دریائے دجلہ کے کنارے بھوکا کتا….حسن نثار
میرے گزشتہ کالم کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو اسحاق ڈار نے ملکی معیشت کے ساتھ کیا لیکن کوئی گلہ، شکوہ، شکایت، احتجاج ہرگز نہیں کیونکہ جو اونچ نیچ ہوئی وہ یقیناً سہواً ہوئی۔ میرا کالم الٹ پلٹ کے بغیر ترتیب سے بھی چھپ جاتا تو کون سی توپ چل جاتی؟ جبکہ اسحاق ڈار کی حرکت ایسی ہے جس کی قیمت ہمیں دیر تک چکانی پڑے گی اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ڈار نے یہ سب کچھ سوچ سمجھ کر کیا۔ یہ وضاحت بھی صرف اس لئے پیش کر رہا ہوں کہ جن قارئین نے بے ربطگی سی محسوس کی ہو، ان کا کنفیوژن دور ہو جائے۔اس وقت ’’ووٹ کو عزت‘‘ دینے کے بعد ٹی وی کے سامنے بیٹھا ہوں۔ تقریباً 12بجے کا وقت ہے (سارا زور 12بجنے پر ہے) مختلف ٹی وی چینلز کے درمیان شٹل کر رہا ہوں اور ساتھ ساتھ اخبارات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بھی جاری ہے۔اہم ترین خبر جس کی تائید یا تردید آج رات تک ہو جائے گی، یہ ہے کہ بین الاقوامی میڈیا نے عمران خان کی فتح کے بار ےمیں پیش گوئی کردی ہے ’’گلف نیوز‘‘ نے بھی یہ اعتراف کرلیا ہے کہ عمران خان عوامی مقبولیت میں نواز شریف کو پیچھے چھوڑ چکا۔ قابل غور اور دلچسپ ترین ردعمل بھارتی میڈیا کا ہے جو عمران کی جیت کو اپنی شکست سمجھتے ہوئے آنے والے دنوں میں اپنے لئے ’’مشکلات‘‘ دیکھ رہا ہے تو شاید بھارتی میڈیا کا یہ واویلا بے جا بھی نہیں کیونکہ سوداگر نواز
شریف اور فائٹر عمران خان میں فرق صاف ظاہر ہے۔محاورتاً کہتے ہیں کہ اقتدار پھولوں کی سیج نہیں، کانٹوں کا تاج ہوتا ہے۔ عام حالات میں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن پاکستان کے موجودہ حالات میں آنکھیں بند کرکےیہ بات پورے یقین سے کہیجاسکتی ہے کہ ہمارے ہاں اقتدار پھولوں کی نہیں انگاروں کی سیج ہے۔ رہ گیاتاج تو وہ زہریلے کانٹوں کا ہے۔ ملک خوشحال بھی ہوں تو غیرت مندوں کے لئے ان کااقتدار تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہوتا ہے۔ چار سال کی ایک ٹرم براک اوباما جیسوں کے بال سفید کردیتی ہے لیکن موٹی کھالوں، موٹے دماغوں والوں کے لئے ملک کمیشن، کک بیک، میرٹ کی پامالی، اداروں کی تباہی،مکمل من مانی اور ولگر پروٹوکول کے سوا کچھ بھی نہیں۔عمران اقتدار میں آئے تو اس کے لئے زندگی کا سب سے بڑا چیلنج اور امتحان ہوگا۔ ورلڈ کپ سے لے کر کینسر ہسپتالوںاور نمل یونیورسٹی تک شاید قدرت اسے اسی وقت کے لئے تیار کر رہی تھی۔پہلے پانچ سال پیپلزپارٹی اور دوسرے پانچ سال ن لیگ جمہوریت کے ساتھ جو نمک حرامی کرگئی، اس کے بعد والا پاکستان ہمارے سامنے ہے کہ نہ باگیں ہاتھ میں ہیں نہ پائوں رکاب میں….. چلا جارہا ہے خداکے سہارے لیکن پھر وہی بات کہ بڑا بحران ہی بڑا بندہ پیدا کرتا ہے۔جو بھی آیا اس کے پاس ہنی مون کا تو ایک لمحہ بھی نہیں ہوگا۔ وہ کچھ ’’پروڈیوس‘‘ کرنے کے بعد ہی ہنی مون کا حق دار ہوگا اور ’’پروڈیوس‘‘ کرنے کے لئے دن رات کے 24گھنٹوں میں 26گھنٹے کام کرنا ہوگا اور یہ سٹیمنا کس کے پاس ہے؟چین نے بھی تمام تر احتیاط کے ساتھ الیکشن کے نتائج کا یہ کہتے ہوئے اعلان کردیا ہے کہ وہ پاکستان کی ’’نئی حکومت‘‘ کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے۔ چین کی وزارت ِ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’’دوطرفہ گہری مضبوط دوستی کااعادہ کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ مل کر ترقی اور خوشحالی کے مشترکہ اہداف حاصل کریں گے۔‘‘سلیس ترجمہ اور خلاصہ اس بیان کا بھی یہی ہے کہ چینی دانش پرانی حکومت کی کنٹی نیوٹی کی بجائے کسی ’’نئی حکومت‘‘ کی آمد دیکھ رہی ہے۔ دعا ہے کہ یہ نئی حکومت نئے پاکستان کی بنیاد رکھ سکے۔ اک ایسے پاکستان کی بنیاد جس کے لئے آج کے بیشتر پاکستانیوں کے بزرگوں نے لازوال قربانیاں پیش کی تھیں۔آج 25جولائی دو بجے دوپہر سےپہلے پہلے شدید دبائو میں لکھا گیا یہ کالم فیکس کردیا جائے گا۔ انتخابی جنگ کا نتیجہ رات گئے سامنے آئے گا اور میر ےپاس وہ وژن نہیں جو دوٹوک انداز میں کوئی پیش گوئی کرسکے۔دعا ضرور کرسکتا ہوں اوردعا یہ ہے۔اے رب کعبہ!اے شاہ ِ مدینہ!پاکستان کووہ حکمران عطا فرما جس کے لاشعور میں فاروق اعظم ؓکا وہ فقرہ ہمیشہ گونجتا ہو کہ دجلہ کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکارہ گیا تو وہ جوابدہ ہوگا۔