین اٹھانا غیر ارادی اور اضطراری حرکت تھی‘ ہم اس حرکت پر ایس پی کو معتوب قرار نہیں دے سکتے‘ پولیس قوانین میں کسی جگہ نہیں لکھا آپ چیف سیکورٹی آفیسر کی حیثیت سے مہمان کو سیلوٹ نہیں کریں گے‘ آپ اس کا پین نہیں اٹھائیں گے‘ ہم نے اگر یہ کلچر بدلنا ہے تو پھر ہمیں نئے قوانین متعارف کرانا ہوں گے‘
حکومتیں فیصلے کریں پولیس کن حالات میں کن لوگوں کو سیلوٹ کرے گی اور کن لوگوں کو اس عزت سے محروم رکھا جائے گا۔یہ سیلوٹ ایشو کا ایک پہلو تھا‘ آپ اب دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کیجئے‘ پاکستان تحریک انصاف نے اس سیلوٹ پر شدید احتجاج کیا‘ پاکستان مسلم لیگ ن کے فدائی عموماً پی ٹی آئی کے تمام مخالفانہ بیانات کا مقابلہ کرتے ہیں لیکن پانچ جولائی کو پارٹی کا کوئی فدائی سیلوٹ کے دفاع کےلئے سامنے نہیں آیا‘ یہ لوگ ٹاک شوز کے دوران بھی اس سوال پر دائیں بائیں ہوتے رہے‘
فدائیوں کے مزاج کی یہ تبدیلی الارمنگ ہے‘ یہ ثابت کرتی ہے پاکستان مسلم لیگ ن کے اندر بھی حالات کی نزاکت کا احساس ابھر رہا ہے‘ یہ احساس نیا نہیں ہے‘ اپریل 2016ءمیںجب پانامہ لیکس سامنے آئی تھیں اور میاں نواز شریف کا خاندان گرم پانیوں میں اترنے لگا تھا تو سب سے پہلے پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئر وزراءدائیں بائیں ہو گئے ‘ آپ پچھلے ڈیڑھ سال کی میڈیا رپورٹس نکال کر دیکھ لیں آپ کو کسی جگہ مسلم لیگ ن کے سفید بالوں والے وزراءشریف فیملی کا دفاع کرتے نظر نہیں آئیں گے‘
یہ فریضہ نوجوان ایم این اے‘ آصف کرمانی اور ڈاکٹر مصدق ملک جیسے غیر منتخب فدائی اور پاکستان مسلم لیگ ق کے ”ادھار لیڈر“ سر انجام دے رہے ہیں‘ یہ تمام لوگ مریم نواز کے میڈیا سیل میں شامل ہیں‘ ہم لوگ پانامہ کیس کے شروع میں جب بھی ن لیگ کے سینئر وزراءسے بات کرتے تھے تو یہ کہتے تھے ”گاجریں کھانے والے جانیں اور ان کے پیٹ کا درد جانے‘ ہمارا اس سے کیا لینا دینا“ یہ احساس اب بڑھتے بڑھتے نوجوان ایم این اےز تک پہنچ چکا ہے‘ ہمیں آج ماننا پڑے گا یہ کیس عمران خان کی بہت بڑی فتح ہے‘
کیس کا فیصلہ جو بھی آئے لیکن عمران خان میاں نواز شریف کو اس قدر بدنام کر چکے ہیں کہ پانامہ کا ہار اب پوری زندگی ان کے گلے میں رہے گا‘ ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا پاکستان مسلم لیگ ن اس ایشو پر منقسم ہے‘ سینئر وزراءشریف خاندان کو ڈیفنڈ نہیں کر رہے اور جونیئر وزراءاور ایم این اے بری طرح تھک چکے ہیں ‘ یہ بھی اب برملا کہتے ہیں ہم خاندانی غلام ہو چکے ہیں‘ شریف فیملی کا پوتا اور نواسا بھی عدالت جائے گا تو ہماری حاضری ضروری ہو گی‘ یہ عمران خان کے بھی مشکور ہیں‘
یہ اب صاف کہتے ہیں عمران خان ہمارا محسن ہے‘ یہ روز کوئی نہ کوئی بیان داغ دیتا ہے اور ہم جوڈیشل اکیڈمی کے سامنے عمران خان کو جواب دے کر وقت گزار لیتے ہیں‘ ہم پانامہ کیس پر تبصرے سے بچ جاتے ہیں‘ یہ لوگ نالائق بچوں کی طرح روز حاضری سے بھاگنے کی کوشش بھی کرتے ہیں‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ رمضان کا آخری عشرہ نکال کر دیکھ لیجئے‘ میاں نواز شریف جوں ہی عمرے کےلئے روانہ ہوئے تھے یہ تمام فدائی بھی غائب ہو گئے تھے‘ اسلام آباد سنسان ہو گیا تھا۔پارٹی کے اندر یہ تقسیم خطرناک ہے‘
میاں نواز شریف کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے‘ ملک میں ایم کیو ایم اور پاکستان پیپلز پارٹی جیسے دو کامیاب ماڈل موجود ہیں‘ یہ دونوں پارٹیاں سربراہان کے بغیر قائم بھی ہیں اور چل بھی رہی ہیں‘ الطاف حسین لندن میں بیٹھے ہیں‘ پارٹی ان سے لاتعلق ہونے کے باوجود چل رہی ہے‘ یہ 2018ءکے الیکشنوں میں مصطفی کمال کے ساتھ مل کر ٹھیک ٹھاک سیٹیں بھی لے لے گی‘ محترمہ بے نظیر بھٹو 2007ءمیں شہید ہو گئیں‘ پارٹی سلامت بھی رہی اور پانچ سال حکومت بھی کی‘
آصف علی زرداری نے بھی چار سال پارٹی پر کوئی توجہ نہیں دی‘ یہ اگلے سال عنان مکمل طور پر بلاول بھٹو کے ہاتھ میں دے دیں گے‘ پارٹی ان تمام تبدیلیوں کے باوجود چل رہی ہے اور اب مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کی باری ہے‘ میاں نواز شریف کو رائے ونڈ تک محدود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے‘ یہ کوشش کامیاب ہو یا ناکام لیکن یہ طے ہے معاملات اب جوں کے توں نہیں رہ سکیں گے‘ میاں نواز شریف کو چند انقلابی قدم اٹھانا پڑیں گے‘
میاں نواز شریف کے لئے بہترہے یہ جے آئی ٹی کا فیصلہ آنے کے بعد 2018ءمیں عملی سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیں‘ یہ پارٹی کے سربراہ رہیں‘ یہ 2018ءکا الیکشن بھی لڑیں لیکن یہ کسی اچھے‘ ایماندار اور پڑھے لکھے شخص کو وزیراعظم بنا دیں‘ مریم نواز کو اپنے حلقے سے الیکشن لڑائیں اور انہیں وزیراعظم بنانے کی بجائے پہلے وفاقی وزیر بنائیں‘ یہ پانچ سال تجربہ حاصل کریں اور یہ اگر اس کے بعد خود کو اہل ثابت کر دیں تو آپ انہیں بے شک 2023ءمیں وزیراعظم نامزد کر دیں لیکن اگر میاں صاحب ان حالات میں وزیراعظم کی کرسی چھوڑنے کےلئے تیار نہ ہوئے‘
یہ میدان میں ڈٹے رہے‘ یہ” ہم ہر میدان کے فاتح ہیں‘ گزرا ہوا کل بھی اپنا تھا‘ آتا ہوا کل بھی اپنا ہے“ کو حقیقت سمجھتے رہے‘ ہماری بہن مریم نواز ”روک سکتے ہو تو روک لو“ کے نعرے لگاتی رہیں اور 2018ءمیں بھی پنجاب میاں شہبا زشریف کے پاس رہا تو پھر شاید قسمت یاوری نہ کر سکے اور اقتدار کا یہ سارا کھیل تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے۔یہ درست ہے میاں نواز شریف کا یہ دور پچھلے تمام ادوار کے مقابلے میں بہتر تھا‘
میاں نواز شریف نے پرفارم بھی کیا اور ان کے ووٹ بینک میں بھی اضافہ ہوا لیکن اس حقیقت سے بھی ایک بڑی حقیقت موجود ہے اور وہ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں اقتدار کا فیصلہ پرفارمنس اور ووٹر نہیں کرتے‘ اقتدار دینے والی طاقتیں کوئی اور ہوتی ہیں اور یہ طاقتیں فیصلہ کر چکی ہیں ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں قائم رہیں گی لیکن ان کے سربراہ نہیں رہیں گے‘ جو خود ہٹ گیا وہ بچ جائے گا اور جو نہیں ہٹے گا وہ ہٹا دیا جائے گا اور اس کے ہٹانے کو پارٹی بھی تسلیم کر لے گی‘
آپ کو یقین نہ آئے تو آپ پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم دونوں کو دیکھ لیجئے‘ بے نظیر بھٹو شہید ہو گئیں‘ پارٹی نے یہ شہادت چپ چاپ قبول کر لی‘ مجرم تک تلاش نہیں کئے گئے‘ الطاف حسین کو بھی ہٹا دیا گیا‘ پارٹی نے ایک دن اعتراض نہیں کیا اور اب اگر عمران خان اور نواز شریف بھی ہٹ جاتے ہیں تو ان پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا جائے گا‘ یہ دونوں پارٹیاں بھی یہ فیصلہ قبول کر لیں گی چنانچہ حالات نازک ہیں اور ان نازک حالات میں میاں نواز شریف کی ہر کامیابی ان کےلئے خطرناک ثابت ہوگی‘ یہ کامیابی معاملات کو مزید گھمبیر بنا دے گی چنانچہ انہیں بالآخر ”خود چھوڑیں یا چھڑا دیئے جائیں“ دونوں میں سے کسی ایک کا فیصلہ کرنا ہوگا۔