خیبر، مستونگ میں لاشے اور فردوس کے بالا خانے….امیر حمزہ
ملی مسلم لیگ بلوچستان کے صدر اشفاق صاحب کی دعوت پر14اگست 2017ء کو جب میں کوئٹہ میں تھا‘ تو سریاب روڈ پرڈیڑھ کلومیٹر لمبا جھنڈا دیکھا‘ جسے مستونگ اور اس کے گردونواح سے آئے ہوئے براہوی بلوچوں اور اہل کوئٹہ نے اٹھا رکھا تھا۔ اس قومی پرچم کے کاروان میں تھوڑی دیر کے لئے میں اور میرا چھوٹا بیٹا خزیمہ بھی شامل ہو گئے۔ معلوم ہوا یہ کاروان نوابزادہ سراج رئیسانی کی قیادت میں پاکستان کے قومی پرچم کی چھائوں میں گزر رہا ہے۔ سیاہ چشمہ لگائے سراج رئیسانی اپنے کاروان کو شاداں و فرحان کنٹرول کر رہے تھے۔ سراج رئیسانی کے بڑے بھائی نواب اسلم رئیسانی بلوچستان کے وزیراعلیٰ بنے‘ تو چند ہفتے قبل ان کے گھر میں تفصیلی ملاقات ہوئی۔ حاجی لشکری رئیسانی سے ایسی ملاقات ہوئی کہ فون پر بھی رابطہ رہتا تھا۔ سراج رئیسانی سے ملاقات تو نہ تھی‘ مگر ان کے قافلے کو دیکھ کر دل مسرت سے لبریز ہوا‘ اسی روز پشتون قبیلے کے سردار ڈاکٹر ہارون ادوزئی نے بھی ایک کلومیٹر سے زائد قومی پرچم تیار کیا تھا اور میں اسی پرچم کے کاروان کے لئے کوئٹہ میں آیا تھا۔ یوں سمجھیں کہ پشتون اور بلوچ لاالہ الا اللہ کے نعروں کی گونج میں قومی پرچم کے سائے تلے اپنی ایمانی اور پاکستانی حرارت کے جذبوں کو دوبالا کر رہے تھے۔ نوابزادہ سراج رئیسانی کے 14سالہ بیٹے حقمل رئیسانی نے بھی 2012ء میں اس وقت جام شہادت نوش کیا تھا جب مستونگ میں دہشت گردوں کو پاکستانیت کا پیغام دینا مقصود تھا اور یہاں فٹ بال کا میچ کروایا گیا تھا۔ مستونگ کے علاقے کو دہشت گردوں نے اپنی محفوظ جنت سمجھ رکھا تھا۔ سراج رئیسانی نے اس کو پاکستانی قلعہ بنانے کا عزم کر رکھا تھا۔ مستونگ سے کوئی 70کلومیٹر بعد جب کوئٹہ میں سریاب روڈ شروع ہوتا ہے‘ تو اس علاقے میں پاکستان کے پرچم پاکستان دشمنوں کی ہزیمت کا اعلان کرتے ہوئے لہرا رہے تھے۔ میں اس منظر کو سراج رئیسانی اور ہارون ادوزئی کے لمبے پرچموں کی بہار میں دیکھ رہا تھا اور خوش ہو رہا تھا کہ پاکستان اپنے استحکام کے سفر پر رواں دواں آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ یہ سفر جو شروع ہو چکا ہے اب اس کو روکنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ سراج کا معنی چراغ ہے اب مذکورہ چراغ کو شہادت کا لہو مزید روشنی اور نور سے منور کرنے کا باعث بنے گا (انشاء اللہ) سراج نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر بہادر بلوچو! کہا ہی تھاکہ بہادر سراج اپنے چشم و چراغ حقمل کے پاس جا پہنچا۔ جسم تو زمین پر خاک و خون میں لتھڑا تھا‘ مگر روح والا اصلی سراج۔ حقمل سے بغل گیر ہو کر کس قدر خوش ہوا ہو گا؟ یہ اللہ ہی جانتے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون کا مطلب یہی ہے کہ ہم سب یہاں اللہ تعالیٰ کی چاہت تک موجود ہیں اور جب حکم ہو گا‘ تو واپس اللہ کے پاس چلے جائیں گے۔ اس ایمانی جملے سے ہی صبر اور قرار ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مستونگ کے ڈیڑھ سو شہداء کے تمام لواحقین کو صبر عطا فرمائے۔
2013ء کے الیکشن سے پہلے صوبہ خیبرپختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت تھی۔ انہی دنوں حضور ﷺ کی حرمت کے لئے ہم لوگ تحریک حرمت ِرسولؐ بھی چلا رہے تھے۔ پنجاب میں اے این پی کے روح رواں جناب امیر بہادر خان ہوتی میرے پرانے اور جگری دوستوں میں سے ہیں۔ لاہور میں چھ لاکھ پشتون رہتے ہیں۔ وہ ان کے معاملات کو دیکھتے ہیں۔ ایک مسجد جس کا افتتاح میں نے کیا‘ وہ اس کا نظام بھی چلاتے ہیں۔ ہم نے پروگرام بنایا کہ قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ تمام صوبائی اور علاقائی اسمبلیوں سے خاکے بنانے والوں کے خلاف مذمتی قراردادیں پاس کروائی جائیں۔ امیر بہادر خان ہوتی نے کے پی کے میں میاں افتخار حسین سے رابطہ کیا‘ جواس وقت صوبائی وزیر اطلاعات تھے۔ میں وہاں اسمبلی میں گیا تو سپیکر صا حب اور میاں صاحب میرے انتظار میں شام تک اسمبلی میں بیٹھے رہے۔ ایک ایم پی اے کو میرے ساتھ کر دیا۔ میں نے مذمت کے الفاظ لکھوائے‘قرارداد بنائی اور اگلے دن وہ پاس ہو گئی۔ سینئر وزیر بشیر بلور جو شہید ہوئے‘ انہوں نے بھی حرمت ِرسولؐ کی خاطر گستاخوں کے خلاف مذمتی بیان جاری کیا۔ غلام احمد بلور جو ریلوے کے وزیر تھے‘ انہوں نے خاکے بنانے والے گستاخ کے سر کی قیمت کا اعلان کیا۔ اس پر انہیں امریکہ نے یہ سزا دی کہ جب وہ علاج کے لئے امریکہ جانے لگے‘ تو انہیں ویزا نہ دیا گیا۔ انہوں نے کہا: اپنے رسولؐ کی عزت و حرمت کی خاطر مجھے ویزہ نہیں دیا‘ تو مجھے اس کی کوئی پروا نہیں۔ اس کردار پر جب میں نے انہیں لاہور میں بشیر احمد بلور کے تعزیتی ریفرنس میں خراج تحسین پیش
کیا ‘ تو حاجی غلام احمد بلور نے میرا ماتھا چوما کہ پنجاب میں انہیں کس قدر محبت ملی ہے۔ حاجی صاحب کے لئے سب سے بڑا صدمہ چھوٹے بھائی بشیر بلور کی شہادت کا تھا۔ جنرل راحیل شریف کے دور میں جب جی ایچ کیو میں شہداء کے وارثوں کی تقریب ہوئی تو اس میں بشیر بلور مرحوم کے بیٹے ہارون بلور کو بلایاگیا انہیں باپ کا تمغہ شجاعت دیا گیا۔ ہارون بلور جو 2001ء میں برطانیہ سے بیرسٹر بن کر آئے تھے‘ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ہم پاک فوج کے شانہ بشانہ دہشت گردی کے خلاف چلیں گے‘ میں سمجھتا ہوں یہ بات پاک وطن کے دشمنوں کو ہضم نہیں ہوئی۔ ہارون بلور اب ہم میں نہیں رہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اور ان کے ساتھ شہید ہونے والوں کی شہادت قبول فرمائے۔ ہم نے ان کے پاس جانا ہے‘ وہ ہم میں نہیں آئیں گے۔
میرے حضورﷺ کے فرمان کے مطابق‘ اللہ تعالیٰ جب شہید کو عظیم نعمتوں‘ فردوس کے محلات اور اعلیٰ مقام سے نوازتے ہیں اور مزید کسی خواہش کا پوچھتے ہیں ‘تو شہید کہتا ہے اے مولا کریم! دنیا میں واپس جانا چاہتا ہوں‘ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے‘ میرا فیصلہ ہے کہ جو یہاں آ گیا واپس نہیں جائے گا۔ حضورﷺنے فرمایا: واپس آنے کی خواہش (کوئی دوسرا نیک اور صالح انسان نہیں کرے گا) صرف شہید ہی خواہش کرے گا اور وہ شہادت کے نتیجے میں ناقابل بیان نعمتوں کی وجہ سے کرے گا‘ جی ہاں! سراج رئیسانی اور ہارون بلور کو تمغہ ہائے شجاعت دنیا میں ملنے بھی چاہئیں اور ملیں گے بھی ( انشاء اللہ) مگر شہداء کا ہماری اس دنیا کی معمولی حکومتی چیزوں سے کیا تعلق۔ انہیں ساری کائنات کے خالق اور شہنشاہ نے قرب کا جو تمغہ عطا فرما دیا۔ سبحان اللہ! اس کی عظمت کا اندازہ نہ کسی دل کی سوچ میں آیا‘ نہ آنکھ نے دیکھا اور نہ کان نے سنا۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کو قرآن نے بیان کیا اور صاحبِ قرآن حضرت محمدﷺ نے بیان فرمایا۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بشیر بلور اور ہارون بلور کو وہ محل عطا فرمائے ‘جو ایک سفید موتی سے بغیر کسی جوڑ کے بنا ہو گا۔ اس کی بلندی 60میل‘ یعنی 90کلومیٹر ہو گی (بخاری)۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چوڑائی کتنی ہو گی؟ سراج‘ حقمل‘ بشیر‘ ہارون اور تمام شہداء کے لئے اپنے اللہ کے حضور ہماری یہی دعا ہے۔
ہارون بلور کیسا جری اور بہادر تھا کہ اس کا اندازہ تھا کہ میں جس جلسے میں جا رہا ہوں میرے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے باوجود وہاں پہنچا؛ البتہ مشفق باپ نے دانیال بیٹے کو وہاں آنے سے منع کیا… اور دانیال کیسا دلیر ہے کہ اس نے اپنے باپ کی اس ایمبولینس کے پاس کھڑے ہو کر جس میں ہارون بلور کی لاش تھی‘ حاضرین کو صبر کی تلقین کی اور بے صبری میں کوئی ایسا جملہ کہنے سے منع کیا کہ جس سے ملک دشمنوں کے ایجنڈے کو تقویت ملے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بشیر بلور‘ ہارون بلور دلیر اور بہادر تھے تو تیسری نسل کا سپوت دانیال بھی دلیر اور سمجھدار ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بیٹے کی حفاظت فرمائے۔ بشیر بلور کے دونوں بیٹے عثمان مرحوم اور ہارون شہید اب ان کے پاس ہیں۔ پوتا دانیال اب اپنے تایا جان غلام احمد بلور اور و الدہ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ٹھنڈک میں اضافہ فرمائے۔ اسے ایسا محفوظ رکھے کہ کسی ظالم کے ظلم کی ذرا سی گرم ہوا بھی‘ اس خاندان کو نہ لگے۔ حاجی غلام احمد بلور کی پچھلے دنوں اہلیہ بھی فوت ہو گئیں۔ ان کا بیٹا شبیر بلور بھی اس دنیا میں نہ رہا… آہ! یہ دنیا کس قدر عارضی اور آزمائشوں کی جگہ ہے۔ اس جماعت کے ایک اور رواح رواں میاں افتخار حسین کا اکلوتا بیٹا بھی دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوا ہے۔ میں نے ایک بات نوٹ کی ہے کہ ان تمام لوگوں نے کمال صبر اور حوصلے کا اظہار کیا ہے۔ ایمان کی نعمت کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ کیا اب وہ وقت نہیں آ گیا کہ تمام سیاستدان سیاست کرتے ہوئے سراج رئیسانی اور غلام احمد بلور کے سیاسی خاندانوں کے حوصلوں سے سبق حاصل کریں اور زبانوں کے تندوتیز تیرونشتر چلانے کی بجائے اعلیٰ اخلاقی زبان استعمال کریں۔ گالیوں کا چلن تو بالکل نہیں ہونا چاہئے۔ کیا پتہ کون اس دنیا سے کب اٹھ جائے‘ پھر دل ملال میں رہے کہ میں نے اپنے بھائی کے لئے دل دکھا دینے والا جملہ کیوں بولا؟ یااللہ! ہمیں ایسا دل عطا فرما کہ جو ملال کی دولت و مال سے مالا مال ہو۔ 25جولائی کو ہمارا ایسا ہی کردار سامنے آئے اور ا س کے بعد والا پاکستان ایک خوبصورت اور خوشحال پاکستان ہو۔ لاالہ الا اللہ کے نظریے والا وہ پاکستان کہ جس کے لئے پشاور‘ مستونگ اور بنوں کے شہداء نے اپنا خون دیا ہے۔ (آمین)