دست تہِ سنگ…..ہارون الرشید
کیا میںجناب ظفر اقبال کی خدمت میں حاضری دوں۔ ان سے گزارش کروں کہ ازراہ کرم میرے ساتھ ، کالم کے عنوان کا تبادلہ کر لیں؟ میں ” دال دلیا‘‘ کے عنوان سے لکھا کروں ۔وہ اگر ”دال دلیا ‘‘گوارا کرسکتے ہیں تو ” ناتمام ‘‘ کیوں نہیں ؟ آخر یہ نادرِ روزگار اقبال ؔ سے ماخوذ ہے ۔
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکوں
فجر کی اذان ہوگئی۔ صبح کاذب کے بطن سے صبحِ صادق کا نور پھوٹنے لگا ،دور دورتک مگر نیند کا نام نہ تھا، نشان تک نہیں تھا ۔اس نتیجے پر پہنچا کہ کالم آرائی اب میرے بس کی بات نہیںرہی ۔
دو موضوعات تھے ۔ دونوں پرایک ذرا سی یکسوئی بھی نصیب نہ ہو سکی ۔ فقیہ عصرِ، حضرت مولانا جسٹس شوکت عزیز صدیقی مدظلہ العالی کے ارشادات اور حنیف عباسی کا مقدمہ ۔وہ جو غالب ؔنے کہا تھا ۔
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خون ِ جگر ہونے تک
پانچ چھ گھنٹے تک سوچتا رہا ۔ جغادری اخبار نویسوں کے علاوہ ،سوشل میڈیا پر شائع ہونے والے تقریباً تمام تبصرے پڑھے ۔ پھرخیال ہوا کہ اس موضوع کو نظر انداز کرنا چاہئے۔ اس لئے کہ عباسی نے ایک نہیں تین بار گالم گلوچ کی۔ دو بار ٹیلی ویژن اور ایک مرتبہ ، خاص طور پر فلم بنا کر ، سوشل میڈیا پر ۔ میری رائے کو اغلباًایک متاثرہ فریق کی رائے سمجھا جائے گا۔ کئی برس ہوتے ہیں نون لیگ کا ایک رکنِ اسمبلی 30 لاکھ ہڑپ کر گیا تھا۔ اربوں روپے کے فراڈ میں آخر کارپکڑا گیااور جیل پہنچا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس پر لکھنے سے گریز کیا۔ ایک بار ارشد شریف کے اصرار پر بات کی تو مجبوراً ایک آدھ جملے میں ۔ یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ذاتی معاملے پہ اظہار خیال روا نہیں۔ عباسی کے معاملے میں بھی یہی کرنا چاہئے۔ مگر ایک اخبار نویس کی ذمہ داری ؟
مجبوری و دعوائے گرفتاریٔ الفت
دستِ تہِ سنگ آمدہ پیمانِ وفا ہے
پہلی بار جب یہ انکشاف ہوا تو کہانی کو کریدا تھا اور بہت دن تک ۔ رتّی برابر شبہ نہیں کہ وہ قصور وار ہے۔ دنیا کا کوئی انصاف پسند اس آدمی کو بری نہیں کرسکتا۔ پرلے درجے کے متعصب لوگ ہی اس کے حق میں گواہی دے سکتے ہیں۔ سچائی کی تمنا نہیں ،مقبولیت کی آرزو میں جو دیوانے ہوںیا اپنے تعصبات کو آسودہ کرنے پر تلے ہوئے …ہاں !مگر فیصلے کا وقت ؟
برسوں پہلے اس مقدمے کا فیصلہ ہو جانا چاہئے تھا۔ اپنے سر پرستوںاور اپنے سرمائے کی مدد سے عباسی نے کمال کر دکھایا۔نہ صرف ضمانت کرالی بلکہ اس عہد میں عدالتیں نون لیگ پہ جب مہربان نہیں، مدتوں معاملے کو لٹکاتا رہا۔ اس سے بھی بڑا کارنامہ اس کا یہ تاثر پیدا کردینا ہے کہ تاخیر کا سبب وہ نہیں ، دوسرے ہیں۔
اگلے روز وزارت ِعظمیٰ کے لئے مخدوم شہاب الدین کو کاغذات نامزدگی داخل کرنا تھے، جس شام انہیں انسدادِ منشیات فورس کے بریگیڈیئر فہیم نے گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ وہ بھاگ نکلے۔ زرداری صاحب کے 60 ملین ڈالر والے قصے میں، سپریم کورٹ کی حکم عدولی پر، یوسف رضا گیلانی برطرف ہوئے تو مخدوم صاحب وزیراعظم نامزد ہوئے ۔ اسی شام بریگیڈیئر فہیم ان پر جا پڑے ۔
زرداری صاحب کے کارناموں کے طفیل کیا یہ عسکری قیادت کے ایما پر ہوا ؟ لیکن پھر بریگیڈیئر فہیم کا تبادلہ کیوں ہوا ؟ اس طرح وہ غائب ہوئے کہ نام و نشان ہی نہ چھوڑا۔ اندازہ ہوا کہ زیرِ عتاب آئے ہیں۔ مگر کیوں ؟ اس نے تو اپنی ذمہ داری نبھائی تھی، اپنا فرض پورا کیا تھا ۔
چند روز بعد ، جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات ہوئی۔ جنرل سے بے شمار ملاقاتیں ہوئیں، اکثر چار پانچ گھنٹے پر مشتمل ۔ اس کے باوجود ان سے بات کرنا کبھی سہل نہ تھا۔ ایسے جُزرس خزانچی کی طرح جو ایک ایک روپیہ گن کر صرف کرتا ہو، ایک ایک لفظ وہ سوچ سمجھ کر بولتے ہیں۔ اگرچہ اظہار کم کرتے مگر ناروا سوال پہ ناخوش ہوتے ۔ کسی کے معاملے میں دخل نہیں دیتے۔ اسی کی توقع دوسروں سے بھی رکھتے ہیں۔
2014 ء میں بلال الرشید نے ان سے پوچھا : وہ پانچ آدمی کون ہیں، عمران خان کے دھرنے کی جو پشت پناہی فرما رہے ہیں۔ مسکرائے اور بولے : اچھا تو اخبار نویسی ؟ اس کام کے لئے آپ کے والد صاحب کافی ہیں۔ اس جملے کا مفہوم دراصل یہ تھا : صاحبزادے ، تمہارے باپ نے کیا کم پریشان کیا ہے کہ آپ بھی اس کار خیر پہ تلے ہوئے ہیں؟کہا :ہر موبائل پہ یہ سب نام موجود ہیں ، مجھی سے کیوں پوچھتے ہو ؟
مگراب اخبار نویس کیا کرتا ؟ صاف صاف پوچھ لیا : بریگیڈیئر فہیم کا تبادلہ کیوں ہوا ؟ جنرل کے چہرے پہ ناگواری تھی، جب اس نے کہا : عجیب آدمی ہے، اپنے باس تک کو اعتماد میں نہ لیا ۔وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار کو گرفتار کرنے کے لئے بھاگ اٹھا۔ تاثر یہ ہوا کہ میں اس کا ذمہ دار ہوں ۔ بریگیڈیئر کے لئے لفظ ” غیر ذمہ دار ‘‘ انہوں نے استعمال نہ کیا۔ جنرل اپنے ماتحتوں اور زیر دستوںپہ عمر بھر مہربان رہا۔ ان کے ڈرائیور سے پوچھا گیا : تمہارے صاحب کو کبھی غصہ بھی آتا ہے؟ بولا: کیوں نہیں۔ ایک دن ناراض ہوئے۔ اتنے ناراض کہ گاڑی کی چابی لی اور خود چلاتے ہوئے دفتر چلے گئے ۔
کھل کر جنرل صاحب بات نہ کرنا چاہتے تھے لیکن میں مصر رہا، ناتراشیدگی اور ناشائستگی کے ساتھ ،موقعہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش جو چیف آف آرمی سٹاف نے ایک عام سے اخبار نویس کو دے رکھا تھا۔ اس کے باوجود کہ بار بار وہ حماقت کا مرتکب ہوا۔
کچھ دیر وہ سوچتے رہے، پھر کہا : فکر نہ کیجئے ، اتنے ہی دیانت دار اور فرض شناس افسر کو یہ ذمہ داری سونپی جائے گی۔
ممکن ہے کہ بریگیڈیئر کا جانشین اتنا ہی ذمہ دار اور فرض شناس ہو مگر مقدمہ آگے کیوں نہ بڑھا؟ شواہد موجود تھے اور ناقابل تردید ۔ اول ،اس سال ایفی ڈرین کا معمول سے کئی گنا زیادہ کوٹہ کیوں جاری ہوا۔ پھر اتنے چھوٹے سے گمنام دوا ساز ادارے پر غیر معمولی نوازش کیوں ہوئی، جس کا مالک ایک سیاستدان تھا۔ شاید اسی لیے کہ وہ سیاستدان تھے ۔ شاید اس لیے کہ گیلانی صاحب ایسے ہی لوگوں کو پسند کرتے تھے ۔اپنی دم کٹ چکی تھی ۔سب دوسروں کو بھی دم کٹا ہی دیکھنا چاہتے ۔ ایک معمولی سیلز مین ، جو تیزی سے ترقی کرتا ہوا کروڑ پتی ہو گیا تھا۔
اپنی بے گناہی وہ ثابت نہ کرسکا۔ جن 17دوا فروشوں کو اس نے دوا فروخت کرنے کا دعویٰ کیا ، ان میں سے 13 نے صاف صاف انکارکر دیا، اسے جھوٹا قرار دیا۔ چار کمپنیوں کا سرے سے وجود ہی نہ تھا۔ جن تاریخوں کی رسیدیں اس نے پیش کیں ، وہ بعد میں بنائی گئی تھیں۔ گولیوں کا سائز عدالت میں پیش کی جانے والی ٹکیوں سے مختلف تھا ۔ یہ اس نے مارکیٹ سے خریدیں اور اپنی کمپنی کا لیبل چڑھا دیا۔ 6 ملی میٹر کی بجائے ، جو اس کی اپنی مشین کا سائز تھا، یہ 6.6 ملی میٹر سائز کی تھیں۔ خود اس کے اپنے ملازمین نے اس کے خلاف شہادت دی ۔اخبار نویس دم سے ہاتھی یا پر سے کوا بنانا چاہیں تو انہیں روک کون سکتا ہے ۔ ”اخبار نویس بادشاہ لوگ ہوتے ہیں‘‘ صدر غلام اسحاق خان نے کہا تھا۔
آخر کو اس کے وکیل نے بھی یہ کہا : ایفی ڈرین کا شمار منشیات میں نہیں ہوتا اور یہ کہ ملزم کو شک کا فائدہ دے کر بری کیا جاسکتا ہے ۔
مگر فیصلے کا وقت ؟ فیصلے کا وقت اور ماحول؟ ججوں اور جنرلوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ معاشرے کی کیمسٹری کا ادراک نہیں رکھتے ؛ چنانچہ ؛ چنانچہ !
کیا میںجناب ظفر اقبال کی خدمت میں حاضری دوں۔ ان سے گزارش کروں کہ ازراہ کرم میرے ساتھ ، کالم کے عنوان کا تبادلہ کر لیں؟ میں ” دال دلیا‘‘ کے عنوان سے لکھا کروں ۔ ”دال دلیا ‘‘گوارا کرسکتے ہیں تو ” ناتمام ‘‘ کیوں نہیں ؟ آخر یہ نادرِ روزگار اقبال ؔ سے ماخوذ ہے ۔