خوراکیں وہ نہیں رہ گئیں!…حسنین جمال
ہم لوگ سب شرمندہ سے کیوں پھرتے ہوئے نظر آتے ہیں؟ احساس کمتری ہے اور شدید ہے۔ کسی سے بھی پوچھ کر دیکھ لیجیے کہ یار فلاں دن کیا ہوا تھا، طبیعت کیوں خراب تھی؟ پورے مرض کی تفصیل بتانے کے بعد ایک جملہ دل کی گہرائیوں سے نکلے گا، ”کیا کریں یار، خوراکیں ہی وہ نہیں رہ گئیں‘‘۔ یہ ہمارا ایسا شدید دکھ ہے کہ بس آنسو نہیں نکلتے ورنہ ہر کسر پوری ہے۔ ”وہ خوراکیں‘‘ تھیں کون سی؟ یہ بات سوچنے کی ہے۔ اگر دیسی گھی مراد لیتے ہیں تو وہ اب بھی ملتا ہے بھئی، یہ کوئی نہیں کہتا کہ اس کی بو ہم سے برداشت نہیں ہوتی اس لیے کبھی موجود بھی ہو تو ہاتھ نہیں لگاتے۔ اگر خوراکوں سے مراد دیسی مرغا ہے تو وہ پہلے زمانے میں بھی اتنا ہی نایاب اور مہنگا تھا جتنا اب ہے، مل بھی جائے تو اس کا گوشت کون گلائے گا؟ کس گھر میں وہ انمول رتن پائے جاتے ہیں جو ناک چڑھائے بغیر دیسی مرغا گلا کے دکھا دیں؟ باقی رہا دودھ تو اس میں تب بھی پانی ملایا جاتا تھا اور لکھنے والے دھاڑ پٹ مچاتے تھے، آج بھی یہی ہوتا ہے۔ دہی کا پانی اس وقت بھی یرقان کے مریض پیتے تھے، آج بھی دہی میں سے ویسا ہی پانی نکلتا ہے۔ گنے کا جوس تب بھی خالص ہوتا تھا آج بھی اتنا ہی خالص ہے۔ سبزیاں، پھل فروٹ اس وقت بھی کھاد اور کیڑے مار دوائیاں ڈال کے اگائے جاتے تھے آج بھی ویسے ہی فصل اگتی ہے۔ تو وہ کون سی خوراک ہے جو ”رہ نہیں گئی؟‘‘
تھوڑا غور کریں تو سمجھ آتا ہے کہ یہ رویہ صرف کھانے پینے تک نہیں ہے بلکہ زندگی کے ہر معاملے میں ہم ”اولڈ از گولڈ‘‘ کا شکار ہیں۔ جس گورے نے یہ محاورہ بنایا ہو گا وہ یا تو شدید کنجوس ہو گا یا اس کے پاس نیا آئی فون خریدنے کے پیسے (یا فالتو گردے) نہیں ہوں گے۔ دیکھیں اولڈ از گولڈ کدھر فٹ آتا ہے؟ بچہ فرمائش کرے کہ بابا نئی سائیکل لینی ہے، آپ کہیں کہ یار تمہاری پرانی والی زیادہ اچھی ہے، نئی سائیکلیں آج کل بے کار آ رہی ہیں… یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ زوجہ کہیں کہ نئی موٹر سائیکل لو تو انہیں سمجھایا جا سکتا ہے کہ بھئی پرانی والی جاپانی تھی ابھی جو ماڈل آ رہے ہیں وہ سب دیسی بنے ہوتے ہیں… یہ بھی سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن اپنے ہی یاروں دوستوں میں بیٹھ کے بندہ پرانی چیزوں کے گن گاتا جائے یہ بات غلط ہے۔ پہلی دلیل جو کسی پرانی چیز کے اعلیٰ ہونے کے بارے میں دی جاتی ہے وہ اکثر وزن کے بارے میں ہوتی ہے۔ ”یار اس وقت چیزوں میں خالص لوہا/سٹیل استعمال ہوتا تھا‘‘۔ یہ بات سائیکل، موٹر سائیکل، گاڑی یا ٹرک، کسی بھی چیز کا مالک آپ کو کہہ سکتا ہے۔ مالک چاچا سے بندہ یہ پوچھے کہ بھئی اس وقت تو فائبر استعمال نہیں ہوتا تھا، چیزیں المونیم کی نہیں بنتی تھیں، پلاسٹک کی صنعت نے اس قدر ترقی نہیں کی تھی تو اس وجہ سے ہر چیز خالص لوہے یا سٹیل کی بنی ہوتی تھی، اسی لیے وزن بھی زیادہ ہوتا تھا۔ اب اس دور میں اگر المونیم، پلاسٹک یا فائبر اتنا ہی دیرپا اور وزن میں کم پرزہ بنا رہا ہے تو مسئلہ کیا ہے؟ سٹیل کے بمپر ایکسیڈنٹ میں مرنے والے کتنے لوگوں کی جان بچا سکے جو اب فائبر کے بمپر نہیں بچا سکیں گے؟
اسی طرح ٹی وی، وی سی آر، سی ڈی پلیئر، ڈی وی ڈی، ریڈیو، گھڑیاں، ہر چیز کی کوالٹی کا اندازہ ہم اسے تول کے کرنا چاہتے ہیں۔ یار ٹیکنالوجی جب ترقی کرے گی تو چیزوں کا حجم آٹومیٹیکلی کم نہیں ہو گا؟ کبھی یہ سوال ہم نے کمپیوٹر یا موبائل والوں سے کیوں نہیں کیا کہ بیس سال پہلے یہ بڑے بڑے لیپ ٹاپ ہوتے تھے، موبائل کی بیٹری الگ سے ہاتھ میں اٹھانا پڑتی تھی، اب وہ ساری چیزیں کہاں گئیں؟ اصل چکر یہ ہے کہ جہاں دیسی مستری گھسیں گے، جہاں فوک وزڈم سے مشینری سمجھنے کی کوشش ہو گی وہاں پرانی چیز کی ویلیو بڑھ جائے گی۔ آج کل نئے انجن چھوٹے ہوتے جا رہے ہیں، جدید سرکٹ میں چھوٹے سے چھوٹا پرزہ استعمال ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہی چیز جو پہلے پانچ کلو وزن کی ہوتی تھی وہ اب بہت زیادہ چھوٹی ہو جاتی ہے۔ وزن بھی ظاہری بات ہے کم ہو جاتا ہے۔ گڑبڑ ایک ہوتی ہے۔ انجن یا مشین ہلکی ہوتی ہے تو وہ کومپیکٹ بھی ہو جاتی ہے، چیزیں قریب قریب لگ جاتی ہیں، انہیں نئے سرے سے سمجھنا مستری مکینک بھائیوں کے لیے ایک عذاب ہوتا ہے، پھر وہ مہارت بھی نہیں ہوتی جو پرانی چیزوں کے بار بار مرمت کرنے کی وجہ سے ہوتی تھی۔ تو اصل وجہ یہ ہے جو ”اولڈ از گولڈ‘‘ کی تسبیح بار بار پڑھی جاتی ہے۔
کبھی اپنی پوری زندگی میں آج تک کسی مستری سے یہ سنا ہے کہ فلاں چیز کا نیا ماڈل بہت زبردست ہے؟ اگر بڑا زور مارے گا تو وہ کوئی پانچ سال پہلے تک کے ماڈل کی تعریف کرے گا، اس سے آگے بڑھنا حرام ہے۔ نیا ٹی وی دکھائیں گے، ”وہ کوالٹی نہیں رہی جی‘‘ یہ جواب سننے کو ملے گا، نئی گاڑی دکھائیں گے، ”دروازوں کی چادریں بڑی ہلکی لگی ہیں صاحب‘‘ نئی موٹر سائیکل دکھائیں، ”بھائی آپ کو پتہ ہے اس کا وزن پچھلے ماڈل سے پندرہ کلو کم ہے‘‘؟ یہ سن کر آپ کے پرزے بھی شارٹ ہو جائیں گے کہ یار پندرہ کلو کم ہے؟ کوئی تو لوچا ہو گا نئے ماڈل میں، ایسی کیا اندھی مچی ہوئی ہے کہ سیدھے پندرہ کلو کم کر دئیے؟ یہ آپ نے ہرگز نہیں سوچنا کہ فالتو والے پندرہ کلو جو کم ہوئے ہیں اس سے گاڑی ایندھن کم پئیے گی، اس کی پِک (اپ) مزید بہتر ہو گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تیز چل سکے گی کیونکہ انجن وہی ہے، باڈی کے وزن میں سے پندرہ کلو کم ہوا ہے۔ یہ صرف ایک پوسیبلٹی ہے، ایسی سو وجوہات ہوتی ہیں جنہیں سوچے بغیر ہم ہر چیز کا نیا ماڈل ریجیکٹ کر دیتے ہیں۔
سب سے بڑا رونا یہ سننے میں آتا ہے کہ آج کل چیزیں ڈسپوزیبل ہو گئی ہیں۔ ایسا نہیں استاد، سیدھی بات یہ ہے کہ اب کوئی محنت نہیں کرنا چاہتا۔ اس کی بھی سالڈ وجہ ہے۔ آپ کا مستری ایک پرزہ مرمت کرکے لگائے گا اور دو ہزار مانگے گا تو آپ کا منہ بن جائے گا، وہی پرزہ ساڑھے چار ہزار کا نیا ڈلوائیں گے، ہزار الگ سے مستری کو دیں گے تو آپ بھی خوش خوش گھر جائیں گے اور بچائے گئے وقت میں مستری دو ہزار مزید بنا لے گا۔ وِن وِن سچوئشن ہے مگر کیوں ہے؟ اس لیے کہ حقدار کو اس کا حق نہیں دیں گے تو وہ کیوں پروا کرے گا بھائی؟ اگر اسے معلوم ہو کہ گاہک بندے کا پتر ہے، جو پیسے مانگوں گا لڑے گا نہیں، تو وہ بھی محنت کرے گا، سو جگاڑیں لگا کے کام پورا کرے گا۔ ہاں، جب اسے اندازہ ہو (جو کہ اکثر ہوتا ہے اور صحیح ہوتا ہے کیونکہ ہم سب ڈیڑھ سیانے ہیں) کہ سامنے کھڑوس پارٹی ہے، مال پانی پھنسنے پہ ہی نکلے گا تو ظاہری بات ہے وہ ریڈی میڈ نسخہ بتائے گا کہ جائیں اور فلاں چیز لے آئیں، اسے آپ سے کِل کِل نہیں کرنی پڑے گی اور آپ کا سیٹسفیکشن لیول تو ویسے بھی نئی چیز لگانے کے بعد آسمانوں پہ ہو گا۔
ٹھیک ہے لکھنے والے نے جھک مار لی، پڑھنے والے کا چسکا پورا ہوا لیکن ہونا اب بھی وہی ہے۔ آپ نئی گھڑی خریدنے جائیں گے تو آپ کو لگے گا کہ یار یہ اتنی ہلکی سی چیز ہے، ہو نہ ہو چائنا شائنا کی ہو گی، ساؤنڈ پلئیر خریدیں گے تو بس نہیں چلے گا کہ ابھی کھول کے اندر کی مشینری چیک کر لیں، آخر اتنے بڑے ڈبے کا وزن اتنا کم کیوں ہے؟ ستر انچ کا ایل سی ڈی سینے سے لگا کے گھر لاتے ہوئے سوچ رہے ہوں گے کہ پتہ نہیں کتنے دن چلتی ہے یہ ہوائی چیز، اصل میں آپ کو آگے پیچھے سے ڈھول کی طرح نکلے ہوئے وہ ”سالڈ‘‘ ٹی وی یاد آ رہے ہوں گے جنہیں کوئی چینل خراب دکھانے پہ آپ تھپڑ مارتے تھے تو وہ ٹھیک بھی ہو جاتے تھے۔ ویسے وہ تو واقعی کمال ٹیکنالوجی تھی بابا! کل ملا کے یوں ہے کہ وقت کے ساتھ ہر چیز کی کوالٹی بلاشبہ بہتر ہوئی ہے، وزن کم ہوا ہے لیکن ہم اسے استعمال بھی انے وا کرنے لگے ہیں۔ چیزیں خراب پہلے بھی ہوا کرتی تھیں لیکن پہلے ہمارے پاس مستریوں کے پھیرے مارنے کا وقت ہوا کرتا تھا، انہیں پیسے دینے کا حوصلہ ہوتا تھا، اب یہ دونوں چیزیں نہیں ہوتیں، صرف باتیں ہوتی ہیں۔ اور باتوں میں پکوڑے نہیں تلتے اس کے لیے گھی چاہئے ہوتا ہے۔