خونِ جگر سے….ہارون الرشید
فرمایا: جسے حکمت عطا کی گئی‘ اسے خیرِ کثیر عطا کیا گیا۔ عارف سے کسی نے پوچھا: حکمت کیا ہے؟ کہا: سائنسی اندازِ فکر! چمن میں بہار خود اترتی ہے‘ قوموں کے لیے بوئی‘ سینچی اور پروان چڑھائی جاتی ہے‘ خونِ جگر سے۔
2011ء کا موسم خزاں تھا۔ ”میں اور میرا پاکستان‘‘ کے عنوان سے ایوانِ اقبال لاہور میں عمران خاں کی خود نوشت کے ترجمے کی افتتاحی تقریب تھی۔ ایک ممتاز سکالر کی سرپرستی میں ایک نوجوان استاد کو یہ کام سونپا گیا۔ دو تین ابواب کی تصحیح اور تدوین کے بعد‘ ایک دن پورے کا پورا مسوّدہ ردّی کی ٹوکری میں پھینکا۔ پھر ساٹھ دن تک ایک چھوٹے سے ہوٹل کے کمرے میں بند رہا۔ صرف دو دن کی چھٹی کی۔ ایک دن اسلام آباد میں بھتیجے کی شادی اور ایک دن عید کے موقع پر۔ شادی کے دن میری پوتی عیشا بھاگتی ہوئی آئی اور مجھ سے چمٹ گئی‘ ”دادا کیا ہم آپ کو کھانا نہیں دیتے تھے کہ آپ گھر سے چلے گئے‘‘۔ عید کے دن وہ اور بھی ناراض تھی‘ بولی: آپ کون ہیں اور یہاں کیوں آئے ہیں۔ بچے من جاتے ہیں اور بالکل بُھلا دیتے ہیں‘ بڑے نہیں بُھلاتے۔
اسلام آباد میں صدارتی خطبہ پروفیسر احمد رفیق اختر نے دیا۔ شفقت محمود نے کہا: میں مبہوت رہ گیا‘ علم اور اظہار ایسا بھی ہوتا ہے۔ عمران اپنی مقبولیت کے عروج پر تھا۔ جہاں کہیں وہ جاتا‘ لوگ اس پر ٹوٹ پڑتے۔ ایک دن درویش نے ہنستے ہوئے کہا: حسد سے اللہ بچائے‘ اب تو لوگ اس کی طرف ہی دیکھتے ہیں۔
لاہور کے لیے ڈاکٹر خورشید رضوی سے درخواست کی گئی۔ میری درخواست پر‘ ازراہِ کرم‘ فلیپ کے لیے چند سطور انہوں نے لکھی تھیں۔ انہوں نے معذرت کر لی اور کہا: بھائی‘ میں سیاسی آدمی نہیں۔ اب عمران خان مُصر ہوئے کہ مجیب الرحمن شامی صدارت کریں گے۔ ”وہ میرے ساتھ ہیں‘‘ اس نے کہا۔ سٹیج پر بیٹھے ہوئے‘ کسی قدر کوفت کا عالم طاری تھا‘ تکان تھی یا شاید کچھ اور۔ یاد نہیں اس نے کیا کہا کہ بیزاری سے میں نے پوچھا: آپ کوئی قائد اعظمؒ ہیں یا مہاتیر محمد؟ وہ کچھ حیران تو ہوا‘ لیکن صبر کیا۔ بولا: ”میں تمہیں بن کر دکھائوں گا‘‘ اسی لہجے میں جو ایک طویل رفاقت سے پیدا ہونے والی بے تکلفی میں اختیار کیا جا سکتا ہے‘ عرض کیا: 56 سال آپ کی عمر ہے‘ جو بننا تھا‘ بن چکے۔
تقریر میں بھی یہی کہا: کبھی کبھی میں بیزار ہو جاتا ہوں‘ خیر خواہ بھی سمجھاتے ہیں۔ تب ان سے کہتا ہوں: مجبوری ہے بھائی‘ کوئی متبادل ہے تو بتائو… اور کوئی نظر نہیں آتا۔ ہاتھ پہ ہاتھ رکھے یہ قوم کسی مسیحا کے انتظار میں بیٹھی رہتی ہے۔ دانا باتیں کرتے ہیں کام نہیں۔
امتحان کے 16 برس بیت گئے تھے۔ اب ہم ایک نئے موسم کی دہلیز پر کھڑے تھے۔ بحث اب بھی جاری رہتی کہ کیا منزلِ مقصود تک وہ پہنچ پائے گا۔ 30 اکتوبر 2011ء کو‘ لاہور کے تاریخی جلسۂ عام کے بعد‘ اخبار نویس دوستوں اور سیاسی کارکنوں نے مذاق اڑانا بند کر دیا تھا۔ باایں ہمہ یہ ناچیز اب تھکنے لگا تھا۔ لاشعوری طور پہ شاید رہائی چاہتا تھا۔ انہی دنوں ایک بار فون پر اس نے مجھ سے کہا: تم تو عید کا چاند ہو گئے۔
باقی تاریخ ہے۔ بس یہ کہ بعض کے تحفظات اب بھی باقی ہیں اور اب میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اکثریت اب ایسی امیدیں‘ وابستہ کر رہی ہے‘ گویا وہ مہاتیر محمد یا قائد اعظمؒ ہو۔ وہی ایک نجات دہندہ کا خواب‘ وہی ناآسودہ تمنائیں‘ وہی بے عملی‘ عظمتِ رفتہ کی وہی بے تاب تمنا۔
ہر چیز وہ ہموار کر دے گا۔ قوم کو نہ صرف دلدل سے نکالے گا بلکہ خیرہ کن رفتار سے آگے بڑھے گا… کیا وہ وہی شخص نہیں جو کہ تھا‘ کیا یہ وہی قوم نہیں جو کہ تھی۔ کیا کسی ایک واقعے سے افراد اور اقوام کے اطوار اور مزاج میں انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔
خواب دیکھے جا سکتے ہیں بلکہ دیکھنے چاہئیں۔ خواب ہی نہ ہوں تو جنت سے نکالا گیا آدمی اس خاک داں میں بسر کیسے کرے گا۔ صدیوں سے نکبت اور ادبار کے زخم کھاتا معاشرہ‘ مرہم کی آرزو بھی نہ پالے تو جیئے گا کیسے‘ بروئے کار کیسے آئے گا۔ ہاں‘ مگر حقیقت پسندی! حقیقت پسندی بھی کوئی چیز ہے کہ نہیں؟
جمعرات کی شام آٹھ بجے اطلاع یہ تھی کہ علیم خان کو وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ ہو چکا۔ گمان یہ تھا کہ جہانگیر ترین نے مداخلت کی اور خان کو ہموار کر لیا۔ تنقید کے پیرائے میں عبدالعلیم خان کا ذکر شاید زیبا نہیں۔ پارٹی کے لیے خدمات اس کی بہت ہیں۔ بے شمار وقت اور سرمایہ‘ پارٹی پہ اس نے لٹایا‘ جیسے کوئی اپنی اولاد پر لٹائے۔ اس ناچیز پہ ذاتی احسانات بھی ہیں۔ جب بھی کسی مجبور کے لیے مدد کی درخواست کی تامل کا شکار وہ کبھی نہ ہوا۔ سوال مگر یہ ہے کہ ان پیچیدہ اور نازک حالات میں کیا وہ گیارہ کروڑ آبادی کے اس صوبے کی رسان سے قیادت کر سکتا ہے۔ بد قسمتی سے اس سوال کا جواب نفی میں ہے… اور وجوہات کی وضاحت کی جا چکی۔
خیر‘ میں تو لمبی تان کر سو گیا کہ اب میری سنتا کون ہے اور یہ بھی کہ مجھے دخل دینے کا حق بھی کیا ہے۔ کچھ دوسرے لوگ بروئے کارآئے۔ کچھ اخبار نویس‘ کچھ سیاسی کارکن اور یاللعجب‘ علیم خان کے بعض دوست‘ جو کیمروں کے سامنے‘ اس کی حمایت کا اعلان کر چکے تھے۔ ان میں سے ایک کے بقول جو ہر روز ٹی وی پہ نمودار ہوتا ہے‘ اگلی صبح مطلع صاف تھا۔
ایک دوسرے امیدوار شاہ محمود قریشی تھے۔ اطلاع یہ تھی کہ وزارتِ اعلیٰ پہ وہ بضد رہے۔ قومی اسمبلی کا سپیکر بنانے کی پیشکش ہوئی تو اس شرط پر مانے کہ علیم خان کو وزیر اعلیٰ نہیں بنایا جائے گا۔ یہ جملہ نہیں کہا‘ منجھے ہوئے لیڈر نے ایک ایسا نام تجویز کیا‘ ذاتی نجابت کے اعتبار سے‘ جس پر اعتراض نہ کیا جا سکتا۔ مقصود یہی تھا اور غالباً اس لیے کہ علیم خان کا نام حریف جہانگیر ترین نے بھی لیا تھا۔
کپتان کے ذہن میں کچھ اور نام بھی تھے لیکن جیسا کہ اس کا مزاج ہے‘ کبھی ایک اور کبھی دوسری طرف جھکتا رہا۔ کبھی خواب‘ کبھی عملیت پسندی‘ ڈاکٹر یاسمین راشد؟ میجر طاہر صادق؟ سبطین خاں؟
ڈاکٹر صاحبہ پنجاب کی وزارتِ صحت پہ آسودہ رہیں گی۔ سپنا وہ بھی رفعت کا دیکھتی ہیں مگر ضبطِ نفس ہے اور وضع داری بھی۔ رہے سبطین خاں تو ان کا کوئی مطالبہ ہی نہ تھا‘ کمال کی قناعت پسندی۔
ترک تاریخ کے سب سے جلیل القدر حکمران سلطان محمد فاتح سے پوچھا گیا: آپ کی خیرہ کن کامیابیوں کا راز کیا ہے۔ اس نے کہا: میری داڑھی کے بالوں کو بھی پتہ چل جائے کہ میں کیا چاہتا ہوں تو قصوروار ہوں۔
اس دیار کے لیڈروں میں یہ وصف اپنے محترم دوست گلبدین حکمت یار میں دیکھا۔ جن غلطیوں کے وہ مرتکب ہوئے‘ جیسے حالات کا سامنا تھا‘ کسی اور کو ہوتا تو کچلا جاتا۔ حکمت یار کی بقا کا راز یہ ہے کہ بھید میں کبھی کسی کو شریک نہ کیا‘ کبھی نہیں۔ ایک بار یہ بات عمران خان سے کہی تو بے ساختہ اس کا ردّ عمل یہ تھا: کاش یہ وصف مجھ میں بھی ہوتا۔ اب کی بار اس نے راز رکھنے کی کوشش کی اور ایسی کہ پہلے کبھی نہ کی تھی۔ میرا تاثر مگر یہ ہے کہ آج شام سے پہلے ہی جب اسے اعلان کرنا ہے‘ بات شاید نکل جائے۔
خاکسار کو بھی اندازہ ہے۔ کچھ معلومات بھی ہیں مگر مناسب یہی ہے کہ شام کا انتظار کیا جائے۔ اور کوئی راز کھولے تو کھولے‘ مجھے صبر سے کام لینا چاہیے۔
اور آخر میں وہی بات۔ امید یہ ہے کہ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف سے وہ بہتر ثابت ہو گا مگر وہ مہاتیر محمد ہے اور نہ محمد علی جناح۔ تین باتیں شاید یاد رکھنی چاہئیں۔ ایک تو یہ اس کا نام عمران خان ہے۔ اس کی ایک افتادِ طبع ہے اور افتادِ طبع ہی آدمی کی تقدیر ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ قوموں کا مزاج‘ صدیوں میں ڈھلتا ہے اور آسانی سے بدلتا نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ حقیقت پسندی‘ حکمت کا اہم ترین جزو ہے۔ تجزیہ غلط ہو جائے تو عمارت کی بنیاد ہی ناقص ہو جاتی ہے‘ دھڑ دھڑ‘دھڑام!
فرمایا: جسے حکمت عطا کی گئی‘ اسے خیرِ کثیر عطا کیا گیا۔ عارف سے کسی نے پوچھا‘ حکمت کیا ہے؟ کہا: سائنسی اندازِ فکر! چمن میں بہار خود اترتی ہے‘ قوموں کے لیے بوئی‘ سینچی اور پروان چڑھائی جاتی ہے‘ خونِ جگر سے۔