دستِ دعا رہ جائے گا…ہارون الرشید
ایک واضح حکمت عملی کے بغیر، یکسوئی کے بغیر ایک گھر، ایک چھوٹا سا کاروباری ادارہ بھی ڈھنگ سے چلایا نہیں جا سکتا۔ چہ جائیکہ بائیس کروڑ کا ملک، تہہ در تہہ بحران جسے در پیش ہیں۔
تماشا کہ اے محوِ آئینہ داری
تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں
انکشاف ایسا تھا کہ دل دکھ سے بھر گیا۔ یا رب ہم نے اپنے ساتھ کیا کیا؟ ایک چھوٹے سے کام کے لیے، وزارتِ صنعت جانا پڑا۔ پُر جوش اور سخت جان میاں اسلم اقبال، جہاں صنعت کاری کے منصوبوں میں جتے ہیں۔ ایک سابق افسر نے لرزا کے رکھ دیا ۔ بتایا کہ کینیا سمیت افریقی ممالک میں سیالکوٹ کے بنے آلات جرّاحی چار پانچ گنا قیمت پہ بکتے ہیں۔ برطانوی کمپنیاں خریدتی اور اپنی مہر لگا کر بیچتی ہیں۔ پاکستانی ٹریکٹر 25 لاکھ روپے میں فراہم ہو سکتا ہے، مگر وہ برازیل سے 50 لاکھ روپے میں درآمد کرتے ہیں۔
کیا ہماری حکومت نہیں جانتی اور کیا وہ کوئی حل تلاش نہیں کر سکتی؟ مرکز کا حال تو معلوم نہیں، شہباز شریف کے پورے عہد میں پنجاب کا سرمایہ کاری بورڈ وزیر اعلیٰ کے لیے تقریبات کے اہتمام میں لگا رہا۔ شامیانہ کیسا ہو گا۔ خنک ہوا کا بندوبست کیسے ہو گا؟ شاندار سٹیج کا اہتمام کیونکر ہو گا۔
میاں اسلم اقبال سے قبل چوہدری شفیق صنعت کے صوبائی وزیر تھے۔ ایک اور افسر نے بتایا کہ ان کے عہد میں سات سیکرٹری بدلے گئے۔ ہر بار ٹیلی ویژن سے انہیں خبر ملی۔ چوہدری صاحب اسم با مسمیٰ ہیں، مہربان اور مشفق آدمی۔ ایک بار شہباز شریف جب ان پہ بگڑے تو زچ ہو کر انہوں نے کہا: کوئی کام بھی تو کرنے دے۔ جس کسی کو آمادہ کرتا ہوں پہاڑ سی رکاوٹیں اس کی راہ میں کھڑی کر دی جاتی ہیں۔
ترک اور چینی کمپنیوں کے سوا، خادمِ اعلیٰ کسی کا نام سننے کے روادار نہ تھے۔ ایک افسر نے بتایا : بہت مشکل سے ایک یورپی ملک کے صنعت کار کو وزیر اعلیٰ سے ملاقات کے لیے آمادہ کیا۔ دنیا کے سات ممتاز ترین گروپوں میں سے ایک کا سربراہ ، جس کا حجم 50 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ دنیا بھر کے صدور اور وزرائے اعظم، جن کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ آخری وقت پہ خادم اعلیٰ نے یہ ملاقات منسوخ کر دی۔ فرمایا: مغربی اداروں سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ کوئی ترک یا چینی کمپنی پکڑ کے لائو ۔ جن با رسوخ لوگوں سے التماس کر کے بندوبست ہوا تھا، وہ ششدر رہ گئے۔ ان میں سے ایک نے کہا : آپ کو اندازہ ہے کہ آپ نے کیا حرکت کی؟
ترک اور چینی کمپنیوں سے دلچسپی کی وجوہات واضح ہیں۔ عالمی کاروباری منظر پر یہ نئے ادارے ہیں، لین دین میں جو ہر طرح کے حربے روا رکھتے ہیں۔ ان میں سے بعض کو شریف شہزادوں کے حوالے کر دیا جاتا۔ بڑھتے بڑھتے بعض چینی منصوبوں کے اخراجات کئی گنا ہو گئے۔ آج اسی کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ شاعر نے کہا تھا:
بڑھتے بڑھتے حد سے اپنی بڑھ چلا دستِ ہوس
گھٹتے گھٹتے ایک دن دستِ دعا رہ جائے گا
جاتی امرا میں اب آیت کریمہ کا ورد جاری ہے ۔ شہباز شریف کی گرفتاری پہ صدمے کا شکار ایک ممتاز مدیر پرسوں شام فریاد کرتے رہے۔ فرمایا کہ موصوف کی امانت و دیانت شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ اسحق ڈار نے منصب سنبھالا تو ان صاحب نے آنجناب کو زاہد و متقی وزیر خزانہ قرار دیا تھا۔ بر سبیل تذکرہ ، اسحق ڈار نالائق نہ تھے۔ اسد عمر کے مقابلے میں زیادہ سرعت سے فیصلے کیا کرتے ۔ لیکن ہر حال میں انہیں شریف خاندان کی ترجیحات کا لحاظ رکھنا ہوتا۔ مثلاً زر مبادلہ کے لیے مہنگے قرضے۔ ترک اور چینی کمپنیاں بھی اسی لئے مسلّط ہوتی گئیں۔ سودے بازی میں کبھی دشواری نہ ہوتی۔فارسی کا محاورہ یہ ہے: چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد ۔ کیسا دلاور نقب زن ہے کہ ہاتھ میں چراغ لے کے آیا ہے۔ والد گرامی کی گرفتاری کے بعد حمزہ شہباز شریف نے ارشاد کیا کہ احتساب بیورو نے ہماری پاک دامنی پہ مہر لگائی تھی۔ اسی طرح کے کمزور یادداشت کے معاشرے کنفیوژن کے بھنور میں ڈالے جاتے ہیں ۔ سب جانتے ہیں کہ شریف خاندان احتساب بیورو سے سودے بازی کر کے، جدّہ پہنچا تھا۔ جرمانے کے چیک خود حمزہ شہباز نے حکومت کے حوالے کیے تھے۔ اب وہ معصوم ہیں اور ان کا دامن، دامنِ مریم ہے۔ اس پہ محترمہ مریم نواز کا وہ قول یاد آیا: میری تو پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں‘ معلوم نہیں آپ لوگوں نے لندن میں کہاں سے تلاش کر لی۔
لیگی اخبار نویسوں کے مطابق آشیانہ ہائوسنگ کے باب میں شہباز شریف بھی معصوم ہیں۔ ارسطو احسن اقبال اور با وفا رانا ثناء اللہ سمیت نون لیگی رہنمائوں کا استدلال یہ ہے کہ سرکاری خزانے سے کوئی رقم خرچ نہ ہوئی۔ بد دیانتی کا سوال ہی کیا ہے۔ ان کا مؤقف مان لیا جائے تو اس خاندان کے سب لوگ فرشتے ہیں۔
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
ارے بھائی، ارے بھائی، پیراگون سوسائٹی سے ملحق 3100 کنال سرکاری زمین جعل سازوں کے حوالے کی گئی۔ اس کی موجودہ مالیت دس ارب روپے سے کم نہ ہو گی۔ طے یہ پایا تھا کہ ساٹھ فیصد زمین پر ساڑھے چھ ہزار فلیٹ تعمیر کیے جائیں گے۔ اس پر کوئی منافع تعمیر کنندہ حاصل نہ کرے گا۔ باقی چالیس فیصد اراضی اس کے حوالے کر دی جائے گی۔ سڑک کے علاوہ پانی اور بجلی کی فراہمی سے، زمین کی قیمت چار سے آٹھ گنا تک بڑھ جاتی ہے۔ اگر دھاندلی نہیں تو احد چیمہ گرفتار کیوں ہیں؟ وعدہ معاف گواہ بننے پر آمادہ کیوں ہیں؟ ان کی رہائی کے لیے شریف خاندان نے کوئی مہم کیوں نہ برپا کی؟ شہباز شریف سے یہ کیوں کہا: میں نے وہی کچھ کیا، جس کا آپ مجھے حکم دیتے رہے۔ اربوں کا لین دین تھا۔ ٹھیکے دیئے اور منسوخ کیے جاتے رہے۔ آخر کیوں؟ شریف خاندان کیلئے موقع ہے کہ وہ ایک دستاویز مرتب کرے اور میڈیا کے حوالے کر دے۔ دودھ کا دودھ ، پانی کا پانی ہو جائے گا۔ تحریک انصاف کی حکومت ظلم کی مرتکب ہے تو اسے کہیں پناہ میسر نہ آئے گی۔اللہ کے آخری رسولﷺ کا فرمان ہے‘ برباد ہوئیں وہ قومیں اپنے طاقتوروں کو جو سزا نہ دیتی تھیں؛ چنانچہ احتساب بجا۔ بجا ہی نہیں لازم۔ کاروبار حکومت کی لیکن اور نزاکتیں بھی ہوتی ہیں۔ غیر معمولی اقدامات کرنے والوں کو… اور شہباز شریف کی گرفتاری، بہت غیر معمولی واقعہ ہے… بڑی تصویر دیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
قومی معیشت بحران میں ہے۔ گزشتہ چھ ہفتوں کے دوران بازار حصص 25 فیصد گر چکا۔ اتنا ہی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اپنی ترجیحات میں بالکل واضح نہیں۔ دیرپا منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ فوری اقدامات بھی لازم ہیں۔ مثلاً چھ ارب ڈالر کی اشیائے خور و نوش ہر سال درآمد کی جاتی ہیں۔ یہ خود کشی کے مترادف ہے، کہ ملک زر مبادلہ کے بد ترین بحران میں ہے۔ قیمتی گاڑیوں اور اشیائے تعیش کی درآمدات بھی محدود ہونی چاہئیں۔ برآمد کنندگان کی حوصلہ افزائی کے لیے زرِ اعانت میں اضافے کا اسد عمر نے اشارہ دیا لیکن کوئی چیز واضح نہیں۔ چین کے ساتھ باہمی لین دین میں تجارتی خسارہ دس ارب ڈالر ہو چکا۔ چینی اشیاء کی درآمد پر کم ہی کوئی ڈیوٹی نافذ ہے۔ چینی حکومت سے کہا جائے تو پاکستانی اشیاء پر عائد ڈیوٹی واپس لے سکتی ہے۔ ان اقدامات سے شاید تین چار ارب ڈالر کی بچت ممکن ہو۔ ٹیکسٹائل کا شعبہ سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہے۔ اس کے لگ بھگ ڈیڑھ سو ارب روپے ایف بی آر کے پاس پڑے ہیں۔ یہ روپیہ واپس کرنا ہو گا۔ اس کے بغیر یہ صنعت اپنے قدموں پہ کھڑی نہ ہو گی۔
ایک واضح حکمت عملی کے بغیر، یکسوئی کے بغیر ایک گھر، ایک چھوٹا سا کاروباری ادارہ بھی ڈھنگ سے چلایا نہیں جا سکتا۔ چہ جائیکہ بائیس کروڑ کا ملک، تہہ در تہہ بحران جسے در پیش ہیں۔
تماشا کہ اے محوِ آئینہ داری
تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں
پسِ تحریر: وزیر اعظم کی خواہش کے برعکس شفقت محمود نے ذوالفقار چیمہ کا استعفیٰ قبول کر لیا۔ کشتیاں ڈبونے والے اسی طرح کے ہوتے ہیں۔ ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو۔