خوش انجام ہوئے….وقار خان
تبدیلی کی بارشیں برسانے والی ہوائیں ملک میں داخل ہو چکیں۔ جان لیوا حبس اب چند دنوں کا مہمان ہے۔ نئے پاکستان کی برکھا رُت اس مملکت کو جل تھل کرنے کے لیے بے چین ہے۔ یہ وہ بادل نہیں جو گرجتے ہیں مگر برستے نہیں۔ اس دفعہ ساون رُت اور تبدیلی کی گھنگھور گھٹائیں مل کے برسیں گی تو برسوں کے پیاسے نہال ہو جائیں گے۔ یقینِ کامل ہے کہ اب کے ہمارے نصیب کی بارشیں ہماری ہی چھت پہ برسیں گی۔ اس ملک کے باسی بھیگی رُت میں بھیگتے جھوم جھوم جائیں گے… من پیا ٹھردا… ڈھولا ویہڑے آ وڑیا۔
تراشے ہوئے سروے رسوا ہوئے اور انتخابات 2018ء کے نتائج کے مطابق تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کر لی۔ ہمیں خوشی ہے کہ گزشتہ کالم میں بیان کئے گئے توہم پرست تجزیہ نگاروں کے مفروضوں کے مقابلے میں ہم ایسے حقیقت پسندوں کی بات صحیح نکلی۔ کوئی ہنگ پارلیمنٹ وجود میں آئی نہ سیاسی عدم استحکام کا خدشہ رہا۔ حسب توقع فضل الرحمٰن، شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف، غلام احمد بلور، سراج الحق، چوہدری نثار اور عابد شیر علی جیسے بڑے بڑے برج سونامی کے آگے خس و خاشاک ثابت ہوئے۔ تا دم تحریر تحریک انصاف قومی اسمبلی کی115 نشستیں حاصل کرکے پہلے نمبر پر ہے۔ جبکہ ن لیگ 68 نشستوں کے ساتھ دوسرے اور پیپلز پارٹی 42 نشستیں لے کر تیسرے نمبر پر ہے۔ ایم ایم اے نے اب تک 10 اور ایم کیو ایم نے 8 سیٹیں جیتی ہیں۔ قومی اسمبلی کی 18 نشستوں پر آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ صوبائی اسمبلیوں کے نتائج بھی حسب توقع رہے، سوائے پنجاب کے، جہاں ن لیگ 130 سے زائد نشستوں کے ساتھ آگے ہے‘ مگر یاد رہے کہ تحریک انصاف کی بھی 123 سیٹیں ہیں اور 31 آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف نے سویپ کیا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی 72 نشستوں کے ساتھ آگے ہے‘ اور بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی 14 نشستیں لے کر فرنٹ پر ہے۔
اگر ہم 2013ء کے انتخابی نتائج پر ایک نظر ڈالیں تو حالیہ تبدیلی کا واضع نقشہ سامنے آتا ہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں ن لیگ نے قومی اسمبلی کی 126 نشستیں حاصل کی تھیں‘ جبکہ عمران خان کی جماعت 28 سیٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی تھی۔ یہاں چکوال میں، جو ہمیشہ سے ن لیگ کا گڑھ رہا ہے اور وہ ضلع کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تمام چھ نشستوں پر کامیابی حاصل کرتی رہی ہے، اس مرتبہ صرف ایک صوبائی سیٹ لے سکی جبکہ دونوں قومی اور تین صوبائی نشستوں پر تحریک انصاف کامیاب ہوئی۔ اگرچہ پی ٹی آئی کے سب سے زیادہ مضبوط امیدوار سردارغلام عباس کی این ٹی این نمبر نہ رکھنے کی پاداش میں نااہلی کی وجہ سے کہا جا رہا تھا کہ پی ٹی آئی کو مشکل صورتحال کا سامنا ہے، مگر اس نے حیران کن کامیابی حاصل کی۔ تحریک کے اتحادی چوہدری پرویز الٰہی نے این اے 65 میں ن لیگ کے اپنے حریف پر پچاس ہزار سے زائد ووٹوں سے برتری حاصل کی جبکہ سردار آفتاب اکبر نے پی پی 23 پر اپنے حریف کے مقابلے میں ستر ہزار زائد ووٹ لیے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے دیگر امیدواروں، این اے 64 پر سردار ذوالفقاردلہہ، پی پی 21 پر راجہ یاسر سرفراز اور پی پی 24 پر حافظ عمار یاسر نے بھی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ بہت سے دوسرے اضلاع میں بھی ایسی ہی تبدیلی دیکھنے کو ملی۔
اتنی بڑی تبدیلی کے پیچھے کارفرما عوامل پر تجزیے ہوتے رہیں گے؛ البتہ اب تک کے نتائج کو دیکھ کر ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت بننے میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں رہی۔ کسی بھی جماعت کو 272 ارکان پر مشتمل قومی اسمبلی کے ایوان میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے 137 ارکان کی ضرورت ہوتی ہے۔ نیز ووٹنگ کے تناسب کے لحاظ سے خواتین اور اقلیتوں کی 70 نشستیں بھی تقسیم ہوتی ہیں، جو ظاہر ہے کہ اکثریت کی بنا پر پی ٹی آئی کو زیادہ ملیں گی۔ تحریک انصاف کے ساتھ ق لیگ کی چار نشستیں بھی ہیں اور 18 آزاد ایم این ایز بھی موجود ہیں، حکومت سازی میں جن کا کردار ہمیشہ مسلمہ رہا ہے۔ کسی پارٹی کی حکومت بنتی دیکھ کر دیگر فاضل ممبران جو کردار ادا کرتے ہیں‘ وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ الیکشن سے قبل تجزیوں میں کہا جا رہا تھا کہ پی ٹی آئی یا ن لیگ کو واضح اکثریت نہ ملنے کی صورت میں پیپلز پارٹی بادشاہ گر کا کردار ادا کرے گی؛ تاہم عمران خان واضح کر چکے تھے کہ وہ ان جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت نہیں بنائیں گے۔ یقیناً اب اس کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ گویا ”اب آئے گا عمران، بنے گا نیا پاکستان‘‘ کے رستے میں کوئی قابل ذکر رکاوٹ ایستادہ نہیں رہی۔
بات توہم پرست اور حقیقت پسند تجزیہ نگاروں کی ہو رہی تھی۔ افسوسناک امر ہے کہ ملکی تاریخ کے ایسے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں، جنہیں یورپی مبصرین نے بھی صاف اور شفاف قرار دیا ہے۔ ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم ایم اے اور ایم کیو ایم سمیت 9 جماعتوں نے انتخابی نتائج کو ماننے سے انکار دیا۔ اس فیئر اینڈ لوّلی الیکشن کو سلیکشن اور تاریخ کی بد ترین دھاندلی کہا گیا۔ الزامات عائد کیے گئے ہیں کہ الیکشن قوانین کی دھجیاں اڑائی گئیں اور پولنگ ایجنٹس کو نکال کر رزلٹ تیار کیے گئے۔ الیکشن کمشن کی وضاحت کے باوجود کہ ان کا سسٹم بیٹھ گیا تھا، تنقید برائے تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ انسان کا بنایا سسٹم تو کسی بھی وقت بیٹھ سکتا ہے۔ ہم نے ایسے ہی تجزیہ نگاروں اور رہنمائوں کے بارے میں گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ وہ کسی بھی معاملے کے منفی پہلو پاتال سے بھی نکال لاتے ہیں۔
نفسیات کہتی ہے کہ انسانی دماغ میں اتنی قوت ہے کہ وہ کوئی بھی منفی یا مثبت بات مسلسل سوچتا رہے تو وہ حقیقت بن کر اس کے سامنے آ جاتی ہے۔ ان بزرگوں کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ ان کے خوابوں میں دھاندلی بستی تھی، سو عملاً ان کے سامنے دھاندلی ہی آئی۔ اس کے برعکس ہمارے محبوب رہنما عمران خان خود کو مسلسل وزیر اعظم کے روپ میں دیکھتے رہے، سو اب حقیقت میں شیروانی پہننے والے ہیں۔ مکرر عرض ہے کہ یہ وہ بادل نہیں جو گرجتے ہیں مگر برستے نہیں۔ اس دفعہ ساون رُت اور تبدیلی کی گھنگھور گھٹائیں مل کے برسیں گی تو برسوں کے پیاسے نہال ہو جائیں گے۔ وہ بھیگی رُت میں بھیگتے جھوم جھوم جائیں گے… من پیا ٹھردا… ڈھولا ویہڑے آ وڑیا۔ ہم منور ؔعزیز کی اس غزل پر اپنی آج کی بات ختم کرتے ہیں:
خوش انجام ہوئے/ خواب تمام ہوئے
برسوں بیت گئے/ ذرے دام ہوئے
کیسے خودسر تھے/ کیسے رام ہوئے
ملک آزاد ہوا/ لوگ غلام ہوئے
کیا بتائیں گے/ کیوں ناکام ہوئے
مہر و وفا تھے ہم / صبح و شام ہوئے
دیکھ منورؔ دیکھ/ کیا اکرام ہوئے
ہمیں خوشی ہے کہ گزشتہ کالم میں بیان کئے گئے توہم پرست تجزیہ نگاروں کے مفروضوں کے مقابلے میں ہم ایسے حقیقت پسندوں کی بات صحیح نکلی۔ کوئی ہنگ پارلیمنٹ وجود میں آئی نہ سیاسی عدم استحکام کا خدشہ رہا۔ حسب توقع فضل الرحمٰن، شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف، غلام احمد بلور، سراج الحق، چوہدری نثار اور عابد شیر علی جیسے بڑے بڑے برج سونامی کے آگے خس و خاشاک ثابت ہوئے۔