درد کا رشتہ…رؤف طاہر
کیا نواز شریف کو وہ مکالمہ یاد آ گیا تھا جس میں بادشاہ نے درویش سے کہا: کوئی ایسی بات بتائو کہ میں مسرت کے بے کنار احساس میں آپے سے باہر نہ ہو جائوں اور غم کا کوئی احساس مجھے مایوس اور نڈھال نہ کر دے۔ ظفر نے بھی اس سے ملتی جلتی کیفیت کی عکاسی کی تھی، ”جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی، جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا‘‘۔
درویش کا جواب تھا: بس ایک بات یاد کر لیا کریں کہ یہ دن بھی گزر جائیں گے… اور قرآن کے الفاظ میں (ترجمہ): یہ وہ ایام ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔
سوموار کی سہ پہر پیرول پر رہائی کی 6 روزہ مدت ختم ہو رہی تھی اور میاں صاحب نے چھوٹے بھائی کو توسیع کی درخواست دینے سے منع کر دیا تھا۔ 11 ستمبر کی شب بھی یہ درخواست شہباز صاحب کی طرف سے تھی، تب بھی ان کے اصرار کے باوجود وہ اپنی طرف سے درخواست دینے پر آمادہ نہ ہوئے تھے۔ قیدیوں کی واپسی کا وقت آن پہنچا تھا۔ روانگی سے پہلے انہوں نے بڑے میاں صاحب، چھوٹے بھائی عباس شریف اور بیگم صاحبہ کی قبروں پر پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی۔ اس نئی قبر کی مٹی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی۔ گھر سے باہر جاتے ہوئے والدہ صاحبہ کی خدمت میں حاضری اور ان کی دعائوں کے ساتھ روانگی برسوں سے فرماں بردار بیٹے کا معمول رہا ہے اور اب تو زنداں کی طرف کُوچ تھا، بیٹے نے خود کو سنبھالا اور ماں کو تسلی دی، آپ پریشان نہ ہوں، یہ مشکل دن ان شاء اللہ جلد گزر جائیں گے۔ ماں نے بیٹے کا حوصلہ بڑھایا، تم نے بھی ہمت نہیں ہارنی، یہ اللہ کی طرف سے آزمائش ہے، ان شاء اللہ جلد ختم ہو جائے گی۔
جدہ کے سرور پیلس میں کبھی 12 اکتوبر 1999ء کا ذکر ہوتا تو میاں صاحب بتایا کرتے: کال کوٹھڑی کی قید تنہائی میں، کافی دن بیت چکے تھے کہ ایک دن ایک افسر نے دروازہ کھول کر موبائل فون تھمایا، یہ آپ کی کال ہے۔ یہ کئی روز کے بعد بیرونی دنیا سے ان کا پہلا رابطہ تھا۔ دوسری طرف بڑے میاں صاحب تھے، علیک سلیک کے بعد ایک ہی جملہ ہوا تھا کہ کال کٹ گئی، نواز! ہمت نہیں ہارنی، ہم ان شاء اللہ مقابلہ کریں گے۔ شامی صاحب بتایا کرتے ہیں: جاتی امرا سخت سکیورٹی کے حصار میں تھا، مکینوں سے ملاقات آسان نہ تھی کہ ایک دن وہ جامعہ اشرفیہ کے مولانا عبدالرحمن اشرفی (مرحوم) کے ساتھ بڑے میاں صاحب سے ملاقات کے لیے پہنچ گئے، بد ترین حالات میں بھی وہ حوصلے میں تھے۔ فرمایا: جب انعامات بڑے ہوتے ہیں، تو آزمائشیں بھی بڑی ہوتی ہیں۔
اڈیالہ کے قیدی پھر پسِ دیوارِ زنداں ہیں۔ جمعہ کی شام ایک بار پھر اس نے ایک دنیا کو حیران کر دیا تھا، جیون بھر کی ساتھی کا سفرِ آخرت۔ وہ اپنی زندگی میں کئی صدموں سے دوچار ہوا (اور ان میں بیشتر صدمے سیاست کی دین تھے) گزشتہ ڈیڑھ سال میں تو شاید ہی کوئی دن تھا‘ جب اسے سکون کا سانس نصیب ہوا ہو لیکن گیارہ ستمبر کا صدمہ اس کی زندگی کا سنگین ترین صدمہ تھا۔ چودہ ستمبر کو آخری دیدار، نماز جنازہ اور پھر سپردِ خاک کرنے کے مراحل۔ ”جنازہ گاہ‘‘ تک گاڑی خود ڈرائیو کرنا مولانا طارق جمیل کی تکریم کا معاملہ بھی ہو گا‘ لیکن اس امر کا اظہار بھی تھا کہ اس کے اعصاب ٹوٹے نہیں۔
شریف میڈیکل کمپلیکس کے سبزہ زار انسانوں کے جمِ غفیر سے بھر گئے تھے۔ ان میں زیادہ تر غریب اور متوسط طبقے کے لوگ تھے جنہیں کوئی لایا نہیں تھا، وہ خود آئے تھے، کسی غرض، کسی لالچ کے بغیر۔
ان میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان والے بھی تھے۔ شریف میڈیکل سٹی کے باہر دور دور تک گاڑیوں کی لمبی قطاریں تھیں جنہیں چیونٹی کی چال چلنا بھی دشوار تھا۔ بہت سوں نے گاڑیاں ڈرائیوروں کے سپرد کیں یا سڑک کنارے کھڑی کر دیں اور پیدل مارچ شروع کر دیا۔ بعض کو موٹر سائیکلوں پر لفٹ مل گئی۔ ان میں اپنے شامی صاحب بھی تھے۔ جو جنازہ گاہ تک نہ پہنچ سکے، انہوں نے جہاں کھڑے تھے، وہیں دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے۔
جنازہ گاہ کے اندر بے کراں ہجوم کے باعث جملہ انتظامات درہم برہم ہو گئے تھے۔ میاں صاحب کی گاڑی اور ایمبولینس کے لئے بھی جنازے کی جگہ تک پہنچنا دشوار ہو رہا تھا۔ وہ جو کہتے ہیں، تل دھرنے کو جگہ نہ رہی تھی؛ چنانچہ نمازِ جنازہ کے وقت میت ایمبولینس ہی میں رہی۔ دکھ کی اس گھڑی میں پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کی شرکت ہماری اسلامی روایات اور مشرقی اقدار کا بھرپور اظہار تھا۔ تیسرے دن چودھری شجاعت اپنے صاحبزادوں کے ساتھ دوبارہ تشریف لائے (جنازے میں پرویز الٰہی بھی تھے) میاں صاحب کے ساتھ چودھری برادران کی سیاسی رفاقت برسوں پر محیط رہی تھی۔ جدہ میں جلا وطنی کی ایک شام ہم نے میاں صاحب سے پوچھا: اپنے دوستوں میں سے کس کا ساتھ چھوڑ جانا آپ کے لیے سب سے زیادہ دکھ کا باعث تھا۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد جواب دیا: چودھری شجاعت صاحب کا۔ میاں صاحب جدہ سے لَوٹے تو ”صبح کے بھولے‘‘ بھی پرانے آشیانے کا رخ کرنے لگے۔ گجرات کے چودھری برادران کی راہ میں کیا رکاوٹیں حائل ہوئیں، وہ ایک الگ کہانی ہے، تاہم چودھری شجاعت حسین کی والدہ محترمہ کے انتقال کی خبر پر سب سے پہلے پہنچنے والوں میں نواز شریف اور شہباز شریف بھی تھے۔ خورشید شاہ صاحب کی زیرِ قیادت پیپلز پارٹی کا اعلیٰ سطحی وفد جنازے میں شریک ہو چکا تھا۔ اتوار کو آصف زرداری اور بلاول بھی آئے۔
27 ستمبر 2007ء کو میاں صاحب بھی راولپنڈی میں تھے۔ اس روز ان کے استقبالی ہجوم پر فائرنگ میں چار کارکن جاں بحق ہو گئے تھے۔ شام کو بے نظیر صاحبہ کے زخمی ہو جانے کی اطلاع پر انہوں نے ہسپتال کا رخ کیا۔ محترمہ کے دم توڑ جانے کی خبر انہیں راستے میں ملی۔ سکیورٹی خطرات کے پیشِ نظر واپسی کا مشورہ انہوں نے مسترد کر دیا اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں سے پہلے ہسپتال پہنچ گئے۔ اپنی آنکھوں میں آنسوئوں کے ساتھ وہ غم میں ڈوبے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ میاں صاحب محترمہ کے جنازے میں بھی شریک ہونا چاہتے تھے‘ لیکن زرداری صاحب نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر منع کر دیا۔ تدفین کے اگلے روز میاں صاحب قرآن خوانی میں موجود تھے۔ ”کپتان‘‘ کے ساتھ ایک دور میں میاں صاحب کی گہری دوستی تھی اور جم خانہ میں کرکٹ کی رفاقت بھی۔ پھر وہ سیاست میں باہم حریف ہو گئے۔ 2013ء کی انتخابی مہم کے آخری دو تین دن تھے جب کپتان زخمی ہو گئے۔ میاں صاحب نے اسی شام شہباز صاحب کو عیادت کے لیے ہسپتال بھیجا اور اگلے روز ملک بھر میں مسلم لیگ کی انتخابی مہم ملتوی رکھنے کا اعلان کر دیا۔ الیکشن کے بعد وہ ہسپتال پہنچے۔ دیر تک کپتان کے ساتھ رہے اور یہ کہتے ہوئے رخصت ہوئے کہ جلدی سے ٹھیک ہو جائو‘ پھر ہم فرینڈلی میچ کھیلیں گے۔ الیکشن کے بعد (مارچ 2014ء میں) وہ کپتان کی دعوت پر بنی گالہ گئے اس موقع پر پُرتکلف عصرانے میں بے تکلف گفتگو رہی۔ کپتان اب وزیر اعظم ہیں، انہوں نے اپنی پارٹی کا ایک اعلیٰ سطحی وفد جنازے میں شرکت کے لیے بھیجا، اپنی طرف سے تعزیتی بیان بھی جاری کیا۔ وہ خود بھی جاتی امرا جانے کے لیے وقت نکال پاتے یا فون پر ہی اظہارِ تعزیت کر لیتے تو سیاسی رواداری اور شائستگی کی فضا پروان چڑھتی۔ یاد آیا، میاں عباس شریف کے انتقال پر انہوں نے جاتی امرا آ کر تعزیت کی تھی اور جلا وطنی کے دنوں میں شہباز شریف کا شکریہ ادا کرنے سرور پیلس بھی آئے تھے‘ جنہوں نے شوکت خانم کے لیے 30 لاکھ روپے ارسال کئے تھے۔
بیگم صاحبہ کے لیے تعزیتی تحریروں میں ڈکٹیٹرشپ کے خلاف جمہوری جدوجہد کے حوالے سے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح، بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو صاحبہ کا بھی ذکر ہوا لیکن بیشتر لکھنے والوں کا دھیان بیگم نسیم ولی خان کی طرف نہ گیا جو بھٹو صاحب کے دور میں، نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی اور ولی خاں سمیت نیب کے قائدین پر غداری اور بغاوت کے الزام میں مقدمات اور گرفتاریوں کے خلاف، میدان میں نکلیں اور سردار شیر باز خان مزاری کے ساتھ، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی) کی بنیاد رکھی۔ بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی انتخابی مہم اور اس کے بعد احتجاجی تحریک میں بھی وہ ایئر مارشل اصغر خان کے بعد مقبول ترین رہنما تھیں۔ ایک آمریت سیاسی بھی تو ہوتی ہے۔