بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے اوڑی میں ‘بھارتی فوج پر حملے میں 18 فوجیوں کی ہلاکت کا افسانہ گھڑ کے ‘بھارت خود ہی بھنور میں پھنس گیا ہے۔ بھارتی ذرائع 18فوجیوں کی ہلاکت کے افسانے پر یقین نہیں کرتے۔ اس کہانی کا راز پہلے کھول دیا گیا تھا۔ لیکن بعد میں جب سیاسی پنڈتوں نے اپنی دانست میں‘ پاکستان کو گھیرے میں لینے کا افسانہ تیار کیا‘ تواس کہانی میں نئے نئے موڑ اور خطرناک امکانات سامنے آنے لگے۔ 18فوجیوں کی ہلاکت کا افسانہ تراشنے کے بعد‘ بھارت اور پاکستان میں پیدا ہونے والی کشیدگی میں نئے نئے موڑ دکھائی دینے لگے اور ہر موڑ پر بھارتی افسانہ طرازوں کو متعدد امکانات ابھرتے ہوئے دکھائی دینے لگے۔ ابتداء میں بھارتی سیاست کے افسانہ نویسوں کو کہانی میں کوئی خاص دلچسپی دکھائی نہ دی۔ لیکن جب سنجیدگی سے غور و فکر کیا گیا‘ تو پاکستان پر مرتکز کی ہوئی شرپسندانہ کہانیوں میں ‘بہت سے امکانات دکھائی دینے لگے۔ انڈس واٹر ٹریٹی 65 سال سے کاغذوں میں بند ایک بے ثمر افسانہ تھا۔ لیکن حالیہ کشیدگی پیدا کر کے‘ بھارتی مفکروں کوپاکستان کو مشکلات میں ڈالنے کی تراکیب سوجھنے لگیں‘ تو انہیں اپنے شرپسندانہ عزائم میں کامیابی کی امیدیں پوری ہوتی نظر آنے لگیں۔ متعدد میٹنگوں میں ماہرین کے ساتھ مشاورت کے بعد‘ 65 سالہ پرانے معاہدے کو توڑنے کے امکانات نمایاں ہوئے اور پاکستان دشمن سیاستدانوں کو وہ اشارے نمایاں ہوتے نظر آئے‘ جن کے تحت کشمیر ی علاقوں سے بہہ کر مشرقی اور مغربی پاکستان کے میدانوں کو سیراب کرنے والے چھ دریائوں کے استعمال کے حقوق دونوں ملکوںکے درمیان تقسیم ہوتے ہیں۔1960ء میں ورلڈ بینک اور کئی مغربی ممالک نے بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور پاکستانی صدر فیلڈ مارشل ایوب خان کے درمیان اس معاہدے کی ثالثی کی اور سندھ طاس معاہدہ یا انڈس واٹر ٹریٹی کے نام سے معرض وجود میں آ گیا۔پاکستان اور بھارت کے زیرِانتظام‘ کشمیر سے دریائے سندھ‘ ستلج‘ بیاس‘ راوی‘ چناب اور جہلم بہتے ہیں۔ معاہدے میں ستلج‘ بیاس اور راوی پر انڈیا کے قدرتی حق کو تسلیم کیا گیا‘ جبکہ پاکستان کو چناب‘ سندھ اور جہلم کے حقوق دیے گئے۔اوڑی حملے کے بعد ‘پہلے تو بھارت میں پاکستان پر فوجی کارروائی کی باتیں ہوئیں اور بعد میں اسلام آباد کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے کے منصوبے زیرغور لائے جانے لگے۔ مسلح تصادم کی دھمکیاں یا سفارتی مورچہ بندی اپنی جگہ لیکن اب بھارت میں پاکستان
کے خلاف پانی کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی باتیں ہونے لگیں۔بھارتی سکالر اور کالم نویس پی جی رسول لکھتے ہیں یہ”غیر ضروری اور غیرذمہ دارانہ باتیں ہیں۔‘‘ان کا کہنا ہے کہ انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت پاکستان کو خصوصی رعایت نہیں دی گئی تھی بلکہ دریاؤں کے رْخ اور جغرافیائی حقائق کو تسلیم کیا گیا ہے۔”اگر پانی کو جنگی ہتھیار بنا کر انڈیا نے پاکستان کی طرف جانے والے دریاؤں کا پانی روکا ‘تو کشمیر میں ہر لمحہ سیلاب آئے گا اور پھر اگر چین نے یہی حربہ استعمال کر کے ‘تبت سے آنے والے براہم پترا یا گنگا دریا کا رْخ موڑا ‘تو بھارت کی شمال مشرقی ریاستیں برباد ہو جائیں گی۔‘‘یہ مہذب بات نہیں مگر میں مجبور ہوں۔ اس معاہدے کو توڑا گیا ‘تو بھارت کو چھٹی کا دودھ یاد آجائے گا۔ چین کے پاس ایسی ٹیکنالوجی ہے کہ وہ چندہفتوں کے اندر براہم پترا کا رْخ موڑ سکتا ہے۔ پھر تو پنجاب‘ ہریانہ‘ دلی اور دیگر کئی ریاستوں میں اندھیرا چھا جائے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ورلڈ بینک نے اس معاہدے کی ثالثی کر کے‘ بھارت اور پاکستان کو ایک تحفہ عطا کیا ہے، جس کی قدر کرنا چاہیے۔مبصرین کہتے ہیں کہ مصر، لبنان، عراق اور ترکی جیسے ممالک کے درمیان بھی دریاؤں کے پانی کی شراکت کے معاہدے ہیں۔ ناراضی اور کشیدہ تعلقات کے باوجود‘ دریائوں کے ان حصے داروں نے‘ پانی کو جنگی ہتھیار نہیں بنایا ۔غور طلب بات یہ ہے کہ کشمیر کے نائب وزیراعلیٰ‘ نرمل سنگھ نے اعلان کیا ہے کہ جموں و کشمیر کی حکومت ‘نریندر مودی کے کسی بھی فیصلے کی حمایت کرے گی۔یادرہے کہ بی جے پی اور محبو بہ مفتی کی مخلوط حکومت ہے۔ بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کی وجہ سے کشمیر کو ہر سال ‘ساڑھے چھہ ہزار کروڑ روپے کا نقصان بھگتنا پڑتا ہے۔ کیونکہ جہلم، چناب اور سندھ کے دریاؤں پر بھارت کو بند تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔تاہم اکثر اوقات کشمیر میں بھارتی کنٹرول والے پن بجلی منصوبوں کی تعمیر کو لے کر پاکستان اعتراض کرتا ہے اور بعد میں ان اعتراضات کی سماعت ‘انڈس واٹر کمیشن میں ہوتی ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ
بھارتی مقبوضہ کشمیر حکومت نے چناب اور جہلم پر ‘بجلی کی پیداوار کے درجنوں منصوبوں کا خاکہ تیار کر رکھاہے لیکن سندھ طاس معاہدے کی وجہ سے‘ ان منصوبوں کو مکمل کرنے کی اجازت نہیں مل رہی ہے۔بھارتی حکومت کشمیر کو ساڑھے چھہ ہزار کروڑ روپے کے سالانہ نقصان کا دعویٰ اس بنا پر کرتی ہے کہ بھارت یہاں کے دریاؤں پر بڑے پن بجلی کے منصوبے تعمیر نہیں کر سکتا۔آبی امور کے ایک اور ماہر کہتے ہیں کہ کشمیر میں موجودہ بجلی کے منصوبوں پر انڈین حکومت کا مکمل کنٹرول ہے اور 20 ہزار میگاواٹ کی صلاحیت کے باوجود ‘کشمیریوں کو کئی سال سے لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ درپیش ہے۔ پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کرنے کی بھارتی شرانگیزیوں کے نتیجے میں دونوں ملک‘ بجلی کی مزید پیداوار سے محروم چلے آ رہے ہیں۔ باہمی تعاون کے ان منصوبوں میںدونوں ملکوں کے لئے ترقی و خوشحالی کے بے شمار امکانات موجود ہیں۔ لیکن بھارتی قیادت کی تنگ نظری پر مبنی ہٹ دھرمی‘ برصغیر کی کروڑوں کی آبادی کو خوشحالی کے امکانات سے فیضیاب ہونے سے محروم رکھتی چلی آ رہی ہے۔ تنگ نظر بھارتی قیادت کو یہ خیال بار بار ستاتا ہے کہ وہ پانی اور بجلی کے مزید منصوبے مکمل کر کے‘ اپنے لئے مزید خوشحالی کے راستے کھول سکتی ہے۔ لیکن اسے شاید معلوم نہیں کہ پاکستان کی رضامندی کے بغیر ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ امکانات اسی وقت حقیقت میں بدل سکتے ہیں‘ جب دونوں ملکوں کے ماہرین اتفاق رائے سے‘ نئے منصوبوں کی بنیاد رکھیں۔ اس میں دونوں کا فائدہ ہے۔ لیکن مسلسل باہمی کشیدگی کی وجہ سے دونوں ہی‘ کوئی نیا منصوبہ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا سکتے۔ درحقیقت جن سیاسی قیادتوں نے سندھ طاس معاہدے کی بنیاد رکھی‘ ان کے پیش نظر مشترکہ قدرتی وسائل سے باہمی تعاون کے ساتھ استفادہ کرنا تھا۔ لیکن یہ معاہدہ پایہ تکمیل کو پہنچا‘ تو پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی
اور جنگوں کے ادوار شروع ہو گئے۔ اس کی تفصیل میں نے ایک گزشتہ کالم میں چند روز پہلے درج کی تھی۔ 60ء کا عشرہ پاکستان اور بھارت دونوں پر ہی تصادم اور فساد کی جڑیں لگا گیا تھا۔ اس کے بعد مسلسل کشیدگی اور لڑائی کے راستے کھلتے چلے جا رہے ہیں۔ موجودہ کشیدگی اور تصادم کے نتیجے میں ‘ماضی کی نسبت کہیں زیادہ تباہ کاری کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ مودی کی بی جے پی حکومت کی موجودگی میں‘ کسی نیکی اور خیرسگالی کی امید نہیں کی جا سکتی۔ مودی نے تو کہا ہے کہ ”خون اور پانی ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے۔‘‘ لیکن عملی طور پر مودی اور ان کے ساتھی یہی کچھ کر کے دکھانا چاہتے ہیں۔