خوش فہمی؟…ہارون الرشید
باہم محاذ آرا ، ایک منقسم قوم کی ساری توانائی آپس کے تصادم میں کھپ جاتی ہے ۔ کام اور منصوبہ بندی کے لیے حکومت کے پاس کوئی وقت بچتا ہے، نہ خارجی دشمنوں سے نمٹنے کی فرصت ۔ ایسے میں ایک عظیم مستقبل کی تمنا اور پیش گوئی کیا خوش فہمی نہ ہو گی؟
یہ سطور جمعرات کو لکھی تھیں۔ چاروں طرف پھیلی ہوئی تلخی میں دل بجھ گیا تھا ۔ اللہ کا شکر ہے، حکومت نے جمعہ کو کچھ بہت ہی اچھے فیصلے کئے۔ غیر ملکی دورے کم ، بیرون ملک علاج نہ کرانے اور سرکاری اخراجات میں کفایت شعاری ۔ پشاور سمیت ہر کہیں میں میٹرو بسوں اور اورنج ٹرین کے آڈٹ کا فیصلہ۔ بتایا گیا ہے کہ میٹرک تک قرآن مجید کا ترجمہ لازمی قرار دے دیا جائے گا، جیسا کہ پختون خوا میں۔ خوشی ہے کہ بالآخر وفاقی کابینہ پوری قوّت سے بروئے کار آئی ہے۔
کھانے کا ایک لقمہ اٹھایا تو لگا کہ گڑبڑ ہے۔ پوچھا کہ بیسن کس دکان سے خریدا گیا۔ برسوں سے دیکھ رہا ہوں کہ ہر چیز میں ملاوٹ ہے ۔ دودھ کا حال تو سبھی کو معلوم ہے ۔ پانی ہی نہیں، خطرناک کیمیکلز بھی ملائے جاتے ہیں ۔ جانوروں کو ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔
60 برس ہوتے ہیں ، چک 42 جنوبی سرگودہا میں، سکول کے گرامی قدر استاد نے دودھ دہی اور چائے کی دکان کھولی۔ عورتیں دانتوں میں انگلیاں دبائے وہاں سے گزرتیں اور کہتیں: بیسیویں صدی ہے ، دودھ تو اللہ کا نور ہے۔ وہ بھی بکنے لگا۔ دودھ بیچنے میں کوئی قباحت نہیں لیکن اس بے دردی کے ساتھ اسے آلودہ کرنا؟
عہدِ رسالت مآبؐ میں عربوں کے ہاں دودھ میں پانی شامل کیا جاتا، اسے تازہ رکھنے اور ہاضم بنانے کے لیے۔ عمر ابنِ خطابؓ کے دور میں شکایات موصول ہونے لگیں کہ پانی کا تناسب زیادہ ہوتا ہے۔ امیرالمومنین ؓنے پابندی عائد کر دی۔ گاہے آپ گلیوں میں گشت کیا کرتے ۔ ایک خاتون کو انہوں نے کہتے سنا: بیٹی دودھ میں کچھ پانی ملا دو۔ ”عمرؓ نے حکم دیا ہے کہ ایسا نہ کیا جائے‘‘ اس نے جواب دیا ”عمرؓ کیا یہاں کھڑا دیکھ رہا ہے؟‘‘ جوانی کی بے ساختگی اور بے نیازی سے لڑکی پلٹ کر بولی ”اللہ تو دیکھ رہا ہے‘‘ اس آواز میں ایسی کوئی بات تھی کہ عربوں کا دائمی سردار ریجھ گیا۔ اپنے فرزندوں سے کہا : تم میں سے کوئی اس سے نکاح کر لے ۔ اسی خاتون کی نسل سے وہ آدمی پیدا ہوا، تاریخ جسے پلٹ پلٹ کر دیکھتی اور حیران ہوتی رہتی ہے۔ عمر بن عبدالعزیز ؒ، جنہیں پانچواں خلیفۂ راشد کہا گیا ۔ جس کی وفات پر قیصرِ روم نے کہا تھا ”بادشاہ نہیں ، وہ ایک راہب تھا ۔ دنیا اس کے قدموں میں ڈھیر کر دی گئی مگر اس نے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔
کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کا تسلسل بجائے خود اس کے کھوٹ الگ کر دیتا ہے۔ پاکستان ہی نہیں ، سرحد پار بھارت، اس سے پرے بنگلہ دیش اور بہت دور دراز کی سرزمینوں مثلاً اٹلی میں جمہوریت کا تسلسل حسنِ کردار کی فصل نہ اگا سکا۔ اگا سکتا ہی نہیں۔ معاشرے کی اخلاقی تعمیر ایک الگ چیلنج ہے، جس کا تعلق جمہوریت سے بہت کم ہوتا ہے۔ حکمران بہت کچھ کر سکتا ہے، اگر ادراک اور عزم رکھتا ہو۔ اخلاقی اعتبار سے خود مضبوط ہو ۔ اہلِ علم سے رہنمائی کا طالب اور قرآنِ کریم کے اس فرمان میں چھپے رموز سے آشنا کہ ” و امرھم شوریٰ بینہم‘‘ ہر موضوع پر، ہر سوال پر مشورہ۔ ہمیشہ ماہر اور موزوں لوگوں سے ، نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ۔ معاشرے کی اخلاقی اور علمی بالیدگی کا انحصار لیکن صرف حکومت پر نہیں ہوتا۔
کیا پرانی ، کیڑوں کی کھائی دالیں پیس کر، اس میں پیلا رنگ ڈال کر بیسن بنانے والے ہر جعل ساز سے، عمران خان خود نمٹے گا؟ ایک تنہا آدمی نہیں ، ایک معاشرہ اپنے امراض سے لڑتا ہے۔
جاری بحث یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف ایوانِ وزیرِ اعظم میں اپنے اخراجات خود برداشت کرتے تھے یا نہیں ۔ ایک اخبار نویس نے دعویٰ کیا کہ پرائم منسٹر عمران خاں نے پہلے ہی دن اپنے پیش رو کے ذاتی اخراجات کا حساب طلب کیا ۔ اخبار نویس کے دعوے کو اکثر لوگوں نے مسترد کر دیا ۔ یہی نہیں ، پی ٹی آئی کے بعض جذباتی کارکنوں کی طرف سے گالی گلوچ کا سلسلہ شروع ہوا اور دراز ہوتا گیا ۔ لطیفے گھڑے گئے، اتنے بے شمار کہ پاکستانی سوشل میڈیا کی تاریخ میں شاید ہی ایسی کوئی دوسری مثال ہو گی۔ اخبار نویس نے اس پر چار دستاویزات جاری کیں ۔ یکم مئی 2016ء سے لے کر 9 اگست 2017ء کے درمیان ، دوپہر اور رات کو وزیرِ اعظم کے ذاتی کھانے کا بل: 57,34,423، ایک دوسرا بل پنجاب ہائوس میں میاں صاحب کی نواسی ماہ نور کی سالگرہ کا ہے ۔ 3 مارچ 2015ء کو سال گرہ کی تقریب پنجاب ہائوس میں منائی گئی۔ اس پر 2,97,000 خرچ ہوئے ۔ ایک صدقے کے 7 عدد بکروں کا بل ہے ، مبلغ 77,000 روپے۔ ایک اور بل 24 مئی 2017ء سے لے کر 14جون ، 20 ایام کے درمیان، حسین نواز کے ذاتی مہمانوں کی تواضع کا ہے ۔ یہ اسلام آباد کی ایک بیکری سے منگوائی گئی خوردنی اشیا ہیں، مبلغ 36,967 روپے۔ اقتدار سے علیحدگی کے چند دن بعد، میاں نواز شریف نے یہ بل ادا کر دیے ، 61,45,000 روپے۔ ذاتی اخراجات میاں محمد نواز شریف نے برداشت ضرور کئے مگر کب؟ برطرف کیے جانے کے بعد، جب اپنے خلاف کارروائی کا اندیشہ تھا۔ میاں صاحب خوش دلی سے آرزومند تھے تو چار سال انتظار کیوں کرتے رہے۔ سرکاری خزانہ ان چیزوں پہ خرچ کیوں کیا؟ انہیں کس نے یہ حق دیا تھا؟
دو سوال اور ہیں، اس حرکت کے باوجود اب وہ داد کے خواہشمند کیوں ہیں ؟ ان کے حامی انہیں پارسا کیوں ثابت کر رہے ہیں؟۔ دوسرا یہ کہ اخبار نویس دشنام طرازی کا ہدف کیوں ہے ۔ ناچیز کو بھی اس کے اخذ کردہ تاثر اور تجزیے سے اختلاف ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ وہ جذبات کا شکار ہو گئے۔ پھر بھی چار پانچ دن سے گندی گالیوں کا یہ طوفان اور کسی ثبوت کے بغیر یہ سنگین الزام کیوںکہ وہ نون لیگ کا کارندہ ہے ۔ یہ بھی کہ شریف خاندان اس کی مالی سرپرستی کرتا ہے۔ جو لوگ جانتے ہیں ، وہ جانتے ہیں ، جنہوں نے فقط اس کی تحریریں پڑھی ہیں ، وہ بھی گواہی دے سکتے ہیں کہ اپنے نظریات میں وہ ایک بے لچک آدمی ضرور ہے، لیکن کارندہ کبھی نہ تھا۔ کبھی اس نے کسی حکمران یا لیڈر کی مدح سرائی نہیں کی بلکہ چار سال تک نواز شریف کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنائے رکھا۔ اس کی آمدن کافی ہے ۔ ارکانِ اسمبلی یا ارکانِ سینیٹ، حتیٰ کہ وزرا، وزیرِ اعظم اور سپہ سالار سے زیادہ تنخواہ ۔ صحافت کے جانے پہچانے، ممتاز اور مقبول، گنتی کے اخبار نویسوں کی تنخواہیں غیر معمولی ہیں۔ 8، 10 لاکھ سے لے کر 20,25 لاکھ تک ۔ دو اخبار نویس ایسے بھی ہیں، جو پچاس لاکھ روپے ماہوار پاتے ہیں۔ پھر یہ کہ وہ ایک سادہ سی زندگی بسر کرتا ہے۔ سادہ لباس، ساہ کھانا ، دفتر کی گاڑی ، کوئی کرّوفر نہ شاہانہ انداز۔ الزام لگانے والے لمحہ بھر تامّل نہیں کرتے۔ ہیجان کے مارے ہوئے متصادم لشکر ۔ نون لیگ کی قیادت اپنے حامیوں کو منع کرتی ہے اور نہ پی ٹی آئی کی لیڈر شپ۔ اخلاقی طور پہ معاشرہ پست سے پس تر ہوتا جا رہا ہے… اور کسی کو کوئی پروا نہیں۔
باہم محاذ آرا ، ایک منقسم قوم کی ساری توانائی آپس کی جنگوں میں کھپ جاتی ہے ۔ کام اور منصوبہ بندی کے لیے کوئی وقت بچتاہے ، نہ خارجی دشمنوں سے نمٹنے کی فرصت ۔ ایسے میں ایک عظیم مستقبل کی تمنا اور پیش گوئی کیا خوش فہمی نہیں؟